(قلم کاروان، منگل 11 فروری
2004کی ادبی نشست میں پیش کیاگیا)
مولانا الطاف حسین حالی نے بڑے کرب سے کہا تھا،۔
پستی کا کوئی حَد سے گزرنا دیکھے
اِسلام کا گِر کر نہ اْبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی مَد ہے ہر جَزَر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اْترنا دیکھے
ایک عظیم اور شاندار ماضی رکھنے والادِین اسلام دوبارہ اْسی شان سے منصۂ
شہود پر جلوہ گر ہو، ہر دردِ دِل رکھنے والے مسلمان کی بڑی آرزو ہے؛’
’کھوئے ہوئے کی جْستْجو‘ کیوں کر ہو‘‘ یہ سوال سب کے ذہنوں پر ایک چبھن
چھوڑ جاتا ہے اورسب احساس کے بدن پر اِس خراش کی چبھن لیے آگے بڑھ جاتے
ہیں۔ لیکن ، اِس سوال کے جواب کیلیے اگر ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ اےّام
تْو‘ ‘کے مصداق اپنے ماضی میں جھانکا جائے تو مخبرِ صادق نبی مہربان محمدﷺ
کی یہ حدیث اور آپؑ کے اصحابؓ کا طرزِ عمل ہماری راہنمائی کرتے نظر آتے
ہیں:۔
ـ’’عامر بن واثلہ بیان کرتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث جو کہ مکہّ کے عامل
تھے نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے اہلِ وادی پر کِس کو عامل مقرر
کیا ہے آپؓ نے جواب دیا اِبنِ ابزی کو۔ اْس نے پْوچھا اِبنِ ابزی کون ہے۔
آپ نے کہا ہمارا ایک غلام ہے۔ اْس نے کہا آپ نے ایک غلام کو اْن کا خلیفہ
بنا دیا ۔ اِس پر حضرت عمرؓ نے کہا وہ قرآن کا قاری ہے اور فرائض کو جاننے
والا ہے۔اور تنبیہ کی کہ آگاہ ہو جا، تیرے نبیؐ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ اِس
کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو بلند کرتا ہیں اور کچھ کو ذلیل کرتا ہے‘‘
یہ مکالمہ اور قولِ رسولؐ اِس حقیقت کے غمّاز ہیں کہ قرآن ہی وہ نسخہ کیمیا
ہے جس نے صحابہ کرامؓ کی صورت میں ایک ایسی نسل تیار پروان چڑھائی جسکی
مثال پوری اسلامی تاریخ بلکہ پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ قرآن ہی وہ
سرچثمہ ہے جس سے صحابہ کرامؓ سیراب ہوتے تھے۔قرآن ہی وہ سانچہ تھا جس میں
وہ اپنی زندگیوں کو ڈھالتے تھے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صرف
قرآن پر اْن کا اکتفا اور انحصار اِس وجہ سے نہ تھا کہ اْس وقت دنیا میں
کوئی اور تہذیب و تمدن موجود نہ تھے یا سائنسی کمالات کا وجود ناپید تھا۔
بلکہ یہ تمام مظاہر مختلف شکلوں میں موجود تھے۔ رومی تہذیب موجود تھی اور
اِسکے علم و حکمت اور قانون کا ڈنکا بج رہا تھا۔یونانی منظق ، فلسفہ اور
ادب موجود تھا جو آج تک مغرب کے فکرونظر کا مرجع ہے۔ اِسی طرح عجمی، ہندی
اور چینی تہذیبیں بھی موجود تھیں۔لیکن اِس سب کے باوجود پہلی اِسلامی نسل
کا قرآن سے رشتہ جوڑنا ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔
آپﷺ کا منشأ تھا کہ اِس جماعت کے دل اﷲ کے لیے خالص ہو جائیں۔اِسی کے پیش
کردہ نظامِ حیات کیمطابق وہ اپنی زندگیوں کو سنواریں۔اور ایک ایسی نسل تیار
ہو جسکا دل و دماغ نہایت پاکیزہو اور جسکا احساس و شعور صاف شفاف ہو۔اور
جواباً صحابہ کرامؓ نے بھی قرآن کی طرف اِسطرح رْجوع کیا کہ انکی انفرادی
زندگی بارے میں مالکْ المْلک نے کیا ہدایات دی ہیں اور اِنکی اجتما عی
زندگی کے کیا تقاضے ہیں اور احکامِ الٰہی سنتے ہی ایک سِپاہی کی طرح بِلا
چوں و چرا کاربند ہوجانے میں سبقت کرتے۔ احساسِ اطاعت گزاری نے اِن کیلیے
عمل کو اِس درجہ آسان کر دیا تھا کہ ربِّ ذوالجلال کے احکامات بوجھ کی
بجائے بہت ہلکے محسوس ہوتے تھے۔قرآنی تعلیمات اِنکے دلوں میں اِس طرح نفوذ
کر گیئں تھیں کہ زندگیاں اِسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن گیئں۔پھر اِن
پاکیزہ نفوس نے ایسی تحریک برپا کی کہ جس نے انسانی زندگی کا دھارا بدل کر
رکھ دیا۔ یہی باعث ہے کہ عہدِ رسالت میں جونہی کسی عمل پہ پابندی کا حکم
ہوتا صحابہ کرامؓ اْس عمل کو یک قلم ترک کر دیتے۔ چنانچہ جب شراب کی حرمت
کا حکم نازل ہواتو جس مسلمان تک جس حالت میں یہ حکم پہنچا اْس نے اْسی حالت
میں شراب سے منہ پھیر لیا۔جس کا ہاتھ جامِ شراب لیے منہ کی طرف بڑھ رہا تھا
وہی رْک گیا۔لوگوں نے شراب کے بھرے مٹکے اْلٹا دیے اور مدینہ کی گلیوں میں
شراب کی ندیاں بہہ گیئں۔حا لآنکہ حرمت سے قبل شراب نوشی کی یہ حالت تھی کہ
جاہلی دور کی تمام شاعری شراب کے گرِد گھومتی تھی، طرفہ ابنِ العبد نے یہ
اشعار کہے کہ،۔
ترجمہ: اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں تو
مجھے کسی چیز کی پرواہ نہ رہتی:۔
اِن میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مے نوشی میں سبقت لے جانا اور مے بھی
وہ دوآتشہ کہ جس میں پانی ملایا جائے تو اِس پر کیف آ جائے۔
شراب نوشی ، لذت پرستی اور اِسراف پہلے بھی میری گھٹی میں پڑے تھے اور آج
بھی ہیں۔
آخر وہ دن آ گیا کہ میرا قبیلہ مجھ سے دور ہٹ گیااور مجھے ایسے الگ کردیا
گیاجیسے خارش زدہ اْونٹ کو گلےّ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
زناکاری اِس حد تک رائج تھی کہ معاشرے کی قابلِ فخر روایت بن چکی تھی۔لیکن
اِسلام آنے کے بعد کایایوں پلٹی کہ اگر کسی سے یہ قبیح جرم سرزد ہو جاتا تو
تو وہ خود اپنے آپ کو سزا اور پاک ہونے کیلیے پیش کر دیتا۔سود حرام ہوا،
جوئے پہ پابندی عائدہوئی اور جاہلیت کے رسوم و رواج پامال ہو گئے۔ زندگیوں
میں یہ انقلاب اور کمالِ انسانیت اس بنا پر حاصل ہوا کہ جن لوگوں نے دینِ
حق کو ایک نظام اور ریاست کی شکل میں قائم کیا انہوں نے خود اسے اپنے قلب
اور زندگی میں قائم کیا۔اپنے اخلاق اس سے آراستہ کئے اور اپنے معاملات کو
سنوارا۔ اگر اسلام کے ان پروانوں کا سفر اس انداز میں نہ ہوتا اور دوسرے
تمام جھنڈے پھینک کر لاالہٰ الا ﷲ کا پرچم نہ تھامتے تو مدینہ جیسی اسلامی
ریاست کی بنیاد نہ پڑتی۔
زندگی میں انقلاب کی حضرت مصعب بن عمیرؓ کی مثال بڑی چشم کْشا ہے۔ آپؓ جیسا
جوانِ رعنا اور خوش پوش پورے مکہ میں نہ تھا۔اعلٰی سے اعلٰی ریشمی کپڑا
پہنتے۔ جس گلی سے گزرجاتے وہ گلی غمّازی کرتی کہ یہاں سے مصعبؓ گزرا ہے۔
ایک ایک جوڑے کی قیمت دو دو سو ہوتی جو اْس زمانے میں ایک خطیر رقم سمجھی
جاتی تھی۔پاؤں میں زری حضرمی جوتا ہوتا۔ لیکن قرآنی نظام سے منسلک ہونے کے
بعدجب ہجرتِ حبشہ سے لوٹے تو غریب الوطنی نے اِنہیں دنیاوی لذّات اور اسبا
بِ راحت سے بے نیاز کر دیا۔ جنگِ اْحد میں محسنِ انسانیتؐ نے انہیں علم
برداری کا شرف بخشا۔دورانِ جنگ جب نبی اکرمؐ کی شہادت کی خبر سنی تو بلند
آواز میں پکارا’میں رسول اﷲؐ کا عَلَم سَرنگوں نہ ہونے دونگا‘۔ یہ کہتے ہی
کفّار پہ ٹوٹ پڑے۔ مشرکین کے مشہور شہسوار اِبنِ قمیۂ نے بڑھ کر وار کیا
داہنہ ہاتھ شہید کر ڈالا۔عَلَم دوسرے ہاتھ میں تھاما تو بدبخت نے دوسرا
ہاتھ بھی تن سے جدا کر دیا۔آپؓ نے پھر عَلَم کو کٹے ہوئے بازوؤں سے سینے کے
ساتھ چمٹا لیا تو اِبنِ قمیۂ نے جھنجھلا کر نیزے سے وار کیا اور آپؓ شہید
کردیا۔نبی مہربانﷺ کو آپؓ کی شہادت سے شدید صدمہ ہوا۔آپ کے جسدِ اطہر کے
قریب آئے اور تدفین کا حکم دیا۔ شہیدِ حق کی کفن کی چادر اتنی چھوٹی تھی کہ
سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے۔ آپؐ نے فرمایا پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔
پھر آپﷺ نے قرآن مجیدکی یہ آیت پڑھی:۔
ترجمعہ: مومنوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اﷲ سے اپنا کیا ہوا وعدہ سچ
کر دکھایا اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور انہوں
نے اپنے روّیہ میں زرا تبدیلی نہیں کی۔
قرآن ذہنوں اور دلوں پر اﷲ کی وحدانیت کا نقش ثبت کرتا ہے۔ انقلاب کے فطری
راستے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے برعکس دورِ حاضر کی حکومتوں کو دیکھا جائے
تو ہر چیز روکنے کیلیے قانون، فوج اور پولیس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لیکن ان
سب ہتھیاروں کے باوجود منکرات اور برائیوں کو روکنے میں ناکام رہتی ہیں۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہر نبی نے اپنی اْمت کو پہلا سبق لاالہٰ الا ﷲ کا
دیا۔یہ کلمہ دلوں میں اْتر جانے کے بعد انسان کی اخلاقی حالت اْس بلندی پر
پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی قانون اور پہرے کے بغیر ہی راہِ راست پہ چلنے لگتا
ہے۔قرآن دراصل انسان کی فطرت کو اپیل کرتا ہے اور اْسے خرافات کے انباروں
سے نکالتا اور فطرت کو جِلا بخشتا ہوا اْن تمام چٹانوں کو پاش پاش کرتا ہے
جو انسان کے حق تک پہنچنے کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ قرآن چاہتا ہے کہ
معاشرے کی تنظیم ہو ۔ اِسی قرآن نے محمدِ عربیﷺ کے پروانوں کو اخوت اور
محبت کی لڑی میں پرو کر ایک سیسہ پلاِئی دیوار بنایا اور بدروحنین کے
میدانوں میں اْتار کر کندن کر دیا۔ اِسی بِنا پر اقبال ؒ نے کہا تھا،۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کہ احساسِ زیاں تیر ا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوا ر کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رْخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
قرآن ایک ایسا گروہ اور جماعت وجود میں لانا چاہتا ہے جو اِسے اپنی ذات پہ
لا گو کرنے کے بعد معاشرے کی تعمیر میں فعال کردار ادا کرے۔اور یہ تعمیر
اْس وقت تک ناممکن ہے جب تک باطل اور طاغوتی نظام کی جگہ حق کا نظام قائم
نہ ہوجائے۔اگر نظام درست نہ ہو تو معاشرے کے صالح افراد کابھی نیکی کی راہ
پہ چلنا مشکل ہوتا ہے جیسے نہ چاہتے ہوئے بھی آج لوگ سودجیسی قبیح لعنت میں
مبتلاہونے پہ مجبور ہیں۔اور اگر نظام درست ہو تو بدی کو راستہ بنانا بھی
دشوار ہوتا ہے جیسے مدینہ کے منافقین بھی زبان سے کلمہ پڑھنے پہ مجبور تھے
اور ریئس المنافقین عبداﷲ بن اْبی بھی نمازکیلئے پہلی صف میں سب سے پہلے
موجود ہوتا تھا۔آج بھی ہمیں قرآن کو اپنا رہنما بناکر اْس جاہلی نظام جس نے
ہماری عقلوں کو ماؤف اور ثقافت کو زہرآلود کر رکھا ہے قرآنی نظام ایسا نہیں
کہ پوجا پاٹ کی حد تک اس پرعمل کر کہ اْن ذمہ داریوں سے بری ہوجائیں جن کا
یہ مطالبہ کرتا ہے۔ اور دھڑلّے سے جاہلی نظام کے پْرزے بن کر اس کو مضبوط
کرنے میں ساتھ دیں۔اور صرف زبانی اسلام کی مالا جپتے رہیں۔ بلکہ صبر اور
استقلال کے ساتھ کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے جاہلی قیادت کو اپنے سروں سے
اْتار پھینکیں اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر اﷲ کی غلامی
میں دینے کیلئے اپنے حصہ کی شمع جلایں ۔
بیسویں صدی کی عظیم اور تاریخ ساز شخصیت سید ابوالاعلیؒ نے ایک سوال کے
جواب میں فرمایا تھاـ ’’ قرآن میرے لیے شاہ کلید ہے۔ زندگی کے جس مسئلے پر
لگاتا ہوں وہ کْھل جاتا ہے‘‘۔لیکن ذہنوں میں یہ بات ہمہ وقت مستحضر رہنی
چاہیئے کہ قرآن اپنے خزانے کی کنجیاں صرف اْن لوگوں کو عطا کرتا ہے جو قرآن
کو سمجھ کر اِس پر عمل پیرا ہوں۔یہ اسلئے نازل نہیں ہوا کہ ذہنی لذت اور
تسکینِ ذوق کی کتاب بن کر رہ جائے اور قرآۃِ قرآن ا ور اس طرز کی دوسری
محافل سجا سجا کر اِس کے اصل پیغام سے فرار حاصل کیاجائے اور دلوں کو
بہلایا جاتا رہے۔معاشرے کا حال یہ ہے کہ لڑکی کو شادی کے موقع پر قرآن کے
سائے میں رخصت کیا جاتا ہے خوا زندگی بھر اِسے یہ نہ بتایا گیا ہو کہ اس
کتابِ حق میں اِس کی ازدواجی زندگی کیلئے کیا حقوق و فرائض ہیں۔
بانی پاکستان حضرت قائدِاعظم محمد علی جناح جنہیں ہر دور کا سیکولر طبقہ
اسلام کے دائرے سے خارج کرنے پہ تْلا رہتا ہے نے آل انڈیا ایم ایس ایف
جالندھر کے جلسہ منعقدہ ۱۹۴۳ء میں فرمایا ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ
پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہو گا۔پاکستان کا طرزِ حکومت متیعن کرنے والا
میں کون ہوں۔یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں
مسلمانوں کے طرزِ حکومت کا آج سے ساڑھے تیرہ سو برس قبل قرآنِ حکیم نے
فیصلہ کردیا تھا‘‘۔
لا پھر اِک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
محمد علی گیلانی
۱۱ اپریل ۲۰۱۴ء |