بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(فہم حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاجو اﷲ تعالی اور
روزآخرت پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘
بظاہر دیکھنے سے اس حدیث مبارکہ کے دوحصے نظر آتے ہیں،پہلے حصے میں
ایمانیات کے سبق کوتازہ کیاگیاہے،اور دوسرے حصے میں نفس مضمون کو بیان
کیاگیاہے۔ایمانیات کے اگر چہ متعدد اجزاء ہیں لیکن اس حدیث مبارکہ میں محض
دواجزاکے بیان کو کافی سمجھاگیاہے،توحیداور آخرت۔ان دونوں اجزائے ایمان کا
نفس مضمون سے گہرا ربط بنتاہے۔جو شخص توحید کاماننے والا ہے وہ اس بات پر
یقین رکھتاہے کہ اس دنیاکی تمام نعمتیں ،صلاحیتیں،طاقتیں اور وسائل اس کے
پاس اﷲ تعالی کی امانت ہیں جنہیں ایک مقررہ مدت کے بعد واپس لے لیا جائے
گا۔توحید کا اقراراس بات کا اثبات ہے کہ ایک انسان نے اپنی تمام تر ذہنی
وجسمانی قوایااپنے رب کے سامنے ڈھیر کر لیے ہیں جسے دوسرے الفاظ میں قرآن
نے یوں فرمایا کہ اﷲ تعالی نے مسلمانوں کی جانیں اور انکے اموال جنت کے
بدلے خرید لیے ہیں۔گویا توحید پر ایمان لانے والا اپنے
ہاتھ،پاؤں،زبان،دل،دماغ،آنکھیں،کان وغیرہ سمیت اپنے کل اختیارات و امتیازات
سے اﷲ تعالی کی خاطر دستبردار ہوگیا،اب وہ پابند ہے کہ ان تمام اعضا و
صلاحیتوں کو صرف اﷲ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لیے اسی طرح استعمال کرے جس
طرح نبی ﷺ نے انہیں استعمال کر کے تو امت کو تعلیم دی۔حقیقت میں تو انسان
کے جسم سمیت کل کائنات اﷲ تعالی کی ہی ملکیت ہے لیکن یہ ایک امتحان ہے کہ
کیا انسان اس حقیقت کو مان کر اس کے عملی تقاضے پوراے کرتا ہے کہ نہیں
کرتاکیونکہ سورۃ ملک کی ابتدائی آیات میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ اس اﷲ
تعالی نے یہ زندگی اور موت اس لیے پیدا کی کہ وہ تمہیں آزماکردیکھے تم میں
سے کون اچھے اعمال کرتاہے۔
حدیث کے پہلے حصے میں دوسرا جزوایمان جس کا ذکر کیاگیاوہ آخرت کے دن پر
ایمان لانا ہے۔دنیامیں عطا کی گئی تمام نعمتیں ایک وقت مقررہ پر واپس لے لی
جائیں گی اورپھر روزمحشر انسان کو اسکی آرام گاہ سے اٹھاکرکھڑاکر دیا جائے
گااور اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے رب کی عطا کردہ ان صلاحیتوں کو اپنی من
مرضی کے مطابق استعمال کیایا اصل مالک کے بتائے ہو ئے احکامات کے مطابق
استعمال کیا؟؟اس دن جس کا جواب درست ہوا یعنی جس نے رب کی عطا کردہ
صلاحیتوں اور طاقتوں کو اس دنیامیں امانت سمجھااور ان کواسی طرح استعمال
کیا جس طرح اصل مالک نے اپنے نبی علیہ السلام کے ذریعے حکم دیا تھا تب تو
وہ اچھے انجام تک پہنچ جائے گالیکن بصورت دیگر یعنی نبی ﷺ کی تعلیمات سے ہٹ
کر موج مستی،من مرضی اور ہوائے نفس کے مطابق جیسی چاہی زندگی گزاری اور ان
صلاحیتون کو اپنی ہی ملک سمجھتارہا اور جیسے چاہا استعمال کیا تو پھر انجام
بہت ہی ہولناک ،وہشت ناک اور عبرت انگیز ہے۔
حدیث مبارکہ کے د وسرے حصے میں اچھی بات کرنے یا خاموش رہنے کی ترغیب دی
گئی ہے۔قرآن نے فرمایا کہ’’اور اس سے اچھی بات اور کس کی ہو سکتی ہے جس نے
اﷲ تعالی کی طرف دعوت دی ،نیک عمل کیااور کہا کہ میں مسلمانوں میں سے
ہوں۔‘‘نیک بات کہنے کو روایات میں صدقہ سے بھی کہاگیاہے۔سب سے بہترین بات
قرآن مجید کی تلاوت ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے
بہترین شخص وہ ہے قرآن پڑھے اور پڑھائے‘‘۔اس کے بعد اﷲ تعالی ذکر بہترین
بات ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ کافرمان عالی شان ہے کہ ’’دو کلمے
ہیں،رحمان کوبہت ہی پسند ہیں،زبان پر بہت ہلکے ہیں لیکن میزان میں بہت
بھاری ہوں گے وہ کلمے ہیں سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم‘‘۔درس و
تدریس،تعلیم و تعلم،تبلیغ و ارشاد اور حسن مناظرہ و مباحثہ بہترین باتیں
ہیں جو انبیاء علیھم السلام کی سنت ہونے کے ساتھ ساتھ جن کے ذریعے معرفت کی
روشنی اور ہدایت کا راستہ عالم انسانیت کو میسر آتا ہے ۔دن بھر کے جملہ
کاروباری ،گھریلو،دفتری اور نجی معاملات میں اپنی گفتگو کو شریعت و سنت کے
دائروں کے اندر رکھنا اور بے ہودگی و یاوہ گوئی سے اپنی زبان کو اس لیے
محفوظ رکھنا کہ یہ اﷲ تعالی کی امانت ہے اور روزآخرت اس زبان کا حساب چکایا
جانا ہے گویا اس حدیث مبارکہ کا منشا ئے ارشاد ہے۔
بولنے پر پابندی نہیں لگائی گئی لیکن آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’بہترین بات وہ
ہے جو مختصر ہو اور مدلل ہو‘‘۔خود آپ ﷺ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ مجھے
جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔محسن انسانیت ﷺ بہت مختصر گفتگو کیاکرتے تھے،آپ
ﷺ کے ایک ایک جملے میں معانی کے سمندر چھپے ہوتے تھے ،آپ ﷺکے
ارشادات،خطبات،پندونصائح،زجروتوابیخ اورمعاہدات گویا ایسے ہیں کہ موتی
پروئے ہوئے ہوں۔صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی محفل میں طویل خاموشی
چھائی رہتی تھی،خود آپ ﷺ کو بھی بہت زیادہ باتیں کرنا پسند نہ تھیں اور
مجلس میں موجود مسلمان بھی ادب و احترام کی خاطر خاموش رہا کرتے تھے اور
صحابہ خواہش کرتے تھے کہ کوئی باہرسے آکرکچھ پوچھے تو ہم بھی نبی علیہ
السلام کی گفتگو سنیں اور کبھی کسی نماز کے بعد کوئی عورت آپ ﷺ سے کچھ پوچھ
لیاکرتی تھی اور اس بہانے باقی مسلمان بھی محسن انسانیت کی بات سن لیتے
تھے۔ یہی امت کے لیے بہترین مثال ہے ،کہ طویل گفتگوؤں سے پرہیز کیاجائے
،لمبی لمبی تقریروں سے احتراز کیاجائے اور خوامخواہ کی نصیحتوں کے بوجھ تلے
لوگوں کو نہ دبایا جائے باتیں جتنی زیادہ ہو ں گی گناہ بھی اتنے ہی زیادہ
بڑھتے چلے جائیں گے کیونکہ لمبی بات اورباہمی بے مقصدگپ شپ بہت جلد محفل کو
بے ہودگی کی جانب لے جاتی ہے۔
خاموشی کا حکم حدیث مبارکہ کا آخری حصہ ہے۔خاموشی وہ عمل ہے جس کا تعلق
زبان کی حفاظت سے ہے۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ تم مجھے دو
چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتاہوں ایک وہ جو دو جبڑوں کے
درمیان ہے اور دوسری وہ جو دو ٹانگوں کے درمیان ہے‘‘۔ایک موقع پر محسن
انسانیت ﷺنے فرمایاکہ ’’لوگ اپنے جبڑوں کے بل دوزخ میں دھکیلے جائیں
گے‘‘،یعنی زبان کی کمائی انسان کو دوزخ میں لے جائے گی۔زبان کے بارے میں
قرآنی آیات اوردیگر بہت سے اقول رسول اﷲ ﷺ کی روشنی میں زبان کی ہولناکیاں
انسان کے برے انجام کی خبر دیتی ہیں۔غیبت،جھوٹ،خوشامد،افواہیں اڑانا،نام
بگاڑنا،مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھانا،تہمت اور گالی وغیرہ وہ سب امور
ہیں جو زبان کے راستے انسان کو بالآخر دوزخ کی وادی میں دھکیلنے کا باعث بن
سکتے ہیں،اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے خاموشی کا حکم دے کر گویا ان آفات
السان سے بچنے کی تعلیم فرمائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان ہی انسان کی پہچان ہوتی ہے ،انسان کے اندر جو کچھ بھی
ہوتا ہے وہ زبان کے راستے ہی باہر سے دیکھاجاسکتاہے ،اور انسان کی شخصیت
اسکی زبان کے پیچھے چھپی ہوتی ہے، جب تک انسان خاموش رہتاہے اسکی خامیاں
پردے میں رہتی ہیں ،اسکی شخصیت کا بھرم قائم رہتاہے ،اسکی بھلائیاں اجاگر
ہوتی رہتی ہیں،اسے بھلا مانس سمجھاجاتاہے اور خاموشی کا عمل اسے لوگوں سے
اور لوگوں کو اس کے شر سے محفوظ کر دیتاہے ۔یہی خاموشی غصے کا بھی بہترین
علاج ہے اور اگر بصورت دیگراس زبان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنوں کو
غیر بنادیتی ہے ،دوستوں کو دشمن بنادیتی ہے،امن کو فساد میں بدل دیتی ہے
اور انسانوں کو انسانوں سے جداکرنے کا باعث بن جاتی ہے۔کتنی مشہور بات ہے
کہ تلوارکازخم مندمل ہوجاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ بہت گہراہوتا ہے ،انسانوں
کے درمیان شکایات کی بہت بڑی وجہ زبان ہی ہوتی ہے۔حسن خلق کی زبان سے انسان
دوسروں کو اپنے گرد ایسے اکٹھاکرسکتاہے جیسے مقناطیس لوہے کے ذرات کو اپنی
جانب کھینچ لیتاہے جبکہ بدخلقی و بدزبانی وہ عادت ہے جس سے ڈنگنے والے کا
زہر بچھواور سانپ کے زہر سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور دیرپاہوتاہے۔
حدیث مبارکہ میں محسن انسانیتﷺنے اچھی بات یا خاموشی کی ترغیب دے کر انسانی
معاشرے کو بہت سی اخلاقی آلودگیوں سے محفوظ کر دیاہے۔ایک موقع پر ایک شخص
نے حضرت ابوبکرؓ کو بہت برابھلاکہا،جب تک تو حضرت ابوبکرؓخاموش رہے آپ ﷺ
وہاں بیٹھے رہے لیکن جب حضرت ابوبکرؓکاپیمانہ صبر لبریزہوگیااور انہوں نے
بھی جواباََ کچھ کہ دیاتو محسن انسانیت عالم ناراضگی میں وہاں سے چل
دیے،حضرت ابوبکر آپﷺ کے پیچھے پیچھے چلے آئے اوربڑے ادب و احترام و لجاجت
سے عرض کی وہ اتنی دیر سے برابھلاکہ رہاتھااور جب میں نے جواب دیاتوآپ ﷺ
ناراض ہو گئے؟؟آپ ﷺ نے فرمایا جب تک وہ برابھلاکہ رہاتھا آپ کی طرف سے
فرشتہ اسکا جواب دے رہاتھااور جب آپ نے خود جواب دینا شروع کر دیا تو فرشتے
کی جگہ شیطان آگیااور جہاں شیطان ہو وہاں میں نہیں بیٹھ سکتا۔بہت سی باتوں
اور زیادتیوں کے جواب میں خاموشی بہترین انتقام ہوتا ہے اور یہ خاموشی اﷲ
تعالی اور اسکے رسول ﷺ کی خاطر اختیار کی جائے تو آخرت میں بھی کامیابی کی
ضمانت بن سکتی ہے۔ |