افسوس کہ ہم سرکارؐ کو بھول جاتے ہیں

دی اسلامیہ یونی ورسٹی آف بہاول پور کے گھوٹوی ہال میں 7فروری 2014ء کو ایک ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ بہت سے چہرے ایسے بھی تھے جنہیں پہلی مرتبہ اس روحانی محفل میں دیکھا گیا اور یہ سب لوگ وہ واقعہ سننے کیلئے بیتاب تھے کہ کس طرح مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے سامنے یہ بات پہلی مرتبہ آئی کہ مرزائی غیر مسلم ہیں ۔ 1926ء سے 1935ء تک چلنے والا یہ واقع بہت ہی انوکھا تھا ۔ اس کیس کے مدعی غلام محمدگھوٹوی تھے جو کہ جامعہ عباسیہ حالیہ اسلامیہ یونی ورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی رہے ہیں ۔ ملعون غلام محمد قادیانی نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا اور کسی طرح اس بات علم کسی کو نہ ہو سکے کہ مرزائی مسلمان نہیں ہیں ۔ 9سال تک چلنے والے اس کیس میں فتح مسلمانوں کی ہوئی اور 7فروری 1935ء کو بنائی جانیوالی بینچ جن میں سینئر ججز موجود تھے اور جن کا تعلق ریاست بہاول پور سے تھا تاہم سینئر جج غلام اکبر نے اپنا تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے ریماکس دیئے کہ مرزائی دائرہ اسلام میں نہیں آتے اور یہ واقعی غیر مسلم ہیں ۔ اس کیس میں نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور خاص طور پر اس معاملہ کے حل کیلئے ایک بینچ تشکیل دیا تھا گاہے بگاہے اس معاملہ پر علامہ غلام محمد گھوٹوی سے مشاورت ہوتی رہی ۔ فیصلہ سامنے آنے پر نواب سر صادق محمد خان عباسی کو حد درجہ خوشی ہوئی کیونکہ انکی ریاست میں حق سچ کی فتح اور قادیانیت کے فتنہ کو شکست ہوئی ۔ یہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ اس فیصلہ کے بعد جناب ذولفقار علی بھٹو اس وقت کے وزیر اعظم نے بھی اسی فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے 1973ء کے آئین میں مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور دائر اسلام سے انکا تعلق ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا ۔

اسلامیہ یونی ورسٹی کے گھوٹوی ہال میں اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ محفل عاشقان رسول کی ہے مگر جب میری نظر سٹیج پر پڑی تو وہاں پر موجود سیّد جعفر شاہ مہر آباد شریف ( لودھراں) پیر سیّد ظفر علی شاہ جامعہ غوثیہ (لودھراں) جو کہ علامہ غلام محمد گھوٹوی صاحب کے پوتے بھی ہیں جبکہ پروفیسر غلام نصیر الدین شبلی (اسلام آباد) ‘ محمد صادق قادری (مدینہ منورہ ) ‘ پروفیسر غلام محمد جی اے حق (اسلام آباد) سٹیج پر براجمان تھے تاہم ان سب کے درمیان ایک کرسی خالی تھی ۔ میرے ساتھ میرے ایک دوست جناب ہارون یاور نے اس طرف توجہ دلوائی کہ اور کہا کہ یہ سیٹ کیوں خالی ہے ۔ اس کے بعد میری توجہ اس سیٹ کی جانب چلی گئی ۔ واقعی وہ کرسی خالی تھی اور موجودہ وائس چانسلر دی اسلامیہ یونی ورٹی آف بہاول پور ڈاکٹر مختار احمد کے انتظار میں تھی کہ وہ کب جلوہ افروز ہونگے اور کب اس روحانی محفل آئینگے ۔ مگر کچھ دیر کے انکی جانب سے بھیجا گیا پروفیسر لیول کا ایک نمائندہ آیا اور اس سیٹ پر بڑے ٹھاٹ سے براجمان ہو گیا ۔ سٹیج سیکرٹری نے بتایا کہ وائس چانسلر کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے وہ نہ آ سکیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ انکی واقعی طبیعت خراب ہو کیونکہ یونی ورسٹی ہذا میں آئے روز مختلف پروگرام ہوتے ہیں ‘ سیمینارز ہوتے ہیں ‘ کانفرنسز ہوتی ہیں سب تقریبات کی نمائندگی وائس چانسلر موصوف نے خود کرنی ہوتی ہے ۔ مگر اس سیمینار میں تو صرف مولانا حضرات و عاشقان رسول تھے تاہم کوئی وفاقی وزیر نہ تھا ‘ کوئی سرکاری اعلیٰ افسر نہ تھا ہو سکتا ہے کہ وائس چانسلر اس وجہ سے بھی نہ آ سکیں ہوں ۔ اگر کوئی بڑی ملکی یا غیر ملکی شخصیت ہوتی تو وہ ضرور آتے ۔ شاید وائس چانسلر یہ نہیں جانتے کہ یہ نورانی محفل اس شخصیت کے نام کی تھی جس نے نہ صرف مرزائیت کیخلاف علم حق بلند کیا بلکہ ریاست بہاول پور اور یونی ورسٹی ہذا کا نام روشن کیا جبکہ علامہ غلام محمد گھوٹوی اسی یونی ورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے تاہم عین ممکن ہے کہ یہ پیشہ ورانہ جیلسی ہو کہ انکی ایک دم طبیعت خراب ہو گئی ہو اور وہ اس روحانی محفل میں نہ آ سکیں ہوں ۔

مجھے اُس وقت بھی بہت افسوس ہوا جب ہال میں بیٹھے کچھ عاشقان رسول نے پانی مانگا مگر اس وقت یونی ورسٹی کا کوئی ملازم یا اہلکار نظر نہیں آ رہا تھا مگر یہاں کوئی وفاقی وزیر یا وائس چانسلر ہوتا تو سب عملہ یونی ورسٹی کی دوڑیں لگی ہوتی اور وائس چانسلر کی کرسی کے پیچھے نائب قاصد لیول کا ملازم ہر وقت کھڑا ہوتا ہے مگر یہ تو عاشقان رسول کی محفل تھی اس میں یونی ورسٹی انتظامیہ و وائس چانسلر کی عدم دلچسپی کے باعث عاشقان رسول پانی جیسی نعمت سے بھی محروم رہے ۔ جب بھی یونی ورسٹی میں کوئی بڑی تقریب ہو تو وائس چانسلر صاحب اپنا جوتا تک پہننا بھول جاتے ہیں ۔ آتے ہیں وہی جنہیں سرکار بلاتے ہیں تاہم سیمینار میں سب سے بڑی بات یہ دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ بہت سے ایسے بزرگ جنہیں بیٹھنے کیلئے کرسی نہ ملی مگر وہ کسی بھی قسم کا کوئی عذر اعتراض کئے بغیر نیچے زمین پر ہی بیٹھ گئے ۔ ایک وہ تھے جن کا نام بہت بڑا لکھا ہوا تھا اور وہ نظر ہی نہیں آئے ۔ آخر میں مولانا ظفر علی گھوٹوی پوتا علامہ غلام محمد گھوٹوی نے انتہائی عاجزی سے شرکاء سمینار سے کہا کہ محفل تو بہت بڑی اور سرکارِ دو عالم کی ہے مگر ہم آپکی کوئی خاطر تواضع نہ کر سکے ہیں تاہم دعاء کے بعد ہال خالی ہونے لگا اور بہت افسوس ہوا کہ دی اسلامیہ یونی ورسٹی کے پہلے وائس چانسلر و ریاست بہاول پور کی ایک قد آور روحانی شخصیت کے حوالے سے سیمینار تھا اور موجودہ وائس چانسلر نے سمینار میں آنا تک گوارہ نہ کیا اور انتظامیہ آئی یو بی نے آنیوالے شرکاء و مہمانوں کو کوئی پروٹوکول نہ دیا ۔
افسوس کہ ہم سرکارؐ کو بھول جاتے ہیں ‘
مگر سرکارؐ ہم کو نہیں بھولتے ۔
Mirza Arif Rasheed
About the Author: Mirza Arif Rasheed Read More Articles by Mirza Arif Rasheed: 11 Articles with 8572 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.