چودہ فروری کو یوم محبت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دنیا
بھر میں اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔دیگر بہت سی خرافات کے ساتھ اب
اسلامی و فلاحی ریاست پاکستان میں بھی اس دن کو منایا جانے لگا ہے۔ مجھے
بعض لوگوں کی یہ بات کہ ماس میڈیا مادر پدر آزاد ہے اس وقت سچ لگنے لگتی ہے
جب میں یوم محبت کے پروگرامز کو تو دن بھر چلتے دیکھتا ہوں مگر مسجد میں
ہونے والے بم دھماکے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کی خبر صرف بطور
ـ"ticker" چل رہی ہوتی ہے، "جے ہو" کی تشہیری مہم تو کئی کئی ہفتے جاری
رہتی ہے مگر بھارتی سورماؤں کے ہاتھوں کی بلا اشتعال فائرنگ سے شہید ہونے
والے بے گناہ شہری کی تیس سیکنڈ کی خبر چلتی ہے۔ میں اس ملک کے میڈیا کی
بات کر رہا ہوں جس ملک کے غریب تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں مگر اس
ملک کے حکمران اسی غریب کے کروڑوں روپے اپنی عیاشیوں کی نذر کر رہا ہے۔یوم
محبت کا جس قدر اہتمام پاکستانی میڈیا نے کیا اس سے تو یہ لگتا ہے کہ پوری
قوم نے خوب جوش و خروش سے اس دن کو منایا اور بھر پور انجوائے کیالیکن
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عام آدمی کو تو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ جس کے
پاس عیدپربھی اپنے بچوں کیلئے نئے کپڑے خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے اسے کیا
خبر کہ یوم محبت کیا ہے، کب آیا، کب گزر گیا۔ پانچ فیصد کے عمل کو پچانوے
فیصد کا عمل ظاہر کرنے کی بھونڈی سی کوشش کی گئی۔ دراصل ہمارے اذہان اب بھی
غلام ہیں۔ ہم اپنے آقاؤں کی قدم بوسی میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کی
پیروی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں جُتے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ ہمیں
محبت کا درس کیا دیں گے جو اپنے کتے کو تو ساتھ سلاتے ہیں مگر اپنی ماں کو
اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کو بنا جنگ کے مغلوب
کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں کو تعیشات میں الجھا دو۔ بغور جائزہ لیا جائے تو
ہم بھی اسی سازش کا شکار نظر آتے ہیں۔شرم و حیا جس معاشرہ کی اعلیٰ رویات
میں سر فہرست تھی ، اب وہاں کا نوجوان ویلنٹائنز ڈے منا کر خود کو مہذب
خیال کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا واسطہ بہت عیار دشمن سے پڑا
ہے۔ مگر ہم کب تک فحاشی کو جدت کا غلاف اوڑھا کراپناتے چلے جائیں گے؟ ہماری
آنکھیں کب کھلیں گی؟ جب پانی سر سے گزر جائے گا؟ جب واپسی کے تمام راستے
بند ہو جائیں گے؟ کیا ہم یونہی اپنی روایات و اقدار کو قدامت پسندی کا نام
دے کر تاریخ کی کتابوں تک محدود کر دیں گے؟نہیں، ہر گز نہیں۔ ہمارے نوجوان
کو فحش روایات اور تعیشات کو چھوڑ کر ملکی ترقی کے لئے تن من دھن کی بازی
لگانا ہو گی، اپنی تمام تر توانائی کو تعلیم کے میدان میں صرف کر کے ایک
مضبوط اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھنا ہو گی،اپنی آنے والی نسلوں کے
بہتر مستقبل کے لئے خواب غفلت سے بیدار ہونا ہو گا، ملک میں موجود دہشتگردی
کے خلاف کھڑے ہو نا ہو گا، کرپشن کے عفریت کے سامنے دیوار بننا ہو گا، مغرب
زدہ ہونے اور اس پر فخر کرنے کی بجائے اپنی اقدار کو پہچاننا ہو گا۔ صرف
اسی میں ہماری بقا کا راز پنہاں ہے۔۔۔۔ |