جستجو فطرتِ انسانی ہے۔

بسم اللہ الرحمان الرحیم

ہر انسان کسی نہ کسی جستجو، کسی نہ کسی تلاش میں ہے۔ اب یہ تلاش علم کے لئے ہو، اقتدار کے لئے ہو، دولت کیلئے۔ شہرت کیلئے، یا کسی بھی اور سلسلے کی جتجو ، لیکن انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے، اسلئے اپنی جستجو کرنے کی بجائے دوسرون کی کیجاتی ہے۔ دوسرون کے معاملات ، کردار، ازواجئ معاملات میں نہایت محنت اور تندہی سے جستجو کی جاتی ہے، کیونکہ ہمارے معاشرہ کا ہر فرد کا اپنے متعلق یہی خیال ہے، کہ وہ اپنے متعلق بہت کچھ جانتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے، ہر شخص اپنے متعلق بہت کم جانتا ہے۔ اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ اور نہ ہی ضرورت سمجھتا ہے۔ بقول علامہ صاھب۔ ـ (اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے) ۔

انسانی ذہن ایک اندھیرےکنوئیں کی طرح ہے۔ بظاہر ہر انسان اپنے متعلق یہی سمجھتا ہے ، کہ وہ اپنے متعلق بہت کچھ جانتا ہے، لیکن جون جون ذہن کی گہرائیون میں اترتے جائیں، حیرت کےدروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ، کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ظاہری خواہشات کے بارے میں ہر انسان جانتا ہے۔ اسکو علم، دولت، شہرت، اقتدار، عورت، کی ضرورت اور خواہش ہے۔ جو انسانی حواس خمسہ کی تسکین ،تفریح اور لطف ،اور لذتون کے لئے ضروری ہیں۔ اور انکے حصول کے لئے وہ جستجواورکوشش بھی کرتا ہے۔ اور پوری نہ ہونے پر یا ان کی تکمیل نہ ہونے پر، غصہ،مایوسی، بے اعتمادی، جھنجھلاہٹ رشک، حرص، انتقام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور اگر یہ تمام خواہشات پایہء تکمیل کو پہنچ جائیں، تو خوشی، اعتماد، تسکین، سکون اور وقار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں،۔

یہ سب ظاہری اور عمومی خواہشات ہیں، یعنی انسانی شخصیت کا اوپر کا خول یا چھلکا۔ جو بظاہر سب کو نظر آتا ہے۔ لیکن انسان کی اندرونی اور پوشیدہ خواہشات اور کیفیات ، اچھی یا بری ، نفسانی یا روحانی، کا علم ایک ماہر نفسیات ہی حاصل کرسکتا ہے۔

اللہ پاک نے انسانی ذہین کو دو حصون میں منقسم کیا ہوا ہے ، شعور، اور لاشعور (سافٹ ڈسک، اور ہارڈ ڈسک) اوپر دی گئی تشریح انسانی ذہن کے شعوری حصہ کی ہے یعنی (سافٹ ڈسک) اب ہم لاشعور( ہارڈ ڈسک) کے بارے میں بات کرینگے۔

انسانی ذہین کا گودام یا اسٹور، جسے ہم لاشعور (ہارڈ ڈسک) کہتے ہیں۔ جسمیں برسون پرانی، یادین، خواہشات، آرزوئیں جذبات، احساسات تہ در تہ موجود ہیں۔ جنکا شعور سے بظاہر واسطہ نہیں ہے۔ جبکہ شعور ایک سجے سجائے شوروم کی طرح ہے۔ جسکا ہماری ظاہری زندگی سے بھرپور واسطہ ہے۔ جسکا تعلق ظاہری اور بنیادی خواہشات سے ہے، جبکہ لاشعور سے ابھر نے والی کوئی خواہش یا آرزو صرف اشد ضرورت یا پھر حادثاتی طور پر شعور میں سج سنور کر ظاہر ہوتی ہے۔ یا جب اسکی اشد ضرورت پڑتی ہے۔
خیالات کی بنیاد سوچ ہے، اور سوچ بچار ایک عمل ہے، اور لامحدود عمل ہے۔ اور یہ ماضی، حال مستقبل میں سفر کرتا ہے۔ ماضٰی کے عمل کو یادون سے، حال کے عمل کو خواہشات سے، اور مستقبل کے عمل کو حسرت، پلاننگ، آرزو کا نام دیا جا سکتا ہے۔

لا شعور اپنے اندر پرانی اچھی اور بری دونون یادون کو اپنے اندر ذخیرہ کرتا ہے اور جب انسان اپنے ماضی میں سفر کرتا ہے، تو یہ خیالات ایک روانی کی طرح آتے چلے جاتے ہیں، آپ کو صرف سبجیکٹ کو دماغ میں لانا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپکا کوئی بہت ہی پرانا دوست اچانک فون کر تا ہے، اور آپ سے بات شروع کرتا ہے، سب سے پہلے آپ اسکے لہجے، اور انداز گفتگو کو لاشعور میں تلاش کرتے ہیں، اور لمحون میں ، آپکو اسکا نام یاد آجاتا ہے، بھر دیگر معلومات پانی کی لہرون کی طرح آپکے شعور میں ابھر نے لگتی ہیں، اور ماضی کی باتین، وقت ، شرارتیں، ماحول، ایک فلم کی طرح سامنے آنے لگتے ہیں، اسوقت آپ اپنے آپ عمر کے اسی حصہ میں پہنچ جاتے ہیں۔
بقول شاعر: آئی جو انکی یاد ۔۔تو آتی چلی گئی۔

اسی طرح جب آپ کسی موقعہ پر یا حادثاتی طور پر گناہ، ناکامی، دھوکہ، کسی کی موت، کسی کی بے وفائی، یا کوئی بہت ہی تلخ یاد کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں، تو ایک فلم کی طرح یہ سلسلہ ذہن میں آتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور آپ ایک دم چھلانگ لگا کر عمر کے اس حصے میںپہنچ جاتے ہیں۔ جہان وہ واقعہ ہوا تھا۔اسی سلسلے ، میں ہونے والی زیادتی، محرومی، ناکامی کے اثرات بھی آپ پر حملہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جو آپ کے ذہنی، اعصابی، نفسیاتی، جسمانی، نظام پر حملہ کرتی ہے۔ اب یہ انسان کی قوت مدافعت پر منحصر ہوتا ہے ۔ کہ کس حد تک برداشت کرسکتا ہے۔ اگر وہ قوت مدافعت کمزور ہے۔ تو انسان ، کا ذہنی، اعصابی نظام دہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ انسان جنونی، مرگی، ہائی بلڈ پریشر، ہاٹ اٹیک، فالج، گونگا پن، احساس کمتری، راتون کی بے خوابی، ڈراؤنے خواب، نیند نہ آنا، ہاتھون پیرون میں لرزہ۔ تشنج جیسی امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ بعض مراحل میں انسان جلد نارمل ہوجاتو ہے۔ اور بعض دفعہ کسی ایک بیماری کا مستقل مریض بنکر رہ جاتا ہے۔

ایسی کیفیات میں دو طریقے ایسے ہیں، جن سے انسان اگر فائیدہ اٹھانا چاہے، تو اٹھا سکتا ہے۔ اور یہ دونون طریقے آسان بھی ہیں ۔ اور فائیدہ مند بھی۔

1؛،۔ آزاد گوئی :۔ کسی سنسان جگہ، یا ایسی جگہ جہان آپکو دیکھنے اور سننے والا کوئی نہ ہو۔ اپنے ذہن کو آزاد چھوڑ دین، جس حادثہ کا شکار ہوئے ہیں ، اسپر بولنا شروع کر دین۔ بے تکان، اونچی آواز میں جو دل میں آئے کہتے جائیں، چیخنے کا موقعہ آئے زور زور سے چیخیں۔ دھاڑین مار مار کر روئیں۔ جو دل میں آئے سب کہہ دین۔ کوئی شرم کوئی جھجک نہیں، مادر پدر آزاد ہوجائیں، تمام احتیاتی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دین ۔ جتنا جی چاہیں بولیں، بولتے جائیں بولتے جائیں، یہان تک کی تھک جائیں، اور نڈھال ہو کر گر پڑیں، یہ آپ کی اپنے آپ سے دفاعی جنگ ہے، اور اسے آپ نے جیتنا ہے ہرحال میں۔ لمبے لمبے سانس لیں۔ یا د رکھیں۔ آج آپ سب پابندیون سے آزاد ہیں۔ تھوڑی دیر بعد آپ اپنے آپ کو بہت نارمل اور ہلکا مھسوس کرین گے۔ آپ پرسکون ہوچکے ہونگے۔

2:۔ آزاد نویسی:۔ آپ کو لکھنا آتا ہے۔ جانتے ہیں۔ کہیں باہر نہیں جاسکتے، زیادہ بول نہیں سکتے ۔ یہ طریقہ اپنائین۔ کمرہ بند کرین، اور کاغذ پینسل لیکر لکھنا شروع کردین، شرائط وہی ہیں ، جو بولنے میں ہیں۔ جو دل میں آئے لکھیں، مادر پدر آزاد ہوکر لکھیں۔ جو دماغ میں آرہا ہے لکھیں۔ الفاظ کی کوئی قید نہ ہو، آزاد لکھنا ہے، اور لکھتے جانا ہے۔ رکنا نہیں ہے سوچنا نہیں ہے لکھنا ہے صرف لکھنا۔ اپنے دماغ میں جو کچھ ہے لکھنا ہے، کوئی راز راز نہ رہے آج۔ بے لگام ہوکر لکھنا ہے، اپنے بارے میں لکھنا پڑے لکھیں۔ بس لکھتے جائیں۔ جب کچھ باقی نہ بچے اور ذہن خالی ہوجائے۔تو قلم رکھ دین۔ اور لمبے لمبے سانس لین اور تھکاوٹ دور کرین۔ تھوڑی دیر بعد آپ اپنے ذہن کو خالی خالی محسوس کرینگے ۔ اب آپ ان کاغذات کو آگ لگا دین۔
جب بھی زندگی میں ایسی کیفیت ہو۔ ایسا کرین۔ جب ضرورت محسوس کریں۔ بار بار کریں ۔ ایکدن آپ تلخ یادون سے آزاد ہوجائیں گے۔ اور شعور کے ساتھ جئین گے۔ نہ کہ لاشعور کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ اور ایک نارمل انسان کی زندگی گزارین گے۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر۔فاروق سعید قریشی۔
 
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 21607 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More