سارے رابطے کٹ گئے ،ساری رشتہ داریاں ساری دنیا داریاں
تھوڑی دیر کے لئے Pause،سارے بہن بھائی تھوڑی دیر کے لئے ختم،تمام سیاسی
وغیر سیاسی خبروں سے ناطہ کٹ گیا،آن لائین اور آف لائین کی قلم کشائی بھول
گئی،اپنی شاعری افسانہ نگاری ٹھس،دنیا کی لوڈ شیڈنگ،روشنی،شور شرابے،سردی
گرمی دفتر اور روزمرہ زندگی کے تمام مسائل سے کہیں دور محض دس منٹ کا بے
ہوش ہونا نہ صرف احقر کیلئے بلکہ میری بیوی بچوں کے لئے ایک بہت بڑاسوال بن
گیا۔مہینہ کیسے گزارنا ہے ،بجٹ کیسے بنانا ہے،آج کیا پکایا ہے کل کیا پکے
گا ،سب کچھ وہم گمان سے نکل گیا۔واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اک ذرا سا چکر
کیا آیاکہ سوچا کہ سنبھل کر اٹیچڈ بیڈ روم تک پہنچ جاؤنگا مگر نہیں ایسا
نہیں ہوسکا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم ٹھہرا تھا کہ احقر کے
سترکلو کے پرغرور جسم کو زمین کے سخت فرش پر ٹکرایا جائے تاکہ احقر کو بھی
اپنے کچھ نہ ہونے کا یقین ہو جائے ۔جسم کے سارے نظام رک گیا ،چکر کر ایسے
گرے کہ سر فرش پر اور داہنی کہنی کمرے کے دروازے سے جا ٹکرائی ،پھر کیا رات
کے ساڑھے بارہ بجے میرے پانچ مرلے کے گھر میں گویا ایک بہت بڑابھونچال
آیا،گھر کے دوردیوار ہلائے ،میری ہمسفر نے میرے دل پر اپنے دونوں ہاتھ کئی
بار مارے اور کہا کہ’’ اٹھوبھلے مانس! تم نے تو ساری زندگی ساتھ نبھانے کا
عہد کیا تھا،بس آٹھ سال کے بعد ہی اکیلے چھوڑ کر فرار کا رستہ کیوں ڈھونڈ
رہے ہو،یہ تین بچے میں اکیلے کیسے پالوں گی؟‘‘ ۔اس کے لامتناہی سوالوں کا
جواب دینے کے لئے دل نے سانسوں کا رشتہ دوبارہ بحال کیا ۔دس منٹ پوراجسم بے
دم رہا،پرسکون اورسرد،دونوں آنکھیں ایک جگہ رکنے کے بعد کافی دیر کے لئے
بند رہیں اور پھرزندگی ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح دوبارہ لوٹ آئی۔ہوش
آئی تو کسی کمپیوٹر کی نئی ونڈوز کی طرح گویا ریفرش تھا۔سر کے پچھلی طرف
اور جسم کے باہنی طرف شدید درد تھا۔میرا بڑا بیٹا طہٰ میرے سرپر کھڑا پہلے
ہنستا رہا اور ما ں سے بولا کہ ’’دیکھو ماما بابابھی آج کیسی ایکٹنگ کر رہے
ہیں؟‘‘اس کی ماں کے آنسومیرے چہرے پر بارش کی بوندوں کی مانند گرنے لگے تو
طہٰ بھی پریشان ہوگیا۔سات سالہ طہٰ رونے لگا اور ماں سے پوچھا کہ
’’ماماں،بابا کو ایک دم سے کیا ہوگیا؟‘‘۔میرا پانچ سالہ شہیر اور چار ماہ
کا سلطان تمام پریشانیوں سے بے خبر لمبی تان کے سوئے رہے۔
مجھے فقط یاد تھا کہ ایک چکر آ رہا ہے ،لیکن اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ
یہ چکر دس منٹ کے لئے مجھے دنیا سے کٹ آف کر سکتا ہے۔ہوش میں آنے کے بعد
میں نے گھروالوں کو سختی سے منع کیا کہ اتنی سرد رات کے اتنے زیادہ وقت میں
خبردار کسی کو بتانے کی ہر گز ضرورت نہیں ،اس وقت میں ماشاء اﷲ ہوش و حواس
میں ہوں۔صبح ہوئی تو ڈاکٹرز کی خدمت میں حاضری لگوائی،ان کو بتایا کہ بھائی
صاحب رات کو سبزی کے ساتھ کے ساتھ کھانا کھایا ہے کوئی مرغ مسلم نہیں
کھایا۔ڈاکٹرز سے گزارش کی کہ’’ بھائی جان اس بار ذرا دھیان سے چیک کریں چار
سال بھی احقر دو منٹ کے لئے چکرا کے بیہوش ہوا تھا لیکن آپ نے دوائیوں کی
پنڈلی دیکر فارغ کر دیا تھا،اب تو دس منٹ کے لئے فارغ ہوئے ہیں کہیں
خدانخواستہ تیسری دفعہ پکے ہی نہ چلے جائیں‘‘۔بھلا ہو ڈاکٹرز کا کہ انہوں
نے تھوڑی سی توجہ دی۔ای سی جی اورایکو ٹیسٹ کے بعدچوبیس گھنٹے کے لئے ہولٹر
مانیٹر مشین نصب کردی گئی۔اگلے دن بغیر ناشتہ اور ناشتہ کے ساتھ ٹیسٹ لے
لئے گئے۔ڈاکٹرز کے بقول بس ذرا سا بلڈ پریشر ہائی ہونے کا اشارہ ضرور ملا
لیکن اس دس منٹ کی بے ہوشی کی طرف تاحال ڈاکٹرز کی انویسٹیگیشن جاری ہے۔
قارئین تجربہ آپ سے شیئر کرنے کے دو مقاصد ہیں ایک تو یہ کہ آپ سب کی دعاؤں
کا ساتھ ہو جائے اور دوسرا یہ کہ آپ سب کو بھی نصیحت کر دوں کہ یہ زندگی
ہے،بہت مختصر مگر بہت ہی تجربہ آزما،حضرت آدمؑ کے دور سے لیکر اب تک حضرت
انسان نے کچھ بھی تو سبق نہیں سیکھا۔ہمارے پڑوسی بھوکے ،ننگ
دھڑنگ،مجبور،لاچار اور بے حال مر کھپ جاتے ہیں اور ہم نام نہاد اپنے ٹی کی
آواز کم کر کے ان کی آہوں کو سننا تک گوارا نہیں کرتے۔دکانداروں کو زیادہ
معاوضے کے لالچ میں عمر بھر ملاوٹ کی عادت بے چین رکھتی ہے اور وہ دل بھر
کے ہر مال میں ملاوٹ کرتا ہے۔دودھ فروش زیادہ دودھ ،دہی اور مکھن بنانے کے
لئے نت نئے گُر نکالتا ہے او ر غلیظ پانی ،صرف اور نجانے کون کون سا کیمیکل
ملانے سے باز نہیں آتا۔ہمارے قصائی زیادہ کمانے کے چکر میں گوشت کو بار بار
دھونے کے علاوہ غلیظ گوشت بیچنے سے باز نہیں آتے۔ہمارے گھروں تک صاف ڈبے
میں اور مارکیٹ میں کھلا ملنے والاکوکنگ آئل نجانے کتنے کتنے غلیظ طریقوں
سے نکل کر ہمارے کھانوں کے ذریعے ہمارے جسم میں روانی کرتا ہے۔
منرل واٹرز کی بوتلوں میں نجانے کون کون سے نالیوں کا گندہ پانی مکس ہو کر
ہمارے معدوں کو سیراب کرتا ہے۔سبزی نجانے کتنے مہینے دھل دھل کر عام آدمی
کی ہانڈی میں پہنچتی ہے اور بے ذائقہ ہونے کے باجود کھائی جاتی ہے۔ہم لوگ
فیس بک کے ہیرو، وزیراعظم اور مسلمان ہوتے جا رہے ہیں۔جعلساز اور بے ایمان
ہماری طرح کے نام نہاد مسلمان ہیں جو کہ جعلی سرخ مرچیں،جعلی چینی،سر گنجے
کرنے والے جعلی صابن اور شیمپو،چہروں کو تباہ وبرباد کرنے والی نقلی کریمیں
اورجعلی اشیاء کی دھڑا دھڑ پیداوار بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دہشت گرد نعوذ
باﷲ اپنے آپکو بہت بڑا مسلمان دکھانے کے لئے ناحق خون بہانے سے باز نہیں
آتے ،دھماکے اور دہشت گردی کر کے لوگوں اور حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔یہ
ظالم اس درس کو نہیں دیکھتے جو کہ ہمارے دین نے دیا ہے اور یہ نہیں دیکھتے
کہ اسلام تو پیار سے پھیلا تھا ہمارے نبیﷺ نے اسلام کے لئے کسی کے ساتھ
زبردستی نہیں کی اور نہ ہی خدانخواستہ نا حق کسی کی گردن کاٹی۔
حضورﷺکے زمانے میں مسلمان مہمان کے آنے کو رحمت سمجھتے تھے اور گھر میں
مہمان آنے کی دعائیں کرتے تھے۔ہمارے پیارے نبیﷺ کتنے عظیم ہیں کہ جوگھر میں
آنے والے مہمان کے پاخانے تک کو اپنے ہاتھ سے دھونا فضیلت سمجھتے تھے لیکن
ایک ہم ہیں کہ ہر روز دعا کرتے ہیں کہ کوئی مہمان گھر نہ آجائے اور اگر
کوئی غلطی سے آجا ئے تو ہم اس کو گھر سے نکالنے کی سو حجت بازی تک سے باز
نہیں آتے۔ہماری رشتہ داریاں اور خلوص سب کچھ جعلی ہے۔ہماری روز مرہ زندگی
بجلی کے بٹن کی طرح ہے کہ جو ہم دباتے ہیں اور طے شدہ کاموں کے علاوہ کچھ
بھی نہیں۔مثلاً صبح کا آغاز نماز ،تلاوت پڑھے بغیر کرتے ہیں،دن کو ہر جگہ
بے ایمانی،موقع پرستی،جھوٹ،ریاکاری اور مکاری سے باز نہیں آتے۔شام کو پیٹ
بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ٹی وی دیکھتے ہیں اور تھک کر بغیر عشاء کی نماز کے
سو جاتے ہیں۔یہی کام ہر روز چلتے ہیں۔جو زیادہ جھوٹا اور چالاک وہ اتنا
کامیاب و کامران یہی ہمارا شیوہ ہے۔احقر تو دس منٹ آف ہونے کے
بعدخدانخواستہ ایک سیکنڈ آف ہونے سے بھی ڈرتاہے کیونکہ اگلے جہان قلم کاری
نہیں بلکہ اعمال کام آئیں گے،وہاں پوچھا جائے گا کہ کوئی نیکی بھی کی ہے یا
خالی سیاہی ہی ضائع کی ہے ۔قارئین یہی وقت ہے کہ ہم سارے سدھر جائیں ورنہ
سو سالہ زندگی بھی کسی کام کی نہیں۔جھوٹ فریب،دغازی اور فراڈ سب تباہی کا
سامان ہے۔اﷲ نہ کرے کہ یہ چھوٹی سی عمر رائیگاں جائے۔قارئین دیر نہ کریں
،ہر پل کوئی اچھا قدم اٹھائیں کیونکہ دنیا سے اٹھ گئے تو واپسی کا کوئی
چانس نہیں لیکن جب تک چانس ملا ہے کوئی اچھی اننگ ہی کھیل لیں،کوئی نیکی ہی
کما لیں توآؤ آغاز کریں۔ |