بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سفر ایک ایسا عمل ہے جس کااسلامی شریعت نے اعتبار کیاہے اور مسافر کی دقتوں
اور مشکلات کے پیش نظر اس کے احکامات میں تخفیف کر دی ہے۔روزہ کے بارے میں
اﷲ تعالی نے فرمایا کہ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل
کیاگیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضع تعلیمات پر مشتمل ہے
جوراہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کررکھ دینے والی
ہیں۔لہذااب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے
روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یاسفرپر ہو تودوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد
پوری کرے ،اﷲ تعالی تمہارے ساتھ نرمی چاہتاہے سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘(سورۃ
بقرہ آیت185)۔’’اگرتم سفر کی حالت میں ہواور (قرض کی)دستاویز لکھنے کے لیے
کوئی کاتب نہ ملے تو رہن بالقبضہ پر معاملہ کرلو‘‘(سورۃ بقرہ
آیت283)۔’’اوراگرکبھی ایساہوکہ تم بیمار ہو یا سفر میں ہویاتم میں سے کوئی
شخص رفع حاجت کرکے آئے یاتم نے عورتوں کو لمس کیاہو اور پھر پانی نہ ملے
توپاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو ،بے شک
اﷲ تعالی نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔‘‘(سورۃ النساء
آیت43)۔’’اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو توکوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں
اختصارکرلو (خصوصا)جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافرتمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ
کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔(سورہ نساء آیت101)۔’’اے لوگوجو
ایمان لائے ہو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کررہاہو
تواس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی
گواہ بنائے جائیں ،یااگرتم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش
آجائے تو غیر لوگوں میں سے ہی دو گواہ لے لیے جائیں ‘‘سورۃ المائدہ
آیت106)۔
حضرت خولہ بنت حکیم رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاجو شخص اثنائے
سفر میں کسی منزل پر اترے تواس وقت یہ دعاپڑھ لے ’’اعوذباﷲ بکلمات اﷲ
التامات من شر ماخلق‘‘(میں اﷲ تعالی کے کلمات تامہ کی پناہ لیتاہوں اس کی
ساری مخلوقات کے شرسے)۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم
رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے اورآپ ﷺ کامعمول مبارک تھا کہ جب وہ بستی
دکھائی دیتی جس میں پہنچنے کاارادہ ہوتاتو آپ ﷺ تین دفعہ فرماتے ’’اللھم
بارک لنا فیہ‘‘(اے اﷲ تعالی ہمارے لیے اس بستی کو مبارک کر دے)۔حضرت انس
رضی اﷲ عنہ سے رویت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض
کیایارسول اﷲ ﷺمیراسفرکارادہ ہے مجھے ’’زادسفر‘‘عطاکر دیجئے،آپ ﷺ نے فرمایا
اﷲ تعالی تقوی کوتمہارازادسفربنائے ،اس شخص نے عرض کی اس میں اضافہ فرمائیں
آپﷺ نے فرمایااور اﷲ تعالی تمہارے گناہوں کی مغفرت فرمائے ،اس شخص نے پھر
عرض کی میرے ماں باپ آپ ﷺ پرقربان ہوں اس میں اوراضافہ فرمائیے آپ ﷺ نے
فرمایا اور جہاں بھی تم پہنچو اﷲ تعالی خیراوربھلائی تمہارے لیے میسر
فرمائے۔حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ مکہ کے ارادے سے نکلے اور
مدینہ واپسی تک آپ ﷺ برابر دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ حالت سفر میں اپنی سواری پر ہی رات کی (نفل)نماز
اشاروں سے پڑھ لیتے تھے خواہ سواری کا رخ کسی طرف ہوجاتامگر فرائض اس طرح
نہیں پڑھتے تھے۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں دیکھا کہ آپ ﷺ
کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو آپ مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے یہاں تک کہ مغرب
اور عشاایک ساتھ ملاکر پڑھ لیتے۔حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ آپ ﷺ جب
سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو عصرکاوقت آنے تک ظہر نہ پڑھتے پھر
کہیں راستے میں ٹہرتے اور ظہراورعصر ملاکر پڑھتے۔
کسی مسلمان کا اپنی اقامتی بستی سے دورکسی ایسی جگہ کے ارادے سے نکلنا
جواتنے فاصلے پر ہو کہ اس میں نمازقصرکرنا درست ہو تو یہ عمل شریعت اور
اسلامی فقہ کی اصطلاح میں سفر کہلاتاہے۔حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے نزدیک
ایک شخص مسافرہوجائے گا جب وہ اتنی مسافت طے کرلے جو مدینہ منورہ اور
ذوالحلیفہ کے درمیان ہے۔لجلاج سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے
ساتھ تین میل کا سفر کرتے تو آپ نماز میں قصر کرتے اور روزہ کے افطار کی
اجازت دے دیتے۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ چار فرسخ کی مسافت کو جو کم
و بیش بارہ میل بنتی ہے سفرپر قیاس کرتے تھے اور اور اتنے سفر کے ارادہ پر
نماز کی قصر کیاکرتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ عنہ کاقول ہے کہ جو
سفر میں پوری نماز پڑھے (اسکی نماز نہیں ہوئی)وہ نمازلوٹائے اور قصر نماز
اداکرے۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ سفر کرو اس سے صحت بہتر ہوتی
ہے اور رزق حاصل ہوتاہے ۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے دیکھاکہ ایک شخص سفر کے لیے
تیار ہے مگراس نے کہاکہ آج جمعہ نہ ہوتاتو میں سفر کے لیے روانہ ہوجاتا ،آپ
نے فرمایا جمعہ مسافرکو نہیں روکتا۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لشکرتیارکیاجس
میں حضرت معاذرضی اﷲ عنہ بھی تھے یہ لشکرجمعہ کے دن روانہ ہوا اور حضرت
معاذ رضی اﷲ عنہ جمعہ کی نمازکے لیے رک گئے حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے انہیں
دیکھااور پوچھا تم لشکر کے ساتھ کیوں نہ گئے ؟؟فرمایاکہ میں نے چاہا کہ
جمعہ پڑھ کر روانہ ہوں اس پر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ کیاتم نے آپ
ﷺ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ راہ خدامیں ایک صبح یاایک شام دنیاومافیھا سے
بہتر ہے۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ تنہاسفرکو پسند نہیں فرماتے تھے اورکہاکرتے تھے
کہ کوئی شخص اکیلے سفرنہ کرے اور تنہاگھر میں نہ سوئے۔مسافرکااستقبال کرنا
مباح ہے چنانچہ نافع بن عبدالحارث نے غسفان کے مقام پر آن کر حضرت عمررضی
اﷲ عنہ کااستقبال کیا،حضرت عمررضی اﷲ عنہ جب شام میں تشریف لائے تو حضرت
ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ عنہ نے آگے بڑھ کر انکا استقبال کیااور دونوں نے
معانقہ بھی کیا۔
سفرانسانی مجبوریوں میں سے ایک ہے ،غمی ،خوشی،رزق اورمعاملات کی تکمیل کے
لیے انسانوں کو ایک بستی سے دوسری بستی میں سفر کرنا پڑتاہے اور یہ عمل سنت
مبارکہ سے بھی ثابت ہے ۔آپ ﷺ نے ہجرت اور جہاد کی خاطر طویل سے طویل سفر کی
صعوبتیں بھی برداشت کیں جن میں بعض اوقات موسموں کی شدت سے بھی پالاپڑا
۔سفرکی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ سفر کی ابتداپر گھر سے سفر کے
دونوافل پڑھ کر روانہ ہوا جائے اور جب آپ ﷺسفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد
میں جاکر شکرانے کے دونوافل اداکرتے اور پھر اپنے گھر تشریف لاتے۔مسلمانوں
کے لیے ضروری ہے کہ اگر والدین یاان میں سے کوئی گھر میں منتظر ہو تو پہلے
ان کی زیارت اور قدم بوسی کی جائے اور پھر مسجدمیں جاکر شکرانے کے نوافل
اداکیے جائیں۔مسافرکے لیے مستحب ہے کہ سفر سے واپسی پر اپنے اہل خانہ کو
اطلاع کر کے آئے۔آپ ﷺ سفر سے واپسی پر مدینہ سے ایک منزل پہلے قیام فرماتے
تھے اور ایک ہرکارہ بھیج کر اپنی آمد کی اطلاع کردیتے اور پھر اگے دن مدینہ
طیبہ میں قدم رنجہ فرماتے۔مسافر کو اجازت ہے کہ وہ اپنے موزوں پر تین دنوں
تک مسح کرسکتاہے جبکہ مقامی آدمی کے لیے یہ مدت ایک دن کی ہے اوراس کے بعد
اسے پاؤں دھونے ہوں گے۔مسافرپر جمعہ کی نماز بھی فرض نہیں تاہم اگر نماز
جمعہ میسر ہوتو اداکر لینے میں مضائقہ نہیں اوراگرجمعہ میسر نہیں تو مسافر
ظہر کی نماز پڑھے گا اور اگر بہت سارے مسافرہیں تو جمعہ کے دن ظہر کی نماز
باجماعت ادانہیں کی جائے گی اور ہر مسافر اپنی اپنی انفرادی نماز ہی اداکرے
گا۔
حضرت عمررضی اﷲ عنہ حالت سفر میں جب فجر کی جماعت کراتے تو طویل قرات کی
بجائے مختصرتلاوت فرماتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ حالت سفر میں آپ نے فجر کی
جماعت میں سورۃ الم تر کیف اور سورہ لایلف قریش کی تلاوت فرمائی اور
ذوالحلیفہ میں ایک بار فجر کی نماز پڑھائی تو قل یایھالکفرون اور قل ہواﷲ
کی تلاوت فرمائی حالانکہ آپ فجر کی نمازمیں طویل قرات کیاکرتے تھے۔حضرت عمر
کے بارے میں بعض روایات میں وارد ہواکہ کہ وہ حالت سفرمیں نوافل نہیں پڑھتے
تھے جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت سفرمیں نوافل پڑھاکرتے تھے
پس ثابت ہواکہ کبھی پڑھتے تھے اور کبھی نہیں پڑھتے تھے جبکہ حالت سفر میں
نوافل کی ادائگی سنت رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہے۔چنانچہ نماز ی کو چاہیے کہ سفر
کے دوران فرض دو ہی اداکرے اور سنتیں بالکل ادانہ کرے اور اگر بسہولت نفل
کی ادائگی ممکن ہو تو کوئی حرج نہیں۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر
کوئی شخص باقائدگی سے نوافل اداکرتاہے اور سفرکی وجہ سے وہ نوافل ادانہیں
کرپاتا تو اﷲ تعالی اسے دوران سفر بھی برابراجرعطاکرتارہتاہے۔حضرت عبداﷲ بن
عمرنے سفرمیں دن کی ایک نماز اداکی آپ کے ساتھ اور لوگ بھی سفرپرتھے آپ نے
ان میں سے بعض کو تسبیحات کرتے دیکھاتوفرمایاکہ اگر تسبیحات کرنی ہوتیں تو
نماز پوری نہ کرلیتے۔ سفرمیں اگرکوئی نماز قضاہوجائے تو اپنے مقام پر پہنچ
کر بھی اس کی دورکعتیں ہی پڑھی جائیں گی جبکہ اپنے مقام پر قضاہوجانے والی
نماز اگر سفرمیں پڑھی جائے تو چار رکعتیں اداکی جائیں گی۔عورت کے لیے محرم
کے بغیر طویل سفر جائز نہیں ہے ،عورت پر حج بھی اسی وقت فرض ہے جب محرم
میسر ہواور اگر عورت سن رسیدہ ہے توبااعتماد رفقاکے ساتھ بھی حج کا
سفرکیاجاسکتاہے۔عدت گزارنے والی عورت کے لیے بہتر ہے کہ حج سمیت ہر طرح کے
سفر سے احتیاط کرے۔ |