امریکہ سمیت پورا مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری
طرح صف آراء ہو چکا ہے۔ وہ مسلمانوں کی مقدس ترین ہستی حضور نبی کریمﷺ کی
شان اقدس میں ہرزہ سرائی کرنے والوں کی بھرپور سرپرستی اور معاونت کرتا ہے۔
ایسا ہی مظاہرہ اُس نے حال ہی میں نبوت و رسالت کا دعویٰ کرنے والے گستاخ
رسول اصغر کذاب کے معاملے پر کیا۔ 23 جنوری 2014ء کو ایڈیشنل سیشن جج
راولپنڈی جناب محمد نوید اقبال نے برطانوی نژاد جھوٹے مدعی نبوت اور گستاخ
رسول اصغر کذاب کو توہین رسالتﷺ کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور دس لاکھ
روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔اصغر کذاب برطانیہ کے شہر ایڈنبرگ سکارٹ لینڈ
Edimburgh Scotland کا رہائشی ہے۔ چند سال پہلے اُس نے راولپنڈی میں رہائش
اختیار کی۔ تفصیلات کے مطابق ستمبر 2010ء میں راولپنڈی کے پوش ایریا گلزار
قائد سے ملحق ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی برطانوی نژاد اصغر نے
اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ وہ خود
کو ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کہتا ۔(نعوذ باﷲ) اس سلسلہ میں اُس نے باقاعدہ اپنے
ویزیٹنگ کارڈ اور لیٹر پیڈ چھپوا رکھے تھے جو سادہ لوح مسلمانوں میں تقسیم
کرتا اور اپنی تعلیمات کی دعوت دیتا۔ ملعون اصغر کی اس ناپاک جسارت پر
علاقہ بھر کے مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیلا۔ غیرت و حمیت کے پیکر ملک
محمد حفیظ اعوان نے ملزم کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست دی۔ چنانچہ 22
ستمبر 2010ء کو تھانہ صادق آباد ایئر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی پولیس چوکی نے
ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور ایف آئی آر نمبر 842/10 کے
تحت باقاعدہ مقدمہ درج کر کے اُسے گرفتار کر لیا۔ دوران تفتیش ملزم نے
اعتراف کیا کہ وہ اﷲ کا نبی اور رسول (نعوذ باﷲ) ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا
کہ راولپنڈی اور اُس کے مضافات میں یا رسول اﷲؐ کے جتنے بھی سائن بورڈ لگے
ہوئے ہیں، وہ سب اﷲ تعالیٰ نے میرے لیے بنوائے اور لگوائے ہیں۔ پولیس نے
ملزم کے اس اعترافی بیان کی باقاعدہ ایک ویڈیو بنوائی تا کہ وہ عدالت میں
اپنے اس بیان سے منحرف نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ کا چالان مکمل کر کے ملزم
کو اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔ ملزم کی طرف سے کئی وکلاء پیش ہوئے جن میں سابق
گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کی صاحبزادی بیرسٹر سارہ بلال پیش پیش تھی۔ سارہ
بلال نے کیس کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ جج صاحب سے نہایت بدتمیزی کا رویہ
اختیار کیا جس پر انہوں نے بے حد روا داری اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ مقدمہ
کو 3سال تک غیر ضروری طوالت دینے، جج صاحب کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے،
اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے والی ڈالرائزڈ این جی اوز کے بے
بنیاد واویلا کرنے اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے مقدمہ پر اثر انداز
ہونے کے کئی منفی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ عدالت میں ملزم کی طرف سے مؤقف
اختیار کیا گیا کہ وہ پاگل پن کی بیماری Paranoid Schizophrenia کا مریض
ہے۔ اس پر محترم جج صاحب نے ملزم کے دماغی معائنہ کے لیے ایک بورڈ تشکیل
دینے کا حکم دیاجس پر ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک بورڈ نے ملزم کا مکمل طبی
معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ کیے۔ میڈیکل بورڈ نے ملزم کی ذہنی حالت بالکل تسلی
بخش قرار دیتے ہوئے اُسے ایک صحت مند نارمل شخص قرار دیا۔ سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے پوش ایریاز میں ملزم نے کروڑوں روپے کی مہنگی
ترین چھ کوٹھیاں خریدی ہیں جن کی رجسٹریاں باقاعدہ اُس کے نام ہیں۔ یہاں تو
اُس کی نام نہاد بیماری نے کوئی غلطی نہیں کی۔ ملزم کی روز مرہ کی زندگی
میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے اُس کا پاگل پن ثابت ہو۔ لیکن جب شان
رسالتﷺ میں توہین کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو ایسے ملزم کو پاگل پن کی بیماری
کا شکار قرار دے کر اُسے بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر جب
عدالت نے ملزم کے اعتراف جرم کی ویڈیو طلب کی تو پتا چلا کہ متنازع ویڈیو
ریکارڈ سے غائب ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اس متنازع ویڈیو کا سراغ ملا اور
’’اوپر‘‘ سے حکم آیا کہ یہ ویڈیو عدالت کے علاوہ کہیں استعمال نہ ہو گی
کیونکہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کیس کی سب
سے بڑی خوبی اس کی غیر جانبدارانہ اور شفاف ترین تفتیش ہے جو انتہائی
ایماندارانہ شہرت کے حامل پولیس آفیسر جناب زراعت کیانی ایس پی نے کی۔
قانون توہین رسالت کے مخالفین کا مطالبہ تھا کہ اس قانون کے تحت درج کیے
گئے مقدمہ کی تفتیش ایس ایچ او وغیرہ نہ کرے بلکہ ایس پی کے عہدہ کا حامل
آفیسر اس کی تفتیش کرے۔ مشرف دور میں یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور اب اس
قانون کے تحت درج کیے گئے ہر مقدمہ کی تفتیش ایس پی کے عہدہ کے برابر پولیس
آفیسر کرتا ہے۔ چنانچہ اس کیس کی تفتیش بھی ایک ایس پی نے کی اور اپنی
تفتیش میں انہوں نے ملزم اصغر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا۔ اب یہ
پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مقدمہ غلط درج ہوا۔ کیا یہ ژاژخائی آئین و
قانون سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتی؟ قرآن و سنت پر مبنی قانون توہین
رسالتﷺ کے خلاف آسمان سر پر اُٹھا لینے اور اس قانون کو ختم کر دینے کا
مطالبہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قانون کے تحت ابھی تک کسی ایک
ملزم کو بھی سپریم کورٹ سے سزائے موت نہیں ہوئی۔ یہ قانون ملزم کو تحفظ
دیتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں لکھا تھا:
’’مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295۔ سی کے احکام نے یہ بات ممکن بنا دی
ہے کہ ملزموں کا عدالتی طریقہ کار سے مواخذہ کیا جاسکے اور معاشرہ میں یہ
رجحان پیدا کر دیا ہے کہ قانونی کارروائی کا سہارا لیا جائے۔ تعزیراتِ
پاکستان کی محولہ بالا دفعہ کے تحت مقدمے کے اندراج سے ملزم کو ایک عرصہ
حیات میسر آجاتا ہے۔ اس امر کے پورے مواقع کے ساتھ کہ وہ اپنی پسند کے وکیل
کے ذریعے عدالت میں اپنا دفاع کرے اور سزایابی کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں
میں اپیل، نگرانی وغیرہ جیسی داد رسی کا فائدہ اٹھائے۔ کوئی بھی شخص، کجا
ایک مسلمان، ممکنہ طور پر اس قانون کی مخالفت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ من
مانی کا سد باب کرتا ہے اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 295۔سی کے احکام کی تنسیخ کردی جائے یا انہیں دستور سے
متصادم قرار دے دیا جائے تو معاشرہ میں ملزموں کو جائے واردات پر ہی ختم
کرنے کا پرانا دستور بحال ہو جائے گا۔‘‘ (پی ایل ڈی 1994ء لاہور 485)
22 جنوری 2014ء کو ملزم نے عدالت کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعتراف کرتے
ہوئے جج صاحب سے درخواست کی کہ اُسے اعتراف جرم کرنے پر کم سے کم سزا سنائی
جائے۔ جج صاحب نے ملزم سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ بات ہوش و حواس میں کہہ
رہے ہیں؟ ملزم نے کہا جی سر! میں یہ سب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ اس پر جج
صاحب نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا یہ اعترافی بیان کاغذ پر
تحریر کر دے۔ اس پر ملزم اصغر نے عدالت کے روبرو اپنے نبی ہونے کا اعترافی
بیان کاغذ پر تحریر کر کے اُس پر اپنے دستخط بھی ثبت کر دیے۔ جج صاحب نے
ملزم کے وکیل کو گواہ بناتے ہوئے اُس کے دستخط بھی اس بیان پر کروا لیے۔
بعد ازاں جج صاحب نے رائٹنگ ایکسپرٹ سے ان کے دستخط کے اصل ہونے کا
سرٹیفکیٹ لیا۔ چنانچہ 23 جنوری 2014ء کو جج صاحب نے فریقین کے وکلاء کی بحث
مکمل ہونے اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد شام 4 بجے اڈیالہ جیل
میں ملزم کو سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔ اس کے چند دن بعد ملزم کے وکلاء
نے اس کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
اس کیس کے مدعی حفیظ اعوان نے انکشاف کیا کہ اُنہیں اس کیس کی پیروی کرنے
کے نتیجہ میں اندرونی اور بیرونی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ انہیں اور اُن کے
اہل خانہ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اُن کے رشتہ داروں
پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے اس اہم اور نازک کیس
کی پیروی معروف ماہر قانون مجاہد ختم نبوت جناب راجہ شجاع الرحمن نے کی۔
انہوں نے جس جانفشانی سے اس مقدمہ میں دلائل دیے، وہ اُن کی محبت رسولﷺ کا
منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کیس میں تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی زندگی کے شب و
روز وقف کردینے والے مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا عبدالوحید قاسمی صاحب کی
خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اسی طرح مفتی محمد حنیف قریشی کی
گرانقدر خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد
نوید اقبال نہایت مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے بے پناہ دباؤ، سفارشوں،
دھمکیوں، وکلاء صفائی کے غیر اخلاقی رویوں کے باوجود انصاف اور میرٹ کا بول
بالا کرتے ہوئے مبنی بر انصاف یہ تاریخی فیصلہ صادر کیا۔ بین الاقوامی
میڈیا کے علاوہ عیسائی اور قادیانی لابی اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اپنے غم و
غصہ کا اظہار کر رہی ہے بلکہ محترم جج صاحب کے خلاف نازیبا الفاظ کا
استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ ہمارے خیال میں سپریم کورٹ کو اس سلسلہ میں
خصوصی سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے کیس پر اثر
انداز ہونے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہر پیشی پر برطانوی ہائی کمیشن کی
طرف سے ماڈریٹ اور بااثر خواتین کی ایک کثیر تعداد عدالت میں موجود ہوتی
اور مقدمہ کی سماعت میں بلا وجہ رکاوٹ ڈالتی۔ یہاں تک کہ 23 نومبر 2012ء کو
برطانوی ہائی کمیشن نے کیس میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ملزم کی رہائی
کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو خط لکھا جسے فاضل جج نے کیس کا
حصہ بناتے ہوئے سیشن جج کو کوئی دباؤ قبول کیے بغیر سماعت جاری رکھنے کا
حکم دیا۔دریں اثنا حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اصغر
کذاب کو ضمیر کا قیدی قرار دے کر حکومت پاکستان سے اس کی غیر مشروط فوری
رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اصغر کذاب کو حقوق
انسانی کے تحت آزادیٔ اظہار رائے کا حق ہے اور اس پر کوئی جرم نہیں بنتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس بات کو یقینی
بنائے کہ آئندہ ایسے واقعات پر کسی ملزم کے خلاف نہ پرچہ درج ہو اور نہ کسی
کو سزا دی جائے۔ برطانوی دفتر خارجہ کی سینئر وزیر بارو نس سعیدہ وارثی نے
کہا کہ ہم اصغر کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ یاد رہے کہ یہ وہی
سعیدہ وراثی ہے جس کے جنسی سکینڈلز کی تفصیلات انٹرنیشنل میڈیا میں دیکھی
اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایڈنبرگ سے رکن پارلیمنٹ شیلا گلمور نے پارلیمنٹ کے
اجلاس میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ
پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں کہ سزائے موت کے مرتکب برطانوی شہری اصغر
کو برطانیہ واپس لایا جائے گا۔ جس کے جواب میں کیمرون نے پارلیمنٹ کو یقین
دلایا کہ وہ اصغر کو ہر حال میں واپس لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان
نژاد برطانوی شہری کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر وہ
شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت پاکستان کو اپنے خیالات سے آگاہ کر
دیا ہے کہ وہ برطانوی شہری اصغر کو موت کی سزا سنائے جانے پر سخت پریشان
ہیں ۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب سے بات بھی ہوئی ہے، اُمید ہے حکومت
پاکستان ہمارے شہری کو رہا کر دے گی۔ اصغر کذاب کو بچانے کے لیے قادیانی
اور عیسائی لابی بے حد متحرک ہو گئی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ مغرب
میں ملزم کی رہائی کے لیے ایک دستخطی مہم چلائی جا رہی ہے جس پر اب تک سات
ہزار سے زائد افراد نے دستخط کیے ہیں۔ یہ یادداشت امریکی صدر اوباما سمیت
دنیا بھر کے بااثر افراد کو بجھوائی جائے گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق
برطانوی قونصلیٹ کی سفارش پر ملزم کو جیل میں خصوصی پروٹوکول دیا جا رہا
ہے۔ اسے ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ سمیت ہوٹل سے کھانا منگوانے کی مکمل
سہولیات حاصل ہیں۔ ان واقعات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ سوچنے کی بات یہ
ہے کہ خود کو مہذب کہلوانے والا مغربی معاشرہ کیا پاکستان کے عدالتی نظام
میں بے جا مداخلت کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ انہیں کون سی چیز گستاخانِ رسول کی
سرپرستی پر اکساتی ہے؟ اُنہیں دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی دلآزاری میں
کیا لذت حاصل ہوتی ہے؟ کیا محسن انسانیتﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ناپاک
جسارت کرنا آزادیٔ اظہار رائے کے زمرے میں آتا ہے؟ یہاں ایک بات کا تذکرہ
بہت اہم ہے کہ حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی عزت و ناموس کے سلسلہ
میں ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ کی بے حسی، بے توجہی اور لاپروائی ایک مجرمانہ
غفلت سے کم نہیں ۔ ان کا اپنا معمولی سا استحقاق مجروح ہو تو یہ پارلیمنٹ
میں آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں مگر سرکارِ دو عالمﷺ کے عظیم استحقاق پر ان
کی مصلحت پسندی اور خاموشی معنی خیز ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، کم
ہے۔ شیطانی حقوق کے پاسداروں کی گھٹیا ذہنیت کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ ہر
مسلمان کو اُن کی مذموم کوششوں کا راستہ روکنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے ،
اسی میں امت مسلمہ کی بقا پوشیدہ ہے۔ |