کشش ایک ایسا قدرتی جذبہ ہے جو انسان کو ادنا یا اعلی
ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ جذبہ ہمیشہ دو صورتوں میں پیدا ہوتا ہے، ایک تو
جیت کی لالچ کی صورت میں اور دوسرا مخالف جنس کی صورت میں۔۔۔اﷲ تعالی نے
آدم علیہ السلام میں بھی یہ جذبہ پیدا کیا، اور نتیجہ ــ’’حضرت آدم کو جب
شیطان نے بھڑ کایا تو وہ بہک گئیــ‘‘ منع کیا ہو دانہ کھایا۔۔۔ مخالف جنس
حضرت حوا پیدا ہوئی۔۔۔ کشش ہوئی اور پھر دنیا کا نظام بنایا گیا۔۔۔ گویا
کائنات بنانے میں بہت سی ارتقائی مناظر شامل رہے۔۔۔ انسان کی پیدائش ایک
فطری عمل ہے اور فطرت محبت کے آٹے میں گوند دی گئی ہے، فطرت اور محبت لازم
و ملزوم قرار دی گئی ہی ۔ اسلام میں اس نظریہ کو الگ طرح سے پیش کیا جاتا
ہے، لیکن مغرب نے اسی فطرت کو بے حیائی، بد عنوانی، بے ہودگی کا نام دے دیا
ہے، جس کی بدولت وہ اندھا دھند جنسی تقلید کرتے چلے آرہے ہیں ۔ جنسی تسکین
کے لیے مغرب نے مختلف تہوار بنا رکھے ہیں، سب کا گنوانا یہاں ممکن نہیں
لیکن، ــ’’وینٹائین ڈے‘‘ ایک ایسا شرمناک تہوار ہے جس کی حقیقت جانے بغیر
لوگ شوق سے منا رہے ہیں مغرب میں عریانیت، جنسیت، حیوانیت کی بے ہودہ لہریں
پاکستان کی طرف زور سے بڑھ رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فروری میں ایک بے ہودہ
فلم ــ’’ویلنٹائین ڈے‘‘ کے ٹریلر چلائے جاتے ہیں اور باقاعدہ ۱۴ فروری کو
کالجوں، یونیورسٹیوں ، پارکوں، ہوٹلوں اور سڑکوں پہ فلم ریلیز ہو جاتی
ہے۔۔۔جس کو دیکھنے کے لیے ہر عمر کے لڑکے لڑکیاں پوری تسلی کے ساتھ بے شرمی
کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔
مسلمانوں کے خون سے، عورتوں کی عزتوں سے، بچوں کی چیخوں سے، بوڑھوں کی آہوں
سے پاکستان کو حاصل کیا گیا تھا لیکن آج اس نام نہا د عظیم ملک میں یہودیوں
اور عیسائیوں کے رسم ورواج کو پسند کیا جاتا ہے۔ ۱۴ فروری کا دن پاکستان
میں ہر سا ل یوم اظہار محبت، یا بھی عاشقوں کے دن کے نام سے منایا جاتا ہے
۔ کیا کسی کو اس دن کی حقیقت معلوم ہے۔۔۔ کیا عوام جانتی ہے کہ اس دن کو
تاریخ کس انداز سے لکھتی ہے۔۔۔ روم میں ایک پادری ویلنٹائین نے گرجا کی نن
کے ز نا کیا۔۔۔ گرجا کی نن وہ عورتیں ہیں جو پا ک د ا من کہلائی جاتی
ہیں،جو د نیا کو ترک کرکے دینی تعلیمات میں اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر
لیتی ہے ۔ نن ساری زندگی شادی نہیں کرتی اور نہ ہی مردکے لمس کو محسوس کر
سکتی ہیں،،، ان کا ماننا ہے کہ جنس کی لذت مذہب سے دور کرتی ہے۔۔ لیکن
پادری نن کی پاک دامنی کو اپنے سکون کا سامان کرتے ہوئے زنا کا ارتقاب کرتا
ہے ۔پھر اسے سزا کے طور پر ۱۴ فروری کو سزائے موت سنائی گئی۔۔۔ بس اسی کی
یاد میں رومی عاشق، محبت کی یاد میں یہ دن مناتے ہیں اور آ ہستہ آہستہ مغرب
سے یہ سیلاب پاکستان کی طرف بڑھنے لگا اور آج کے دور میں مکمل طور پر
نوجوان نسل کو سراب کر رہا ہے ۔ یہ ہے ویلنٹائن ڈے کی شرمناک اور قبیح
حقیقت۔۔۔ اگر سخت لفظوں میں اس دن کوبیان کیا جا ہے تو یہ محبت کا نہیں
بلکہ زنا کا پیغام دے رہے ہیں۔۔۔ یہ حقیقت جان کر کوئی بھی شریف خاندان کے
لڑکے یا لڑکیاں ضرور شرم سے سر جھکا لیں گے،،، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ
تہوار مرض کی طرح پھیل چکا ھے۔ کلچر کو میلا کیا گیا ھے۔ مقدس رشتوں اور
جذبوں میں دڑاریں پڑ رہی ہیں، جنسی حیوانات حدوں کو پار کر چکی ہے ۔ شریف
کے نام پہ طماچہ مارا گیا ہے ۔ افسوس ہوتا ہے کہ اسلامی ملک میں شرم کو بے
شرم کیا گیا ہے۔۔۔ حیرت کی انتہا ہے کہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پریس
میڈیا اس تہوار کو زور و شوق سے کیوریج دے رہے ہیں، حکومت کو بھی اس سے
کوئی سروکار نہیں، میڈیا کی احلاقی اقداریں ختم ہو رہی ہیں اور حیا کو بے
نقاب کیا جا رہا ہے۔۔۔ ہم بھول رہے ہیں کہ اس دن کی آڑ میں ہم عزتوں کی
نیلامی کر رہے ہیں ہمسایہ ملک بھارت میں یہ دن منایا جاتا ہے مگر کچھ
بھارتی تنظیمیں اس دن کے خلاف ہیں۔ بس یہی نہیں بلکہ مشرق وسطی کی کئی
ممالک میں اس دن یہ مکمل طور پر پابندی لگا رکھی ہے، مگر پاکستان میں یہ دن
بڑی شدت سے منایا جاتا ہے، پھولوں کی کمی ہو جاتی ہے فون سروس سلو ہو جاتی
ہے پہلے وقتوں میں محبت پاک جذبہ مانگتی تھی مگر آج کے دور میں محبت خرچہ
اور ڈربہ مانگتی ہے ۔۔۔۔ مذہبی سکالز کو چاہیے کہ اس دن کے حوالے سے کوئی
شریعت کا قانون لاگو کریں، مگر وہ حضرات تو خود اس دن کو سرخ ٹوپیاں پہنے
اور سرخ پگڑیاں باندھے نظر آتے ہیں۔۔۔
انسان کو مختلف چیزیں متاثر کرتی ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہمیں جو چیز متاثر
کرتی ہے ہم اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انسان کی فطرت میں محبت شامل ہے ۔
لیکن آج کے مشینی دور میں انسان کو مشین بناکر ، اس خوبصورت جذبہ کو
نفسیاتی خواہشات کی تسکین تک محدود کر دیا ہے۔۔ہر شعبہ کے ماہرین نے محبت
کے جذبے کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ، تحقیق کے مطابق،
نفسیاتی ماہرین محبت کو عورت اور مرد کے درمیان فطری کشش کا نام دیتے ہیں ۔
عورت عورت سے محبت کر سکتی ہے، لیکن وہ محبت نفساتی تقاضوں کو پورا نہیں کر
پاتی جو ایک عورت اور مرد کرتے ہں۔ سماجی ماہرین کہتے ہیں محبت ایک بتدریج
عمل ہے جو انا فا نا آگے بڑھتا ہے ۔ سائنس نے اسکی تصدیق بھی کر دی ہے کہ
محبت کاتعلق دل سے نہیں بلکہ د ماغ سے ہوتا ہے، سائنس نے اس کی تصدیق بھی
کر دی ہے کہ محبت پہلی ہی نظر میں ہو جاتی ہے ۔ تصدیق سے ثابت ہوا ہے کہ
جیسا ہی کوئی چہرہ نظروں کو اچھا لگتا ہے تو دماغ میں برقی لہریں پیدا ہوتی
ہیں جو دونوں جنسوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جب کے طبی ماہرین محبت
کے تین درجے بتاتے ہیں ان کے مطابق محبت کا پہلا درجہ لا شعوری طور پر کشش
کے باعث ہے ۔ دوسرا درجہ اس کشش میں تجسس کا ہے ۔اور تیسرادرجہ۔۔۔ میں نیں
بولدی میرے وچ میرا یار بولدا۔۔۔ والا درجہ آتا ھے۔ ۔۔۔حا صل کلا م ھے کے
محبت کوئی مذ ا ق نیں یہ ایک سچا جذبا ھے ۔ اور ماہرین نے اس کی تصیدق ِبھی
کی ھے۔ لیکن ۱۴ فروری کو یو م محبت کے اظہار کادن کے حوالے بے ہو دگی کی جا
رہی ھے ۔ِ مگر محبت کا حقیقی اظہار عمل کا متقا ہی ھے۔ میر ا ذاتی خیا ل ھے
اصل محبت وہ ھے جس میں عز ت کا لحاظ ر کھا جا ہے۔۔۔ |