اہلِ عرب آنحضرت ﷺکی بعثت کے وقت
جہاں سودخوری،شراب نوشی،جوا،دختر کشی،عشق بازی،بدکاری وغیرہ جیسی متعدد
معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا شکار تھے۔وہیں کچھ ایسی اچھی خصلتیں بھی ان
میں پائی جاتی تھیں کہ مشیتِ ایزدی نے بعثتِ رسول کے لیے ساری کائنات میں
انہیں کا انتخاب کیا۔ان خوبیوں میں بھی چار سرفہرست تھیں:
1۔ایفائے عہد 2۔خودداری 3۔سخاوت 4۔شجاعت
ایفائے عہداورعزائم کی تکمیل میں ایسے پکّے تھے کہ جان چلی جاتی پر زبان سے
نہ پھرتے۔جو وعدہ کرلیا اسے خون کاآخری قطرہ بہاکربھی نبھا تے۔مذہب وعقیدے
کے دشمن کو بھی اگر امان دے دی تو اب اس کی جان کی حفاظت سب سے پہلا اور
آخری فرض سمجھا جاتا۔خودداری اور غیرت توحدسے بڑھی ہوئی تھی اور درحقیقت
اسی خوبی کا غلط استعمال ایک عرصہ تک قبولِ حق کی راہ میں ان کے لیے رکاوٹ
بنا رہا۔سخاوت اور مہمان نوازی میں تو کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ اگرمہمان کی
تواضع کے لیے گھر میں سواری کی اونٹنی کے سوا اور کچھ نہ ہوتا اور اہلِ
خانہ کا گذران بھی اسی پر منحصر ہوتا تب بھی مہمان کے اکرام میں بلا تامل
اس اونٹنی کو ذبح کرڈالتے۔حضورِ پاک ﷺکے شجرہ نسب میں ایک نام ہاشم آتا ہے
جو حضور ﷺ کے پرداداہیں۔ ان کا اصل نام عمرو تھا،ایک بار مکہ میں بہت
زبردست قحط پڑا۔اﷲ نے انہیں مال وثروت سے نوازا تھا۔یہ فلسطین پہنچے اور
وہاں سے آٹے کی بوریاں اونٹوں پر لاد کر مکہ معظمہ لے آئے ۔ اونٹ ذبح کرکے
ان کا شوربہ بنایا اور روٹیاں اس شوربے میں بگھوکر سارے اہلِ مکہ کو
کھلائیں اور کئی دنوں تک مسلسل یہ سخاوت کرتے رہے عربی میں اس قسم کے کھانے
کو ہشم کہا جاتا تھا،چنانچہ یہیں سے ان کا نام ہاشم پڑگیا۔یہ واقعہ تو عرب
کی سخاوت کی ایک ادنی سی مثال ہے ورنہ اس سے زیادہ دریا دلی اور سخاوت کے
مظاہرے عربوں کی تاریخ میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔شجاعت اور نڈر پن میں بھی
ایسا نام تھا کہ دنیاکی کوئی قوم اس میدان میں ان کی ہمسری تو کیا ،رقابت
کا بھی دعویٰ نہیں کرسکتی تھی۔
چنانچہ جب انہوں نے آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کیا تو انہی خوبیوں کو اچھے رخ پر
استعمال کرتے ہوئے اپنا سب کچھ اسلام کے لیے قربان کردیا۔ پہلے وہ ایک
دوسرے کے مقابلے میں ناموری حاصل کرنے کے لیے سخاوت کرتے تھے تواب اﷲ کی
راہ میں اسلام کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے لگے،پہلے ان کی خودداری
اپنی ذات،قوم اور قبیلہ کے لیے تھی تو اب صرف اور صرف اسلام کے لیے
ہوگئی۔اسلام کے دفاع میں دشمن کے خلاف اٹھاہوا ہاتھ وہیں رک گیا جب دشمن نے
ان کے چہرے پر تھوکا،کیونکہ اس کے بعد اگر ہاتھ اٹھایا جاتاتویہ بدلہ اور
غیرت خالص اسلام کے لیے نہ ہوتی،پہلے اگربہادری قوم میں اعزاز پانے کے لیے
تھی تو اب صرف اﷲ کی خوشنودی طلب کرنیکے لیے ہو گئی۔ ان کی دلیری اور
خودداری نے کبھی انہیں اپنے دین کے حوالے سے دشمن سے سمجھوتا نہ کرنے دیا۔
آج یہ چاروں وصف ہم مسلمانوں سے گم ہوچکے ہیں۔ہم نہ بات کے پکے رہے نہ
اسلام کے لیے سب کچھ لٹانے والے۔نہ ہماری غیرت وخودداری ہمیں اﷲ اور رسول
ﷺکے نام پر جھنجھوڑتی ہے اور نہ شعائرِ اسلام کی پامالی پر ہماراضمیر ہمیں
ملامت کرتا ہے۔ہماری بزدلی ہمیں دشمن کی در اندازی کا جواب دینے سے پہلے
ہزار بار سوچنے پر تو مجبور کرتی ہے،لیکن ٹھنڈے دل سے اپنے ہی کلمہ گو
بھائیوں کے شکوے سننے پر آمادہ نہیں کرتی۔غرض زمانہ جاہلیت کی خامیاں تو ہم
میں ہیں،پر مسلمانوں والی ایک خوبی بھی ہم میں نہیں:
زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
حضور اقدس ﷺ ہر نماز کے بعد دعا کیا کرتے تھے:"اﷲم انی اعوذبک من الجبن
واعوذبک من البخل"(اے اﷲ!میں بزدلی اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں)۔اﷲ رب
العزت ہم سب کو اسلامی غیرت و حمیت،شجاعت وبہادری نصیب فرمائے۔ |