سجدہ ۔۔۔ جسے تو گراں سمجھتا ہے

عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال امر النبی ﷺ ان یسجد علی سبعۃ اعضاء ولا یکف شعرا ولا ثوبا الجھۃ والیدین والرکبتین والرجلین (بخاری جلد اول ص112مسلم جلد اول ،ص 193) ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء پرسجدہ فرمائیں اور بالوں کو نہ روکیں اورنہ ہی کپڑے کواکٹھا کریں ،وہ سات اعضاء سجدہ پیشانی ،دونوں ہاتھ ،دوگھٹنے اور دو نوں پاؤں ہیں۔‘‘

تشریح: اس حدیث میں سات اعضاء پر سجدہ کا حکم ذکر ہوا اور اس کے بعد والی حدیث میں سات ہڈیوں پر کالفظ ہے ۔ان ہڈیوں سے مراد بھی وہ ہی اعضاء ہیں ۔جو اوپر والی حدیث میں مذکور ہوئے اور اس حدیث میں لفظ امر اور بعد والی حدیث میں لفظ امرنا ہے ۔جس سے معلوم ہوا صرف یہ حکم آپ کے لئے ہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی ہوتا ہے ۔ ویسے بھی جو حکم آپ کیلئے ہو، وہ آپ کی امت کیلئے بھی ہوتا ہے ۔جب دلیل خصوص نہ ہو ۔معلوم ہوا کہ سجدہ میں سات اعضاء چہرہ ،دونوں ہاتھ،دونوں زانو، دونوں پاؤں لگانے ا حکم ہے ۔ان اعضاء میں سے اگر کوئی عضو نہ لگا ،تو سجدہ ناقص ہو گااور نماز ناقص ہو گی ،اس حدیث میں کف ثوب اور شعر (بال) کی ممانعت کا بھی حکم ہے ۔جس کی تفصیل آگے آئے گی۔اختلاف ائمہ:امام احمد اور اسحاق نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اگر اعضاء سبعہ ے کسی عضو پر سجدہ کرنا ترک کر دیا تو وہ سجدہ کفایت نہ کرے گا اور سجدہ ادا نہ ہو گا اور یہی امام شافعی کا اصح قول ہے ۔اصح حدیث میں ناک کا ذکر نہیں ہے اور ایک حدیث میں ناک کا بھی ذکر ہے ۔اس حدیث میں اختلاف ہے کہ ناک کا لگانا بھی سجدہ میں فرض ہے یا نہیں ؟تو ایک گروہ نے فرمایا ہے جب پیشانی پر سجدہ کیا اور ناک نہ لگایا تو بھی کافی ہوگا یعنی سجدہ کا فرض ادا ہو جائے گا اور یہ مذہب ابن عمر اور عطاء اور حسن اور ابن سیرین اور دیگر کثیر فقہاء سے مروی ہے اور ایک گروہ نے فرمایا کہ اگر ناک پر سجد ہ کیا اور ماتھا نہ لگایا تو بھی کافی ہو گا اور یہ قول ہے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کا جیسا کہ ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر میں ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک پیشانی اور ناک میں سے ایک پر اختصار جائز ہے ۔ کیونکہ مشہور روایت میں جہۃ کی جگہ وجہہ کا لفظ ہے اور مکمل چہرہ تو بالاتفاق خارج نہیں باقی ناک اور پیشانی میں سے ایک پر سجدہ کفایت کرے گا اور فرض ادا ہو جائے گا ۔لیکن صاحبین کے نزدیک سجدہ میں دونوں یعنی پیشانی اور ناک لگانا ضروری ہیں ۔بلا عذر اگر ایک پر اختصار کیا ۔تو کافی نہ ہو گا ۔لیکن صاحب فتح القدیر نے اس قول سے اختلاف کیا ہے اور نہایہ شرح ہدایہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ پیشانی لگانے سے آئمہ ثلاثہ کے نزدیک فرض ادا ہو جائے گا۔صرف صاحبین کا اختلاف ہے کہ بلا عذر ناک پر اختصار کرنا جائز نہیں ہے ،ہاں عذر کے وقت تو آئمہ ثلاثہ کے نزدیک ناک پر اختصار بلا کراہت جائز ہو گا اور بلا عذر صرف ناک لگانا امام صاحب کے نزدیک اگر چہ کافی ہے ۔ لیکن شدید مکروہ ہے۔شارح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے لکھا ہے کہ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک اگر پیشانی پر سجدہ کیا اور ناک نہ لگی تو کوئی حرج نہیں اور اگر ناک پر سجدہ کیا پیشانی نہیں لگی ،تو سجدہ نہ ہوگا ان کا استدلال بھی اسی حدیث سے ہے۔

امام شافعی کے نزدیک سجدہ میں ناک اور پیشانی دونوں کا لگانا واجب ہیں۔ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے پیشانی کے ساتھ ناک کا بھی ذکر کیا ہے اور پیشانی اور ناک دونوں کو ملا کر ایک عضو قرار دیتے ہیں تاکہ اعضاء کی تعداد سات سے زیادہ نہ ہو۔تاہم ان کا ایک قول امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے موافق بھی ہے اور یہی مختار ہے ۔کیونکہ حضرت جابررضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے سجدہ کیا اور ناک نہ لگایا۔(شرح مسلم جلد اول ص681)

بہر حال کامل سجدہ سات اعضاء کو لگانے سے ہی ہوگا ۔اگر بلا عذر ناک نہ لگائی تو امام صاحب کے نزدیک بھی نماز مکروہ تحریمی ہو گی اور بعض کے نزدیک نماز ہی نہ ہو گی۔ اسی طرح دونوں ہاتھ ، دونوں زانو،دونوں پاؤں لگانے بھی ضروری ہیں۔اگر کسی نے سجدہ میں دونوں پاؤں نہ لگائے تو سجدہ نہ ہوگا اور نماز ہی نہ ہوگی۔

فضائل سجدہ:امام بخاری نے باب فصل السجود میں ایک طویل حدیث ذکر فرمائی ہے ۔جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی ذکر ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ رحمت فرمائے گا اور فرشتوں کو حکم فرمائے گا :جہنم سے ان کو نکال دو ۔جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے فرشتے ان کو نکالیں گے اور اﷲ تعالیٰ نے آگ پر حرام فرمایا ہے کہ نشان سجود کو کھائے۔معلوم ہوا کتنی شان ہے اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہونے کی کہ اگر شامت اعمال کی وجہ سے آگ میں جانا بھی پڑا ،پھر بھی اعضاء سجود جلنے سے محفوظ ہوں گے اور آثار سجود روشن ہوں گے ۔ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:’’ بندہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے جب سجدہ کرتا ہے ۔‘‘(عینی شرح بخاری ج 6ص88)

سبحان اللّٰہ :بندہ کو سجدہ میں اور مولیٰ تعالیٰ کا خصوصی قرب حاصل ہوتا ہے ،بندہ کیلئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے کہ اس کو مولا کریم کا قرب خاص حاصل ہو جائے اور وہ آپ کے حکم کے مطابق سجدہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔مسلم شریف میں معدان بن طلحہ یعمری بیان کرتے ہیں کہ میں جناب رسول اﷲ ﷺ کے غلام حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ سے ملا اور میں نے ان سے عرض کیا : مجھے ایسا عمل بتلائیے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو؟ حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ خاموش رہے ۔میں نے دوبارہ سوال کیا ،وہ خاموش رہے ،میں نے سہ بارہ سوال کیا ،تو انہوں نے فرمایا :میں نے رسول اﷲ ﷺ سے یہ بات پوچھی تھی ،تو آپﷺ نے فرمایا :اﷲ تعالیٰ کیلئے کثرت سجود لازم کرلو،اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک سجدہ کرنے سے اﷲ تعالیٰ تمہارا درجہ بلند کرے گااور تمہارا ایک گنا ہ مٹائے گا۔حضرت معدان کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے ہوئی ۔میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا تو انہوں نے حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ والا جواب دیا۔ کیا شان ہے اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہونے کی کہ ایک درجہ بلند ہوتاہے اور ایک گناہ مٹتا ہے اور کثر ت سجود محبوب ترین عمل ہے اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے۔مولیٰ تعالیٰ ہم سب کو کثرت سجود اور کثرت نماز کی توفیق بخشے۔

سجدہ مسنونہ کا طریقہ: سجدہ میں جب جائے تو زمین پر پہلے گھٹنے رکھے ،پھر ہاتھ ،پھر ناک،پھر پیشانی رکھے اور جب سجد ہ سے اُٹھے ،تو عکس کرے،یعنی پہلے پیشانی ،پھر ناک، پھر ہاتھ پھر گھٹنے اُٹھائے ۔(عالمگیری)اُٹھتے وقت زمین پر ٹیک لگا کر نہ اُٹھے ،بلکہ سیدھا پاؤں پر دباؤ ڈال کر اُٹھ کھڑا ہو۔رسول اﷲ ﷺ جب سجدہ کو جاتے ،تو پہلے گھٹنے رکھتے پھرہاتھ اور جب اُٹھتے تو پہلے ہاتھ پھر گھٹنے اُٹھاتے ۔ اصحاب سنن اربعہ اور سنن دارمی نے اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ۔

مردکے لئے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے جدا ہوں اور پیٹ رانوں سے اور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے ،مگر صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے (اچھی طرح) جدا نہ ہوں گے۔(عالمگیری۔ہدایہ) حدیث میں جس کو بخاری و مسلم نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ۔فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں :سجدہ میں اعتدال کرے، اور کتے کی طرح کلائیاں نہ بچھائے۔صحیح مسلم میں ہے حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور ﷺ فرماتے ہیں :جب تو سجدہ کرے تو ،ہتھیلی کو زمین پر رکھ دے اور کہنیاں اُٹھا لے ۔ابو داؤد نے حضرت ام المؤمنین میمونہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی کہ جب حضور اکرم ﷺ سجدہ کرتے ۔تو دونوں ہاتھ کروٹوں سے دور رکھتے ،یہاں تک کہ ہاتھوں کے نیچے سے اگر بکری کا بچہ گزرنا چاہتا تو گزر جاتا اور مسلم کی روایت بھی اس کی مثل ہے ۔دوسری روایت بخاری و مسلم کی حضرت عبد اﷲ بن مالک بن بحینہ رضی اﷲ عنہ سے یوں ہے کہ ہاتھوں کو کشادہ رکھتے ،یہاں تک کہ بغل مبارک سپید ظاہر ہو جاتی۔ عورت سمٹ کر سجدہ کرے۔یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے اور پیٹ ان سے اور ران پنڈلیاں زمین سے (دونوں پاؤں دا ہنی طرف نکال دے۔)مسائل سجدہ: پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاؤں کی ایک انگی کا پیٹ زمین پر لگنا شرط ہے ۔تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اُٹھے رہے ،نماز نہ ہوئی، بلکہ صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی۔جب بھی نہ ہوئی ۔اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں ۔(درمختار ۔فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ:سجدہ میں دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا سنت ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگنا واجب اور دسوں کا قبلہ رو ہونا سنت ہے۔(فتاویٰ رضویہ)مسئلہ: اگر کسی عذر کے سبب پیشانی زمین پر نہیں لگاسکتا ، توصرف ناک پر سجدہ کرے،پھر بھی فقط ناک کی نوک لگنا کافی نہیں بلکہ ناک کی ہڈی زمین پر لگنا ضروری ہے ۔(عالمگیری۔ردالمختار)مسئلہ:رخسار یا ٹھوڑی زمین پر لگانے سے سجدہ نہ ہو گا ۔خواہ عذر کے سبب ہو یا بلا عذر ،اگر عذر ہو تو اشارہ کا حکم ہے ۔مسئلہ:ہر رکعت میں دوبار سجدہ کرنا فر ض ہے۔مسئلہ:کسی نرم چیز مثلا ًگھاس ،روٹی،قالین،وغیرہ پر سجدہ کیا گیا اگر پیشانی جم گئی ،یعنی اتنی دبی کہ اب دبانے سے نہ دبے ،تو جائز ہے ورنہ نہیں۔(عالمگیری)بعض جگہ سردیوں میں مسجد میں پیال (دھان کا بھس ) بچھاتے ہیں ۔ان لوگوں کو سجدہ کرنے میں اس کا لحاظ بہت ضروری ہے ۔اگر پیشانی خوب نہ دبی تو نماز ہی نہ ہوئی اور ناک ہڈ ی تک نہ دبی ،تو مکروہ تحریمی ،واجب الاعادہ ہوئی ۔مسئلہ:عمامہ کے بیچ پر سجدہ کیا ،اگر ماتھا خوب جم گیا ،سجدہ ہو گیا اور ماتھا نہ جما ،بلکہ چھوگیا ،کہ دبانے سے دبے گا ،یا سر کا کوئی حصہ لگا تو سجدہ نہ ہوا۔(در مختار)

کف شعر:یعنی نماز اس طرح پڑھنا کہ بالوں کا جوڑا بنایا ہو ،اس سے بھی سرکار ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔یہ متعدد روایات میں ہے کہ کف شعر نہ کیا جائے ۔ابو داؤد میں سند جید سے مروی ہے کہ حضرت ابو رافع رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ آپ نماز اس حال میں پڑھ رہے ہیں کہ آپ نے اپنی زلفوں کا اپنی گردن پر جوڑا بنایا ہوا ہے ،توآپ نے جوڑا کھول دیا اور آپ (حضرت ابو رافع) نے فرمایا :میں نے سید دو عالم ﷺ سے سنا ہے کہ وہ کفل الشیطان ہے ۔یعنی شیطان کا حصہ ،یا فرمایا ،مقعد الشیطان ہے یعنی شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا اس طرح پڑھنا نہایت ناپسندیدہ عمل اور مکروہ ہے ۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے عبد اﷲ بن حارث کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ ان کے بال معقوص ہیں ،(جوڑا بنایا ہوا) تو حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما ان کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور ان کو کھولنا شروع فرمایا اور ساتھ ہی ایک روایت سرکار ابد قرار ﷺ سے نقل فرمائی ۔جس کامفہوم یہ ہے کہ ایسے حال میں نماز پڑھنا آپ کو ناپسند ہے ۔اس کے علاوہ علامہ عینی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :’’حدیث نے دلالت کی اس بات پر کہ اگر کسی نے بالوں کا جوڑا بنا کر نماز ادا کی ، تو اس کی نماز مکروہ ہو گی ۔‘‘آگے فرماتے ہیں :جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس طرح نماز پڑھنا منع ہے ۔چاہے نماز کے لئے ہی قصداً ایسا کیا ہو یا نماز سے پہلے کسی اور غرض کے لئے ایسا کیا گیا ہو۔ہر حال میں اسطرح نماز ادا کرنا منع ہے ۔اور فرماتے ہیں:’’عقص کا معنی یہ ہے کہ سر کے وسط میں بالوں کو اکٹھا کر لیا جائے اور دھاگہ سے باندھا یا گوندسے چپکا لیا جائے۔

ان روایات سے معلوم ہوا کف شعر یعنی بالوں کو لپیٹ کر جوڑا بنا کر نماز پڑھنا واجب الاعادہ ہے ۔تاہم علماء سے مکروہ تنزیہی کا بھی قول مروی ہے ۔بہر حال مطلقاً کراہت پر اتفاق ہے ۔آگے اختلاف کراہت تحریمی یا کراہت تنزیہی میں ہے ۔حضرت سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے ۔آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس حال میں سجدہ کر رہا ہے کہ اس کے بالوں کا جوڑا بنایا ہوا ہے ۔تو آپ نے فرمایا :’’جوڑا کھول دے تاکہ بال بھی سجدہ کریں۔‘‘(یہ تمام مضمون عینی جلد نمبر6ص91پر درج ہے۔)

فتح الباری والے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو رافع اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم کے عمل سے یہ مفہوم ملتا ہے کہ عین نماز کی حالت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جائز ہے کہ انہوں نے عملاً نماز کا جوڑا کھول دیا اور جوڑا بنانے سے منع فرمایا اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ انہوں نے بھی نماز کی حالت میں تبلیغ فرمائی۔آجکل :فیشن کا دور ہے طرح طرح سے فیشنی بال بنائے جاتے ہیں اور خلاف سنت انگریزی طرز پر بال رکھے جاتے ہیں ۔اس طرح کے بال بنانا سخت منع ہے اور تقلید نصاریٰ ہے اور ایسی حالت میں نماز کا مکروہ ہونا واضح ہے ۔اس پر مستز ادیہ ہے کہ اکثر حضرات داڑھی منڈواتے یاکتراتے ہیں یہ بھی حرام ہے ۔ایک مشت یعنی چار انگل کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے ۔لیکن بعض حضرات کو ایسا کرتے بھی دیکھا ہے کہ داڑھی کٹواتے تو نہیں ہیں ،لیکن داڑھی کے بال گرستے ہیں اور موڑ موڑ کر اس طرح بنالیتے ہیں کہ داڑھی چھوٹی معلوم ہو ،یہ بھی سخت منع ہے اور کٹانے کے حکم میں داخل ہے اور اس طرح نماز پڑھانا مکروہ ہے ۔

ہمارے بعض آئمہ بھی بہت کوتا ہی کرتے ہیں ،کچھ داڑھی کٹاتے ہیں اور کچھ داڑھی کو گرستے ہیں ۔مولیٰ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے ۔ بالخصوص آئمہ حضرات کو اس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئیے۔کف ثوب:لغوی معنیٰ ہے کپڑا کا موڑنا اور سجدہ میں جاتے وقت اپنے کپڑے کو اوپر کی طرف کھینچنا ہے ۔اس حدیث میں مذکور ہے ۔ جس طرح کف شعر کی ممانعت ہے ایسے ہی کف ثوب کی بھی ممانعت ہے ۔کف ثوب میں تعمیم ہے ۔خواہ نیفے کی جانب کپڑا گُھرساہو یا پائنچے کی جانب سے کپڑا لپٹا ہو یا کلائیوں پر کپڑا سمیٹا ہو اہو۔مطلق کف ثوب ان سب صورتوں کو شامل ہے اور ان جیسی سب صورتیں منع اور مکروہ ہیں ۔بعض حضرات کا پاجامہ یا شلوار اتنی لمبی ہوتی ہے کہ ٹخنے کے نیچے تک جاتی ہے اور نماز پڑھتے و قت ٹخنوں کے اوپر کرنے کیلئے شلوار یا پاجامہ کو نیفے سے گھر س لیتے ہیں یا پائنچے کی جانب سے لپیٹ لیتے ہیں ۔یہ شدید مکروہ ہے ۔ٹھیک ہے ٹخنے کے نیچے تک کپڑا ہونا مکروہ ہے ۔لیکن یہ اس سے بھی زیادہ کراہت ہے ۔

اصل بات یہ ہے کہ اتنی لمبی شلوار وغیرہ سلوانی ہی نہ چاہیے کہ ٹخنے سے نیچے رہے کیونکہ یہ صرف نماز کی حالت میں ہی خرابی نہیں ،بلکہ عام حالت میں بھی یہ ایسی ہی خرابی ہے ۔جتنی نماز کی حالت میں ، کیونکہ جس حدیث میں آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے وہ ہر حالت کو شامل ہے ۔خواہ نماز میں یا غیر نماز میں ،پھر شلوار وغیرہ لمبی ہوتی ہے تو پھر یہ تکلفات کرنے پڑتے ہیں کبھی پائنچے کی جانب سے کپڑا لپیٹنا یا نیفے کی جانب سے کپڑا گھرسنا اور کف ثوب کرنا ۔جس سے سرکار دوعالم ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔اس مذکورہ حدیث کے علاوہ بھی امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :مجھے کف ثوب اور کف شعر سے منع فرمایا گیا اور ترمذی شریف میں بھی اس حدیث کی تخریج امام ترمذی نے فرمائی ہے اور یہ فرمایا :ھذا حدیث حسن صحیح۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز میں کف ثوب چاہے نیفے کی جانب ،چاہے ٹخنے کی جانب،چاہے کہنیوں پر کپڑا لپیٹنا سب صورتیں منع اور مکروہ ہیں اور فقہاء کرام کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے یہ کراہت تحریمی اور گناہ ہے۔

اقوال فقہاء کرام:درمختار میں ہے:’’کف ثوب مکروہ ہے ،یعنی کپڑے کا اٹھا نا ،اگر چہ کپڑا مٹی سے بچانے کیلئے کیا ہو جیسے آستین اور دامن کو موڑنا۔اگر ایسی حالت میں نماز میں داخل ہو ا کہ اس کی آستین یا اس کا دامن موڑا ہوا تھا اور اس قول سے اس کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ موڑنا حالت نماز کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ،خواہ نماز شروع کرنے سے پہلے یا دوران نماز ہو ،سب صورتوں میں مکروہ ہے ۔‘‘(جلد 1صفحہ598) جو ہرہ نیزہ میں ہے :ولا یکف ثوبہ الخ۔ اپنے کپڑے کو نہ موڑے اور کف ثوب یہ ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے سامنے سے یا پیچھے سے اپنا کپڑا اٹھانا اکثر نمازیوں کی عادت ہے کہ سجدہ میں جاتے وقت اپنا کپڑا دونوں ہاتھوں سے اوپر اُٹھاتے ہیں یہ بھی کف ثوب ہے اور یہ بھی شدید مکروہ ہے ۔ عالمگیری میں ہے ۔’’ نمازی کیلئے کف ثوب مکروہ ہے ۔‘‘ (عموماً مطلقاً مکروہ بول کر فقہاء مکروہ تحریمی مراد لیتے ہیں ۔)

علامہ شامی نے آستین پر کپڑا موڑنے کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے کہ نصف کلائی سے کم ہو تو نماز مکروہ تنزیہی ہو گی اور نصف کلائی یا اس سے اوپر تک آستین مڑی ہو ،تو نماز مکروہ تحریمی ہو گی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کف ثوب تو دونوں صورتوں میں ہے ،پھرحکم میں اختلاف کیوں؟ تو اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان فرمائی ہے کہ عام طور پر وضو کرنے کے بعدبے توجہی اور بے پرواہی کی وجہ سے آستین تھوڑی سی مڑی رہ جاتی ہے ۔ لہٰذا ابتلا عام کی وجہ سے کراہت میں تخفیف ہے ۔

علامہ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب شرح مسلم جلد اول ص683پر فرماتے ہیں :احناف کی کتب میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے فقہائے حنفیہ کا کپڑا لپٹنے میں (کلائیوں پر )اختلاف ہے بعض کے نزدیک اگر نماز ی کہنیوں تک آستین چڑھائے تو مکروہ نہیں اور بعض کے نزدیک مطلقاً مکروہ ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن فقہاء نے نمازی کے کپڑا لپیٹنے یا سمیٹنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۔اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور جن فقہاء نے کراہت کی نفی کی ہے ،اس نفی سے مراد مکروہ تحریمی کی نفی ہے ، مکروہ تنزیہی ان کے نزدیک بھی ثابت ہے ۔علامہ ابن عابدین نے اس مضمون کی تصریح فرمائی ہے ۔کپڑا لپیٹنے میں آستینوں کو چڑھانا ،پائنچوں کو لپیٹنا اور نیفے کے قریب شلوار یا پاجامہ کو اڑس لینا یہ سب شامل ہیں اور یہ مکروہ تحریمی ہے ۔(شرح مسلم ،جلد 1صفحہ 684)

عوام تو عوام ،خواص بھی اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔عام طور پر علماء کرام کو دیکھا جاتا ہے کہ ان کی شلوار بھی لمبی ہوتی ہے اور ٹخنوں کے نیچے ہوتی ہے اور نماز کے وقت نیفے کے قریب اوپر کو اُڑس لیتے ہیں ۔ آپ حوالہ جات سے پڑھ چکے ہیں ۔اس طرح مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی گناہ ہوتا ہے اور نماز بھی مکروہ ہوگی اور ان کی ذمہ داری بھی ایسے امام پر ہوگی ۔اگر چہ مقتدی بھی مکروہ کے مرتکب ہوں گے۔ مولا تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے ۔آمین !
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 613456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.