حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت خالد بن شمیرؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت زید
بن حارثہؓ شہید ہو گئے تو حضورؐ ان کے گھر تشریف لے گئے وہاں حضورؐ کے
سامنے حضرت زیدؓ کی بیٹی بلک بلک کر رونے لگی۔ اس پر آپؐ بھی رونے لگ گئے
اور اتنا روئے کہ آپؐ کے رونے کی آواز آنے لگی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے
حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اﷲؐ یہ کیاہے حضورؐ نے فرمایا یہ ایک
دوست کا اپنے محبوب دوست کے شوق میں رونا ہے ۔
قارئین! ہماری قوم دائروں کا سفر طے کر رہی ہے ایسے دائرے کہ جن کی کوئی
بھی منزل نہیں بلکہ گھومتے گھومتے عمر کی نقدی ختم ہو جاتی ہے ایک نسل دنیا
سے رخصت ہو جاتی ہے اور آنے والی نئی نسل اپنے آباؤ اجداد کے دائروں کی
وراثت کا سفر نئے سرے سے شروع کردیتی ہے یہ سب جاری رہتا ہے اور کچھ خبر
نہیں ہوتی کہ منزل کدھر ہے یہ بات انتہائی حیران کن ہے کیونکہ پاکستان دنیا
کا وہ واحد اسلامی ملک ہے جو نظریے اور کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔
قدرت اﷲ شہاب اپنی تصنیف شہاب نامہ میں وہ تمام حالات وواقعات واضح انداز
میں تحریر کر چکے ہیں کہ جن کا منطقی انجام یہ نکلا تھا کہ آئین پاکستان
میں اس وطن کو ایک سیکولر سٹیٹ کی بجائے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ تحریر
کیا گیا تھا جنرل ایوب خان صدر تھے اور قدرت اﷲ شہاب ان کے سیکرٹری ہونے کی
حیثیت سے تمام اہم میٹنگز میں شرکت کرتے تھے پاکستان کو ایک بہت بڑا مراعات
یافتہ طبقہ ایک سیکولر سٹیٹ قرار دینا چاہتا تھا اور باوجود مذہبی رحجانات
کے جنرل ایوب خان قائل ہو چکے تھے کہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیدیا
جائے اس پر قدرت اﷲ شہاب نے جرات رندانہ سے کام لیتے ہوئے ایک تاریخی تحریر
لکھی جس کے مندرجات کے مطابق انہوں نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ
دنیا جہاں کے ممالک بے شک لادینیت اختیار کر لیں لیکن ان ممالک کے وجود پر
کوئی اثر نہیں پڑے گا اگر پاکستان نے دو قومی نظریے اور کلمے کی بنیاد پر
قائم ہونے والی اس ریاست کو ایک سیکولر سٹیٹ قرار دیدیا تو اسی دن پاکستان
کی مملکت ختم ہو جائے گی ان کا تاریخی جملہ کچھ یوں تھا’’Pakistan has no
escape to Islam‘‘ قدرت اﷲ شہاب کا یہ ڈرافٹ اس قدر پر مغز اور دلائل سے
بھرپور تھا کہ صدر پاکستان جنرل ایوب خان اسی وقت اپنی سابقہ رائے سے رجوع
کر لیا او ر پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘قرار دیدیا گیا۔
قارئین! پاکستان میں دھوپ اور چھاؤں کی طرح فوجی اور سیاسی حکومتوں نے عوام
کی خدمت کے دعوے تو خوب کیے لیکن اکثر وہی ہوا جو پاکستان جیسی ریاستوں کی
عوام کے ساتھ پاکستان کے خود غرض حکمرانوں نے پوری دنیا کے مختلف ممالک کے
مطلق العنان بادشاہوں کی پیروی میں کرنا اپنا فرض سمجھا آغا سکندر مرزا اور
آغا یحییٰ خان جیسے لوگ بھی اس ملک کے حاکم رہے جنہوں نے صدر گھر کو
طوائفوں کا کوٹھا بنا کر رکھ دیا اس میں ان طوائفوں کا کوئی قصور نہیں جو
اپنا فن یا جسم بیچتی تھیں قصور ان حکمرانوں کا تھا کہ جنہوں نے اپنا ایمان
بیچ کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کومجروح کیا اور برصغیر کے لاکھوں شہیدوں
کے لہو کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا۔ اس وطن کو ذوالفقار علی بھٹو جیسا ایک
ذہین اور انقلابی لیڈر بھی ملا جس کو ایک ڈکٹیٹر نے تختہ دار تک پہنچا دیا
اسلام کے نام پر ان امیر المومنین نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ روس کی
افغانستان میں آمد کے بعد انکل سام کے ڈالرز کی مدد سے پاکستان میں ’’
مجاہدین کی پنیری‘‘ اس انداز میں لگائی کہ آج پورا پاکستان انہی مجاہدین کی
فصلوں کی برکت سے پاکستانی نسلوں کے لئے خطرے کی سب سے بڑی جگہ بن چکا ہے
اور چاروں صوبے اس وقت انہی مجاہدین کے جہاد کا نشانہ بن رہے ہیں ہم امیر
المومنین جنرل ضیاء الحق کے نہ تو مخالف ہیں اور نہ ہی حامی لیکن ہم اہل
قلم ہونے کی حیثیت سے اپنے تئیں جس بات کو سچ سمجھتے ہیں اسے عوام کی امانت
سمجھتے ہوئے عوام تک پہنچانا اپنا فرض جانتے ہیں اور اسی اخلاقی ذمہ داری
کوادا کرتے ہوئے ہم یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کو
سب سے زیادہ نقصان افغانستان میں روس سے پراکسی وار کرنے کے دوران پہنچایا
گیا 1980ء سے قبل پاکستان میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افیون، چرس، ہیروئن،
مارفین، ماری جوانااور دیگر منشیات کی اشیاء کس چڑیا کے نام ہیں اور اسی
طرح پاکستانی گلیوں میں مختلف چڑی مار ’’ایئر گن اور غبارے‘‘ لے کر تفریح
طبع کاسامان تو مہیا کرتے تھے لیکن ٹی ٹی، کلاشنکوف،ٹرپل ٹو، دستی بم، ٹائم
بم، راکٹ اور ان جیسے دیگر خطرناک اسلحوں سے افواج پاکستان کے جوانوں اور
سکیورٹی فورسز کے علاوہ اور کوئی بھی واقف نہ تھا آج خطرناک ترین صورتحال
ارد گرد دکھائی دیتی ہے کہ اسلام کی متبرک اور مقدس شخصیات کے ناموں کے
تقدس کی حفاظت کرنے کے لئے مختلف لشکر اور سپاہ خطرناک ترین اسلحوں سے لیس
ہو کر دندناتے پھر رہے ہیں اور ریاست کو ذرا برابر بھی پروا ہ نہیں ہے
مختلف فرقوں کے لوگوں کو ایک سازش کے تحت لڑایا جا رہا ہے اور مختلف زبانوں
اور علاقوں کے لوگ عصبیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں ۔
قارئین اس تمام صورتحا ل میں سیاسی قیادت کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اپنا
کردار ادا کرتی اور تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پرو کر تمام
اختلافات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتی ۔بے شک پاکستان میں درجنوں سیاسی
جماعتیں کام کر رہی ہیں لیکن آپ ہماری اس رائے سے یقینا اتفاق کریں گے کہ
پوسٹ بھٹو منظر نامہ میں پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت
ہے اور پوسٹ امیر المومنین جنرل ضیاء منظر نامہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے
بعد پاکستان مسلم لیگ ن وہ واحد سیاسی قوت ہے جسے ایک قومی جماعت کہا جا
سکتا ہے دیگر جماعتیں خاص علاقوں اور صوبوں تک محدود ہیں اے این پی صر ف
صوبہ خیبر پختون خواہ میں آپ کو ملے گی ،جمعیت العلما اسلام آپ کو بلوچستان
اور خیبر پختون خواۃ میں دکھائی دے گی ،ایم کیو ایم صرف کراچی تک محدود ہے
پاکستان تحریک انصاف حالیہ انتخابات کے بعد صوبہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب
میں نظر آتی ہے لیکن عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی مستقبل کے منظر نامہ
میں ایک قومی جماعت کے طور پر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے تو گویا فی الحال
ہمارے پاس صرف تیر اور شیر کی شکل میں دو قومی جماعتیں موجود ہیں جن کا یہ
مشترکہ فرض ہے کہ وہ حزب اقتدار و حزب اختلاف ہوتے ہوئے عوام کی خدمت کے
لیے کام کر یں ۔انتہائی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ 1989میں محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں تیر عوام کی خدمت نہ کرسکا ۔1990سے1993تک شیر
کی حکومت عوام کی اشک شوئی نہ کر سکی 1999تک ’’ کبھی تم کبھی ہم ‘‘ کا یہ
کھیل جاری رہا اور پاکستانی عوام ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید تباہی کی طرف
بڑھتے گئے اور پاکستانی عوام کے ’’ علامتی تابوت ‘‘ میں فیصلہ کن ’’ حقیقی
آخری کیل ‘‘ قبلہ جنرل مشرف المعروف طبلے والی سرکار نے ٹھونک دیا جنرل
مشرف وہ بلی مارکہ کمانڈو نکلے جو شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے اپنی زبان کے
تیروں سے سیاستدانوں پر برستے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی ایوان
صدر کو اپنے پیش رو ڈکٹیٹر ز کی طرح ’’ طوائفوں کا کوٹھا ‘‘ بنا کر رکھ دیا
۔ہم اس لحاظ سے جنرل ضیاء الحق کو سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے اخلاقی لحاظ
سے کوئی بھی ایسا کام نہ کیا کہ جس پر پاکستانی قوم شرمندگی محسوس کرتی
جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خون کی
برکت سے پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری
نے بی بی شہید کا جو جملہ اقتدار میں آنے سے قبل دہرایا تھا اس کے معنی
اقتدار میں آنے کے بعد بالکل ہی بد ل گئے ۔آصف علی زرداری نے یہ کہا تھا کہ
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کہا کرتی تھیں کہ ’’ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام
ہے ‘‘ یہ جملہ اپنے اصل سیاق و سباق سے ہٹ گیا اور آصف علی زرداری کی قیادت
میں پاکستان پیپلزپارٹی کی عطا کردہ جمہوریت عوام کے لیے سب سے بڑا عذاب
ثابت ہوئی تیر کا سلوگن لے کر جس پارٹی نے اقتدار حاصل کیا اس نے عوام پر
مہنگائی ،بے روزگاری ،دہشت گردی ،کرپشن اور ہر بُری بات کے تیروں کی برسات
کر دی ۔2013کے الیکشن پاکستانی عوام نے توبہ کرتے ہوئے تیر کی بجائے شیر کو
موقع دیا اور آج کل شیر کے متعلق فیس بک پر روزانہ لاکھوں تصاویر اور پوسٹ
شیئر کی جاتی ہیں کہ چونکہ ہمارا پیارا شیر گزشتہ چودہ سالوں سے بھوکا تھا
اور فاقے کاٹ رہا تھا اس لیے آج کل یہ شیر پاکستانی عوام کے خون پر پل رہا
ہے خیر چونکہ مسلم لیگ ن کا ہنی مون پیریڈ ابھی چند ماہ پہلے ہی ختم ہو ا
ہے اس لیے ہم شیر کو ’’ گریس مارکس ‘‘ دیتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ ہمارا
پیارا بھوکا شیر عوام کے ساتھ کم از کم وہ کچھ نہیں کرے گا جو کچھ اس تیر
نے عوام کے دل کے اند رپیوست ہو کر 2008سے لے کر 2013تک کیا ۔
قارئین یہ تو وہ گفتگو رہی جو قومی منظر نامہ کے حوالے سے ہم سمیت ہر شہری
سوچتا ہے اب آزادکشمیر کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے کچھ باتیں آزادکشمیر
کے حوالے سے بھی ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے چلیں ۔آزادکشمیر میں اس وقت
تیر کی حکومت ہے اور یہاں کا شیر ابھی ’’ بلونگڑا ‘‘ ہے بلونگڑا کی ٹرم
عموماً بلی کے بچے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور شیر کا بچہ چونکہ بلی کی طرح
معصوم ہوتا ہے اس لیے ہم اسے بھی ’’ بلونگڑے ‘‘ کے نام سے پکار رہے ہیں
آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن یعنی شیر کو جنم لیے دو سال ہو چکے ہیں اور ابھی
یہاں کا شیر عمر کے لحاظ سے بالغ تو نہیں ہوا لیکن یہاں کے شیر کی بڑھنے کی
رفتار انتہائی تیز ہے آزادکشمیر میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی قیادت
میں تیر کی حکومت مختلف کارنامے انجام دے چکے ہیں اور آزادکشمیر کی تاریخ
میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑے میگا پراجیکٹس شروع کرنے کا سہرا اسی حکومت
کے سر ہے لیکن یہ بات انتہائی معنی خیز ہے کہ جب سے پاکستان یعنی وفاق میں
آزادکشمیر کے تیر کے مخالف شیر کی حکومت آئی ہے اس وقت سے آزادکشمیر کے
تمام میگا پراجیکٹس ’’ کھٹائی ‘‘ میں پڑتے جا رہے ہیں آزادکشمیر کے تینوں
میڈیکل کالجز مالیاتی بنیادوں پر فیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور گزشتہ روز
ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے تیر کی آزادکشمیر کی اس حکومت کے دل
میں ایک تیر پیوست کر دیا ہے پی ایم ڈی سی نے آزادکشمیر حکومت کو انتہائی
خطرناک واننگ دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ آزادکشمیر حکومت تینوں
میڈیکل کالجز میں ٹیچنگ فیکلٹی پوری کرنے میں بھی ناکام ہو چکی ہے ،تینوں
میڈیکل کالجز کے عملے کو گزشتہ تین سے پانچ ماہ کے دوران تنخواہیں بھی نہیں
دے سکی اور حال ہی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو پی ایم ڈی سی کی اجازت کے بغیر غیر
قانونی انداز میں معطل کرنے کا سیاہ کارنامہ بھی انجام دے چکی ہے اس لیے پی
ایم ڈی سی سمجھتی ہے کہ آزادکشمیر کے یہ تینوں میڈیکل کالجز بلیک لسٹ کیے
جا سکتے ہیں ۔
قارئین اب اس کا جواب تو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کے پیارے طبی
مشیر ہی دیں گے کہ انہیں کس نے یہ عجیب مشورہ دیا تھا کہ پروفیسر ڈاکٹر
عبدالرشید میاں جیسے دیانتدار اور پروفیشنل پرنسپل کو کسی بھی قسم کی
’’چارج شیٹ ‘‘ دیئے بغیر کسی بھی جرم کے ثابت ہونے سے پہلے ہی معطل کر دے
لیکن پی ایم ڈی سی کے ارادے انتہائی خطرناک دکھائی دے رہے ہیں اور ہماری یہ
پیش گوئی یاد رکھیے گا کہ اگر یہ تینوں میڈیکل کالجز پی ایم ڈی سی نے بلیک
لسٹ کر دیئے تو آئندہ دس سال تک آزادکشمیر میں پاکستان سے کوئی بھی پروفیسر
آ کر کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ تینوں میڈیکل
کالجز بند ہوتے ہی تیر یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کا ’’ مکو ٹھپ ‘‘ جائے گا
اور پیپلزپارٹی یعنی تیر کی یہ سیاسی موت یا سیاسی خود کشی ہو گی سیاسی خود
کشی اس لیے کہ یہ خود کش حملہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ان کے نالائق
اور بے وقوف ،خود غرض مشیروں نے کروایا ہے توپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ مجھے
لات مارو تیر پکڑ کر گھوڑے نے توپ کو خود لات ماری ہے ۔
قارئین اس وقت آزادکشمیر میں ایک عجیب و غریب قسم کی صورتحال دکھائی دے رہی
ہے وائسرائے آف آزادکشمیر چوہدری برجیس طاہر ایک طرف تو میاں محمد نواز
شریف کی طرف سے آزادکشمیر حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا بیان داغتے ہیں
اور دوسرے ہی دن پاکستان پیپلزپارٹی پر گولہ باری شروع کر دیتے ہیں یا تو
وہ خود کنفیوز ہیں اور یا پھر مسلم لیگ ن ہی کا ویژن کلیئر نہیں ہے کہ وہ
مجاور حکومت کو ملنے والے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے2016میں الیکشن کا
انعقاد چاہتے ہیں یا اس سے پہلے ہی موجودہ قانون ساز اسمبلی کا ’’ دھڑن
تختہ ‘‘ کرتے ہوئے مڈ ٹرم الیکشن کی راہیں ہموار کرنا چاہتے ہیں آزادکشمیر
میں سپریم کورٹ نے پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سمیت تمام ممبران کی تعیناتی
کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے لاکھوں کشمیری نوجوان یونیورسٹی کی ڈگریاں
تھامے سڑکوں پر جوتیاں چٹخا رہے ہیں ،کرپشن روز بروز بڑھ رہی ہے ،جیالوں کو
ان کی تمام تر نالائقی کے باوجود کشمیر لبریشن سیل میں تعینات کیا جا رہا
ہے اور ’’ تیر کے نشان ‘‘ والی پیپلزپارٹی کی مجاور حکومت ’’ سب اچھا ہے ‘‘
کی گردان دہرا رہی ہے اور مغل بادشاہ رنگیلا شاہ کی طرح ’’ حلوے مانڈے‘‘
پکوانے ،پکانے ،کھانے اور کھلوانے میں مصروف ہے بقول چچا غالب ہم یہ کہتے
چلیں ۔
آ ہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ ء صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہرے ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خام ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پر توِ خُور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فرصت ِہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقصِ شر ر ہونے تک
غم ِ ہستی کا اسد کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ہم انتہائی دیانتداری سے یہ رائے رکھتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
نے آزادکشمیر میں جو بڑے بڑے منصوبے شروع کیے ہیں اس کی توفیق ماضی کی کسی
بھی حکومت کو نصیب نہیں ہوئی میڈیکل کالجز کا معاملہ اس وقت انتہائی سنگین
رخ اختیار کر چکا ہے اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو میرپور میڈیکل
کالج سے جس غیر رسمی اور غیر قانونی طریقے سے بر طرف کیا گیا ہے اس سے
پاکستان سے آنے والے تمام پروفیسرز کا نہ صرف دل دکھا ہے بلکہ وہ اپنی
نوکریوں کے حوالے سے شدید ترین عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید کو چاہیے کہ وہ اپنے نالائق مشیروں پر بھروسہ کرنے کی
بجائے اپنی ذہانت سے کام لیں اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں کو پرنسپل
کی حیثیت سے بحال کر کے اس ڈیڈ لاک کا خاتمہ کر دیں ۔
قارئین یہاں ہم یہ بات بھی کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ’’ شیر کے نشان
والی ‘‘ گولی کی طرح ’’ شیر کے نشان والی ‘‘ مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے قائد
سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز شخصیت
کے مالک ہیں جب وہ چند ’’ ماہی ‘‘ اقتدار میں آئے اور آتے ساتھ ہی انہوں نے
چیف جسٹس سپریم کورٹ آزادکشمیر جسٹس ریاض اختر چوہدری سے پنجہ آزمائی شروع
کی تو ہم ان کے بارے میں انتہائی منفی رائے رکھتے تھے اور ہم یہ سمجھتے تھے
کہ راجہ فاروق حیدر خان ایک قبیلے ،برادری اور علاقے کی سیاست کو پروان
چڑھاتے ہوئے آزادکشمیر میں لوگوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں ہم ان کے خلاف
مختلف تحریریں بھی لکھیں اور ’’سائبر کرائمز‘‘ کا ارتکاب کرتے ہوئے ان کے
خلاف لوگوں کو لاکھوں ایس ایم ایس بھی کیے کہ جو کچھ ہو کر رہے ہیں اخلاق
تہذیب اور ہماری روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔دور اقتدار میں ہی راجہ
فاروق حیدر خان نے ہمیں اسلام آباد کشمیر ہاؤس بلوا کر مختلف حقائق ہمارے
سامنے رکھے اور ہمیں بتایا کہ انہوں نے مختلف نا پسندیدہ اقدام کیوں اٹھائے
جو ں جوں ہم نے ان کے دلائل سنے اور ہماری ان سے قربت بڑی تو ہمیں پتہ چلا
کہ درمیانے قد بت کا یہ انسان ’’ ہمالیہ سے اونچے‘‘ خیالات رکھتا ہے اور
کشمیری قوم کے وقار،عزت اور غیرت کی خاطر راجہ فاروق حیدر خان ’’ تیر تو
تیر توپ سے لڑ جاتے ہیں ‘‘ اس دن سے ہم راجہ فاروق حیدر خان کی انتہائی قدر
کرتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ حسنِ گمان رکھتے ہیں کہ وہ کشمیری قوم کو
کسی اچھی منزل کی طرف ضرور لے جائیں گے خیر یہ تو وقت بتائے گا کہ تیر نے
شیر کے ساتھ کیا کرنا ہے ،شیر نے تیر کی کیا خاطر مدارت کرنی ہے اور ان
دونوں نے مل کر کشمیری او رپاکستانی عوام کے مزاج کس طرح درست کرنے ہیں
۔یہاں ہم یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ اﷲ پاکستانی وکشمیری قوم کو ’’ قائداعظمؒ
کے کھوٹے سکوں‘‘کی جگہ قائداعظمؒ کے اصل جانشینوں پر مبنی قیادت نصیب کرے
جو پاکستان اور آزاد کشمیر کو اعلیٰ مناصب اور منازل کی طرف لے جائے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک بچہ سکول میں بہت دیر سے پہنچا استانی نے غصے سے کہا
’’ببلو تم دس بجے آر ہے ہو جبکہ سکول آٹھ بجے شروع ہوتا ہے‘‘
بچے نے جواب دیا
’’مس وقت کی پابندی بہت ضروری ہے آپ میرا انتظار نہ کیا کریں پڑھانا شروع
کر دیا کریں‘‘۔
قارئین!بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوام بھی دیر سے سوچتے ہیں اور قیادت بھی
دیر سے سمجھتی ہے حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
اس وقت ہماری سیاسی قیادت بھی وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی کے رونے رو
رہی ہے لیکن تیر اور شیر دونوں کو یہ توفیق ابھی تک نصیب نہیں ہوئی کہ وہ
رونے رونے کی بجائے روتی ہوئی اس عوام کو کوئی واضح منزل دکھا کر زیادہ
نہیں بس پہلا قدم ہی منزل کی طرف اٹھا لیں۔ اﷲ ہمارے حال پر رحم
فرمائے۔آمین |