دو آپ بیتیاں

پاکستان نیشنل گارڈ کون ہیں

کوئی نہیں جانتا
مجھے بھی کچھ پتہ نہیں تھا
اتنایاد ہے کہ سال 1960---1961 کی بات ہے ہم کوئٹہ میں رہتے تھے -غالبآ یوم پاکستان کے سبب تعطیل تھی - گھر کے باہر راحت سینیما کے سامنے کے سامنے ایک لمبا تڑنگا آدمی گھوڑے پر سوار نظر آیا - اس نے عجب کپڑے پہنے ہوئے تھے - جوتے اس کے گھٹنوں تک پہنچ رہے تھے - اور لمبی سی مونچھیں تھیں - کسی نے کہا یہ نیشنل گارڈ ہے -
اسے دیکھنے کے لئے سر اوپر تک اونچا کر نا پڑا تھا -

بہت عرصے کے بعد ----تقریبآ بیس پچیس سال بعد پتہ چلا کہ ایک اور فوج بھی ہوتی ہے جسے جانباز فورس کہتے ہیں - یہ جنگ میں فوج کی مدد کرتی ہے -

فوج کی مدد کے جذبے کے تحت میں اس میں شامل ہوا - انکشاف ہوا کہ یہاں جذبہ نامی کوئی شے نہیں ہے بلکہ سرکاری ادارے اپنے ناکارہ افراد حکومت کے زور دینے پر یہاں بھیج دیا کرتے ہیں - جب تربیت کے لئے پہنچا وہ میرے جذبے کا مذاق اڑاتے لگے اور مجھے عجب نظروں سے دیکھنے لگے - اس تربیت کے تحت میں نے طیارہ شکن توپ -مشین گن اور رائفل چلانا سیکھی -

رائفل چلانے کی مشق کے لئے پولیس تربیتی مرکز رزاق آباد لے جایا جاتا تھا -وہی پولیس تربیتی مرکز جس کی بس کو ابھی ایک ہفتہ قبل ( 13 فروری 2014 ) دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور 13 افراد شہید ہوئے-

کہنے کو میں نے ایک سطر میں لکھ دیا کہ رائفل چلانے کی تربیت حاصل کی لیکن اس دوران جن مراحل سے گزارا گیا وہ وہ ہم جیسے غیر فوجیوں کے لئے نہایت ہی دشوار تھے - رائفل کو لیکر اس طرح رینگنا کہ اس کی نال زمین سے اونچی رہے اور اس دوران جسم / کمر وغیرہ بھی ایک خاص بلندی سے زیادہ نہ اوپر ہو اور پورا بوجھ کہنیوں اور پیر کے نچلے حصے پر ہو اور اس طریقے سے رینگتے ہوئے مخصوص مقام پر پہنچ کر دشمن کا نشانہ لیکر گولی چلانا اور فائر کے دوران رائفل اس طریقے سے پکڑنا کہ رد عمل کے طور پر بندوق پیچھے ہو تو جسم کو کوئی گزند نہ پہنچے -

اسی طرح طیارہ شکن توپ چلانے سے پہلے توپ کے مختلف حصوں کو جوڑ کر توپ کو فائرنگ کی حالت میں لایا جاتا تھا - یہ مختلف حصے اتنےبھاری تھے کہ اٹھاناآسان نہیں تھا اور لمبے بھی اچھے خاصے ہوتے تھے -- اس کے لئے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر ہتھیلیوں سے اٹھانے کا انتظام کیا جاتا پھر اس پارٹ کو دونوں ہتھیلیوں کے اوپر اٹھا بقیہ حصہ دونوں پنڈلیوں کے درمیان رکھ کر کر ایک مقام سے توپ تک لاتے - طیارہ شکن توپ کا عملی مظاہرہ کرنے پاکستان ائر فورس کے تربیتی مرکز کورنگی کی کھاڑی لے جایا گیا -

اتنا کچھ دیکھنے کے بعد تو میں بڑا مطمئیں تھا کہ صحیح تربیت دی جاتی ہے لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ بڑا شہر تھا اور اس کے علاوہ آپ کے ادارے نے بہت تعاون کیا تھا جس کے سبب تربیت کے مسائل پیدا نہیں ہوئے لیکن چھوٹے شہروں میں تر بیت کا معیار اتنا اونچا نہیں - میرا دل نہیں مانا -

لیکن پاکستان فوج کے سابق کے سابق کمانڈر ان چیف جناب محمد موسی کی کتاب "جوان سے جنرل تک"(انگریزی) پڑھی تو حیرانی کے سمندر میں کھو گیا - اندازہ ہوا کہ لوگ صحیح ہی کہتے تھے-

جنرل موسی اپنی کتاب جوان سے جنرل تک (انگریزی) میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان نیشنل گارڈ اس لئے تشکیل دی گئی تھی کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کے پاس ایسے افراد (مرد و خواتین) دستیاب ہوں جو پاکستان کی سیکنڈ لائن کی دفاعی ضرورتیں پورا کر سکیں جنرل موسی لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد گیارہ ماہ بعد(جولائی 1948 ) ان کی تبدیلی بطور ڈائرکٹر نیشنل گارڈ کے کردی گئی - (صفحہ 89 سے 93تک) لیکن جنرل موسی نے کچھ نا رضا مندی اور بے رغبتی کا اظہار کیا -اس وقت تک فوج کے سربراہ اور دوسری کلیدی پوسٹون پر انگریز ہی تھے - جنرل گریسی کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے جنرل موسی نے دلیل دی کہ نیشنل گارڈ میں خواتین بھی شامل ہیں جب کہ میرے قبیلے کی روایات کے مطابق میرے قبیلے کی خواتیں اس میں شریک نہیں ہو ں گی جب میں اپنی خواتیں کو زور نہیں دے سکتا تو دوسرے خاندانوں کی خواتیں کو کیسے اصرار کر سکتا ہوں کہ اس میں شریک ہوں - لیکن جنرل گریسی نے ان سے کچھ متفق اور کچھ نا متفق ہوتے ہوئے انہیں پاکستان نیشنل گارڈ کے معاملات دیکھنے کو کہا کیوں کہ وہ فوج کے اس حصے سے مطمئیں نہیں تھے - - اور بالآخر جنرل موسی نےیہ معاملات دیکھنا شروع کئے-

پاکستان بنے صرف بارہ ماہ ہوئے تھے - جیسے جیسے وہ اس تنظیم کے اندرونی معاملات میں گہرائی میں گئے وہ حیرت زدہ رہ گئے ایک نو خیز مملکت جسے بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے - جو اپنے پیروں پر کھڑی بھی نہیں ہوئی تھی اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے -

کاغذات سے تو اندازہ ہوتا تھا کہ اس وقت تک پاکستان نیشنل گارڈ کی 56 بٹالیں بن چکی تھیں اور پاکستان نیشنل گارڈ کی خواتیں کی کمپنی بھی موجود تھی - یعنی چھ ڈویژن فوج بطور سیکنڈ دفاعی لائن تیار تھی -دوسرے الفاظ مین ہماری سیکنڈ دفاعی لائن بہت قوی تھی لیکن یہ سب کاغذات کے مطابق تھا اندر معاملات نہائت ہی کھوکلے تھے نیشنل گارڈ کے یہ دستے کاغذوں میں تو موجود تھے لیکن عملآ ان کا کوئی وجود نہیں تھا -

ہر دستے کا ایک باقائدہ آفیسر ہوتا تھا - دیہاتوّں میں نیشنل گارڈ کے رضاکار زیادہ تر کسان ہوتے تھے - ان کے پاس پہنے کے لئے جوتے بھی نہیں تھے -انہیں اپنے گاوں سے چھ سات میل دور تربیت کے لئے ہفتے میں دو مرتبہ بلایا جاتا تھا - اور انہیں کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا - چنانچہ وہ آنے سے کتراتے تھے جبکہ کھیتوں میں کام کرنا ان کی اپنی معاشی ضروریات کے لئے اشد ضروری تھا - اس لئے وہ نیشنل گارڈ کو ٹالنے کی کوشش کرتے تھے جنرل موسی کہتے ہیں کہ یہ بات اور توقع بھی غیر مناسب لگتی تھی کہ نیشنل گارڈ کے رضا کار ہفتے میں دو دن اپنے روزگار کو چھوڑ کر اس کام کے لئے وقف کر دیں - گرمیوں کے موسم میں بالخصوص صرف چند ہی افراد اسکی ٹریننگ میں حصہ لیتے تھے کیونکہ سخت تپش میں -اپنے خود کے کپڑےسلا کر اور خود کے جوتے پہن کر میلوں میل چل کر ٹریننگ کی جگہ پر پہنچنا جس کا انہیں معاوضہ بھی نہ ملتا ہو انہیں کیوں پسند ہوتا -

البتہ ان کے مقامی افسر یونی فارم کو بخوشی پہنا کرتے مقامی افسران اس کام سے مطمئین اور خوش تھے کیوں کہ اپنے علاقوں میں ان کے حکام بالا سے تعلقات ہو جاتے تھے جس کے سبب انہیں اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا سہل ہو جاتا تھا -ان افسران کو تربیت دینے یا صحیح طریقے سے بھرتی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی -

جب بھی کوئی معائنہ ٹیم ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے پہنچتی تو نیشنل گارڈ کے یہ مقامی افسران پیسے دے دلا کر --یہاں وہاں سے افراد کو پکڑ کر کھڑا کر دیتے تھے -

وہ زیادہ تر اپنا وقت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں (ضلع کے صدر مقام) میں ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے قریب گزارتے تھے -کوئی اعلی افسر آتا تو ایک دعوت کا اہتمام کرتے اور سول افسران کو بلا کر مزید ذاتی مفادات حاصل کرتے ہرکمانڈنگ افسر اور یہان تک کہ کمپنی کمانڈر بھی شاز و نادر ہی ان دستوں اور بٹالین کا معائنہ کرتے تھے یونٹ کا ایک باقائدہ فوجی افسر (ریگولر آرمی افسر) بطور ایڈجو ٹنٹ ہوتا تھا - میں نے انہیں انتباہ کیا کہ حالات کی صحیح تصویر بتائیں اور انہیں مخفی رکھنے کی سعی نہ کریں -

انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ نیشنل گارڈ کے حالات صحیح کر نے کی اشد ضرورت ہے-
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355023 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More