صرافوں یعنی سناروں نے دنیا کے
سامنے سب سے پہلے تجوریوں ( لاکرز) کا نظام متعارف کرایا ۔ انہوں نے لوگوں
کے زیورات ، سکے اور سونا اجرت لے کر محفوظ کرنا شروع کر دیا ۔ حفاظتی نقطہ
نظر سے یہ '' ڈیپازٹ سسٹم'' لوگوں کو پسند آیا اور بہت جلد مقبول ہو
گیا۔آہستہ آہستہ یہودی صرافوں نے اس میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کی۔ لوگ جب
سونے کے سکوں کے عوض کوئی چیز خریدتے تھے تو پہلے یہودی صرافوں کو رسید
دکھا کر اپنا سونا لیتے ،پھر اسے اس شخص کے حوالے کرتے جس سے انہوں نے کچھ
خریدا ہوتا ۔ بیچنے والا اس سونے کو پھر کسی یہودی سنار کے پاس رکھوا کر
سید لے لیتا۔رسید بنانے اور سکے جمع کرانے کا یہ عمل یکسانیت اور طوالت
کھتا تھا۔ اس کا حل یہودی ساہوکاروں نے یہ نکالا کہ حفاظت کے لیے اپنی
تحویل میں رکھے گئے سونے کو دوسرے لوگوں کو فروخت کرتے ہوئے اسے عملا پرانے
مالک کو واپس کر کے پھر نئے مالک سے لے کر تحویل میں رکھنے کی بجائے ''ایکسچینج
چٹ'' یعنی تبادلے کی تحریری یاداشت متعارف کرائیگئی۔ یعنی رسیدوں پر لین
دین شروع ہو گیا۔ تبادلے کے اس نظام سے سونا ایک دفعہ وصول کرنے اور پھر
اسے دوبارہ جمع کرانے کا جھنجھٹ ختم ہوگیا۔کاغذوں کے یہ پرزے کرنسی نوٹوں،
ٹریولز چیکوں اور کریڈت کارڈوں کی بنیا د ہے اور وہ وقت دور نہیںجب کئی
الیکٹرونک کرنسی شکل میں واحد عالمی ذریعہ تبادلہ متعارف ہو جائے گا۔
اگلا کام جو یہودی صرافوں نے جو کیا وہ یہ تھا کہ ہنڈی اور بیمے کا سلسلہ
متعارف کروایا جائے۔ اس دور میں کچھ لوگوں کو دور دراز کا سفر کرنا پڑتا
تھا۔سفر کے دوران انہیں اپنے اور اپنے قیمتی سامان کی حفاظت کی پریشانی
رہتی تھی۔ٹمپلرز نے لوگوں کے خالی ہاتھاسفر کرنے اور اس کے باوفود دولت ایک
سے دوسری جگہ لے جانے کا محفوظ طریقہ وضع کیا۔ٹمپلرز ایک شہر میں لوگوں سے
سونا اور چاندی وغیرہ وصول کر کے انہیؔں ایک چٹ جاری کر دیتے جس پر کوڈورڈز
درج ہوتے ۔ ان کوڈورڈز کو صرف ٹمپلرز ہی سمجھتے تھے۔ دوسر شہر جا کر لوگ یہ
چٹ وہاں کے ٹمپلرز کو دیتے اور ان سے مطلوبہ مالیت کا سونا اور چاندی یا
نقدی وصول کر لیتے ۔کچھ ہی عرصہ بعد جمع کرائے گئے سونے کو قرصے کے طورپر
جاری کرنا شروع کر دیا۔حلانکہ حفاظتی تحویل میں پڑے سونے کی شرط یہ تھی کہ
وہ عندالطلب مالکان کو لوٹایا جائے۔ مالکان چونکہ عرصہ دراز تک اپنا سونا
وصول کرنے کے لیے نہیں آتے تھے۔ اور ان کا کام چٹوں سے چلتا تھا اس لیے
اپنے پاس پڑے بے مصرف سونے کا یہ مصرف ڈھونڈا کہ اسے سودی قرض کے طور پر
لوگوں کو دے کر سود کمایا جائے۔سونا کسی اور کا تھا اس پو سود کوئی اور بھر
رہا تھا اور مفت میں موج یہ لوگ کر رہے تھے۔جن کا ہوس زدہ دما غ ا س طرح کے
شیطانی منصوبے سوچنے کا ماہر تھا۔ الغرض جب صرافوں نے دیکھا کہ ان کے پاس
جمع کرائے جانے والے سونے کی صرف معمولی مقدار مالکان نکلواتے ہیں۔ چنانچہ
انہوں نے اس میں سے کچھ سونا دوسروں کو سود پر دینا شروع کر دیا۔ اس کے
بدلے وہ اصل رقم اور سود کے لیے ایک ''پرامیسری نوٹ'' یا دستاویز لکھوالیتے۔
اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی سرٹیفیکیٹ جن کے بدلے سونے کے سکے لیے
جاسکتے تھے گردش میں آگئے۔اس سے پہلے لین دین کے لیے صرف سونے کے سکے گردش
میں رہتے تھے۔ شروع میں یہ سرٹیفیکیٹ یا نوٹ جمع شدہ سونے کی مالیت کے بربر
ہوتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ گردش میں رہنے والے نوٹوں کی مالیت جمع شدہ سونے
کی مالیت سے زیادہ ہو گئی۔
سرمایہ محفوظ کرنے، قرضہ دینے ، اور ضمانت حاصل کرنے کا یہ قدیم طریقہ آج
کے جدید بینکاری نظام کی بنیاد بنا۔ ٹمپلرز مذہبی پسِ منظر رکھنے کی وجہ سے
لوگوں کے لیے قابل بھروسہ تھے۔ تمام یورپی ممالک یہاں تک کہ مشرق وسطی اور
ارضِ مقدس میں ان کی شاخیں اور دنیا بھر میں ان کے نمائندے موجود ہیں۔یورپ
کی نشاۃ ثانیہ میں حصہ لینے والے دولت مند خاندانوں مثلاَ فلورنس، اٹلی کے
میڈیکس خاندان نے بھی اس نظام کی اعانت اور رفتہ رفتہ یہ نظام ترقی کر کے
باقاعدہ مستقل ادارے یعنی بینک کی شکل میں وجود میں آگیا۔ پہلا ماڈرن بنک
سویڈن کا دی رکس بنک ٦٥٦١ میں وجود میں آیا پھر بنک آف انگلینڈ ٤٩٦١ میں
سود خوری کے منظم ادارے کی شکل میں قائم کر دیا گیا۔سترہویں صدی عیسوی کے
انگریز صرافوں نے دنیا کو سودی بینکاری کا ماڈل مہیا کر دیا اور آہستہ
آہستہ دنیا سودی لعنت کے اس جال میں پھنس گئی۔ مقامی بینک ، مرکزی بینک سے
اور مرکزی بینک عالمی بینک سے منسلک ہو گیا۔ اور اس طرح دنیا کی معیشت ان
لوگوں کے ہاتھ میںآگئی جو دجال کے خروج سے پہلے ہر تنفس کے سینہ میں حرام
کا لقمہ پہنچاتے یا اس کے تاک میں رہتے تاکہ حرام کے عالمی سوداگر کا جب
ظہور ہو تو اور ابلیسی حرام خواہوں کے لیے میدان ہمورا ہو چکا ہو۔
اس زمانے میں عیسائی معاشروں میں بھی سود سے گریز کیا جاتا تھا لیکن
ٹمپلرز۔۔۔ مقدس سمجھنے جانے والے ٹمپلرز ۔۔۔ اس کی ذرہ بربر پر واہ نہیں
کرتے تھے۔وہ نہ صرف قرضوں پر سود وصول کرتے ۔ بلکہ یہ بھاری شرح کے ساتھ
سود عائد کرتے تھے۔ایک موقع پر ایک قرض دار کو ساٹھ فیصد تک سود در سود ادا
کرنا پڑتا۔ قدیم زمانے میں منطم بینکاری نظام کے ساتھ یہ لوگ اپنے دور کے
جدید سرمایہ کار بن گئے۔عوام تو عوام ، حکومتیں تک ان سے قرض لیا کرتے تھے۔
بہت سی بادشاہتیں ان کے قرضوں کے بوجھ تلے دب گئیں۔ بقیہ یورپی ممالک کے تو
رہنے دیجیے، انگریز حکمران خاندان بھی ٹمپلرز کا مقروض تھا۔ جن میں بادشاہ
جان، ہنری سوم اور ایڈورڈ اول سبھی ٹمپلروں سے قرضہ لیتے تھے۔ ٠٦٢١ سے ٦٦٢١
کے درمیان بادشاہ ہنری نے اپنے تاج کے ہیرے ٹمپلروں کے پاس رہن رکھے ہوئے
تھے۔ مختلف بادشاہوں کو مقروض کرنے کے بعد ٹمپلرز آگے بڑھے۔ حکمرانوں کے
تاجوں میں جٹرے ہیروں گروی رکھنے کے بعد اب وہ عوام کو بھی اپنے پاس گروی
رکھنا چاہتے تھے۔اس کے لیے انہوں نے جو طریقہ اپنایا وہ ان کی سنگدلانہ
شیطانی سوچ کا عکاس تھا۔ اس طریقے نے آج تک دنیا کو ان کے ہاتھوں معاشی
غلام بنا رکھا ہے۔ انہوں نے حکمرانوں کو دیے گئے قرضوں کی وصولی کو یقینی
بناے کے لیے وقت ضائع کیے بغیر پابندی عائد کر دی کہ ٹیکس کی وصولی صرف
ٹمپلرز کریں گے۔ ٹیکس وصول کرنے کی طاقت نے ان کو کی طاقت اور دولت میں بے
پناہ اضافہ کر دیا۔ اب نہ صرف وہ پاپا ئیت کو دیے جانے والے عطیات وصول
کرتے بلکہ بادشاہوں (حکومتوں) کی طرف سے ٹیکس بھی وصول کرتے ۔ ٹممپلرز نے
اپنی دولت اور قوت میں تیزی سے اضافی کیا۔یہاں تک کہ اب وہ اپنے مشن کے
تیسرے مرحلے کا آغاز کرنے کے قابل ہو گئے۔ مزہبی و مالی حیثیت کے استحکام
کے بعد اب اقتدار اور عسکریت کی طرف ان کا سفر شروع ہوا۔اس کے لیے انہوں نے
یہ طریق کار وضع کیا۔ ۔۔۔اور بلاشبہ انسانیت کا خون بہانے اور انسانیت کی
رکوں سے خون چوسنے والے ا یک طریقہ کار کو ''ابلیسی سیاست'' کے علاوہ کوئی
اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ کہ دنیا میں جہاں جنگ ہوتی یہ جنگ میں شریک
دونوں فریقوں کو قابو میں رکھتے ان سے فائدہ اٹھاتے ۔ اگر کہیں جنگ نہیں ہو
رہی تو یہ بغاوت تخلیق کرتے اور پھر دونوں فریقوں کو اسلحہ فراہم کرتے۔
چنانچہ جنگ میں شریک دونوں فریق ان کے مقروض اور زیرِاثر ہو جاتے۔کھوئے
ہوئے یروشلم کو واپس لینے اور پوری دنیا پر غلبہ پانے کا یہ سفاکانہ مشن ہر
طرح کی اخلاقیات اور انسانی روایا ت کو پامال کرتے ہوئے جاری تھا کہ یہاں
تک کہ اکتوبر کی تیرہ تاریخ اور جمعہ کا دن آ گیا۔ تیرہ تاریخ نائٹ ٹمپلرز
کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ (جاری ہے) |