ہوٹلوں پر وقت گزاری ، لعن طعن،
گھریلومعاملات کو اچھالنا، غیبت،
فحش گوئی اور آپس میں اُلجھنا ہماری قوم کا محبوب مشغلہ
فضول بات زبان کی پہلی آفت ہے،فضول بات یعنی ایسی بات نہ کہو جس کے کہنے کی
ضرورت نہ ہوا ور اس کے کہنے سے کسی قسم کا نقصان یا مضرتِ دینی یا دنیوی نہ
ہو۔اگر فضول اور بے ضرورت بات کہی تو حسن اسلام سے نکل جانے کاخدشہ ہے کیوں
کہ پیغمبر اسلام مصطفی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے
کہ لا یعنی بات ترک کر دے۔لایعنی کلام کی مثال یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ
بیٹھ کراپنے سفر کے احوال،باغ،بوستاں کی کیفیت اور جو کچھ رودادہو اس کو بے
کم وکاست بیان کرنا،یہ سب یاوہ گوئی اور زیادہ گوئی ہے۔اس کی چنداں حاجت
نہیں اور نہ کہنے سے ضرر کا کچھ اندیشہ بھی نہیں۔مگر آج بالخصوص دوستوں کے
ساتھ ایسی محفلیںمنعقد کی جاتی ہیں۔جس میں رودادِسفر اور احوالِ شب وروز
لطف اندوزی کے لیے بیان کئے جاتے ہیں۔فلم بینی کے بعد فلم کی مکمل اسٹوری
یارانِ مجلس میں قہقہوں کے ساتھ تفریح طبع اور مزہ کے لیے بیان کرکے دوہرے
گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں۔اس لئے کہ گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے۔اسی لیے اگر
کسی سے ملاقات ہو اور اس سے ایسی بات پوچھو جس کی حاجت نہیںمثلاً:کسی سے
پوچھنا کے تم نے روزہ رکھا ہے،اب اگر وہ جواب میں سچ کہتا ہے تو اس نے
عبادت کا اظہار کیااور جھوٹ کہتا ہے توگناہگار ہوگا،اس کے جھوٹ بولنے کے مو
¿جب ہم ہونگے کیوں کہ اس نے ہمارے بے جا سوال پر جھوٹ کہا ہے۔اسی طرح کسی
شخص سے پوچھا جائے کہاں سے آرہے ہویا کیا کررہے ہو؟تو ممکن ہے کہ وہ اس بات
کو چھپاناچاہتا ہو اور وہ جھوٹ کہہ دے۔یہ سب کلام بے جا اور یاوہ گوئی
ہے۔معقول بات وہ ہے جس میں باطل کا دخل نہ ہو۔
منقول ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اہل بہشت سے یہاں آئے
گا۔پس حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ دروازے سے داخل ہوئے۔لوگوں نے
انھیں اس عظیم خوش خبری سے باخبر کیا اور دریافت کیا کہ کس عمل کے باعث اس
بشارت عظمیٰ سے سرفراز کیے گئے۔فرمایا کہ میراعمل تو بہت تھوڑا ہے لیکن میں
نے کبھی بھی اس کے بارے میںلوگوں سے دریافت نہیں کیا جس کام سے میرا کوئی
تعلق نہیںاور نہ میں نے لوگوں کی بد خواہی کی۔
زبان کی دوسری آفت وہ سخن ہے جو محض باطل اورمعصیت میں کیاجائے۔باطل سے
مراد وہ کلام جوبدعات میں کیاجائے اورمعصیت(گناہ)یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں
کے گناہ ، فسق و فجورکی باتیں،شراب نوشی کی مجلسوں اورفسق وفجور کی حکایات
بیان کی جائیں۔ایک دوسرے سے فحش باتیں کرنایا اس طرح فحش باتیں بنائیںجس کو
سن کر دوسروں کو ہنسی آجائے۔یہ تمام باتیںمعصیت میں داخل ہیں۔یہ پہلی آفت
سے زیادہ سخت ہے کیوں کہ پہلی آفت میںصرف مرتبے اور درجات کا نقصان تھا مگر
اس میں توگناہ ہے۔رسول گرامی وقارﷺ نے فرمایا:کوئی ایسا ہوگا کہ ایک بات
ایسی کہے جس کا اس کو خوف نہ ہو اور اس کو حقیر نہ جانے آخر کاریہی بات اس
کو قعرِ جہنم تک پہنچائے گی اورکوئی ایسا ہوگا کہ بے تکلف ایک بات کہے اور
وہ بات اس کو بہشت میں لے جائے۔
بحث کرنا،جھگڑنا زبان کی تیسری آفت ہے۔آقائے کون ومکاں ﷺ نے فرمایا:ہر ایک
جھگڑے کاکفارہ دورکعت نماز ہے۔جھگڑا کرنے میں یہ بھی ہے کہ کسی کے کلام پر
حرف گیری نہ کی جائے۔کسی کے کلام کے نقص کو ظاہر کرناحرام ہے کیوں کہ اس سے
قلبی رنج ہوتا ہے اورکسی مسلمان کو بغیر ضرورت رنج دینا مناسب نہیں ہے۔اور
لوگوں کے کلام کی خطا اور غلطی ظاہر کرنافرض نہیں ہے بلکہ خاموش رہناایمان
کی دلیل ہے۔البتہ بطور نصیحت خلوت میں حق بات کو ظاہر کردو بشر طیکہ قبولیت
کی امید ہو اگر نہ ہوتو خاموش رہنا مناسب ہے۔جھگڑوں سے بچنے والوں کومژدہ
جانفزا سناتے ہوئے مصطفی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جو کوئی بات چیت میں
مخالفت اور جھگڑاکرنے سے باز رہے گااور بے جا گفتگو نہ کرے گااس کے لیے جنت
کا محل ہے۔
قارئین کرام!مذکورہ باتوں کوجاننے کے بعدہم اپنے گردوپیش کاجائزہ لیں گے تو
ہمیں اس بات کابخوبی اندازہ ہوگاکہ جن باتوں سے ہمیں روکاگیاہے ان تمام
باتوں میں مسلم سماج ملوث نظرآتاہے۔ہوٹلوں پر بیٹھ کر وقت گذاری کرنا،ایک
دوسرے پر لعن طعن کرنا،لوگوں کے گھریلومعاملات کو چار لوگوں کے درمیان
اچھالنا،ایک دوسرے کی غیبت کرنا، بڑی فرصت سے فلمی داستان کوآپس میں شیئر
کرنا،فحش گوئی کرنا،نازیباکلمات کہنااور بات بات میں آپس میں الجھ
جاناوغیرہ وغیرہ باتیں آج کامحبوب مشغلہ نظرآتاہے۔نہ بچوں کی تعلیم کی
فکرہے اور نہ ہی ان کی نگہداشت پر توجہ،نہ والدین کی خدمت کاخیال ہے نہ ہی
نجی زندگی کو بہتر بنانے کی تمنا۔ہوناتو یہ چاہئے کہ حلال رزق کی جستجوسے
جب فارغ ہوجائے تو اپناوقت علم دین کے حصول میں صرف کریں،بچوں نے مدرسہ
واسکول میں کیاپڑھااس کا اعادہ کروائیں،والدین کی خدمت انجام دیں مگر افسوس
صد افسوس!ان تمام باتوں سے پرے ہوٹلوں،کلبوں،چوک اور چوراہوں پر بیٹھ کر
ساراوقت فضول باتیں کرنے اورگپیں ہانکنے میں خرچ ہوتاہے۔اگر ہم بہتر معاشرے
کے خواہش مند ہے ،بچوں کو اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار دیکھنا چاہتے
ہیں اور خدمت والدین کے صلے میںجنت کے متمنی ہے تو مذکورہ باتوں پر توجہ
دینے کی ضرورت ہے ،سچامسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کی عزت کاخیال اس کے پیٹھ
پیچھے کریں نہ کہ یہاں وہاں بیٹھ کر عزتِ مومن کے قلعے کومسمار کریں۔ اللہ
پاک سے دعاہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں تمام لایعنی باتوں سے بچنے کی توفیق
عطافرمائے۔آمین |