حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کوئی آدمی رسولؐ کے کان میں بات کر رہا ہو
اور حضورؐ کا ہاتھ کسی آدمی پکڑ رکھا ہو اور حضورؐ نے اس سے اپنا ہاتھ
چھڑایا ہو بلکہ وہی آدمی حضورؐ کا ہاتھ چھوڑتا ۔
حضر ت انس ؓ فرماتے ہیں مدینہ والوں کی کوئی بچی آکر حضورؐ کا ہاتھ پکڑ
لیتی تو حضور اکرم ؐ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے پھر وہ جہاں چاہتی
حضورؐ کو لے جاتی ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جب حضور ؐ کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو جو
ان دونوں میں سے زیادہ آسان ہوتا اسے اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ کام گناہ نہ
ہوتا اگر وہ کام گناہ ہوتا تو آپ ؐ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور حضورؐ
کبھی بھی اپنی ذات کی وجہ سے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے ہاں کسی کو اﷲ کا
حرام کردہ کام کرتے ہوئے دیکھتے تو اس سے ضرور بدلہ لیتے لیکن یہ بدلہ لینا
اﷲ کے لیے ہوتا ۔
قارئین آج کا کالم ہم آزادکشمیر کی تاریخ کی انتہائی سنگین صورتحال کے
دوران آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں آزادکشمیر اس وقت آئینی بحران کے بہت
بڑے سائیکلون میں گھرچکا ہے اور لیڈر آف دی ہاؤس پیپلز پارٹی کے سپر مین
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید گزشتہ تین دنوں سے ’’ وجد اور حال ‘‘ میں مبتلا
ہو کر ایسے ایسے احکامات صادر کر رہے ہیں کہ کہیں پھر تو ان پر یہ شک گزرتا
ہے کہ وہ کشمیری قوم کی عزت اور وقار کی خاطر ’’ اب یا کبھی نہیں ‘‘ کے
مقام پر پہنچ چکے ہیں اور کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو
آخری سہارا دینے کے لیے انہوں نے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر اپنی پوری
پارلیمانی پارٹی کو ایک مرتبہ پھر متحد کر دیا ہے یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے
گا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے جو جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کے پیچھے
کیا کیا مفادات اور اغراض و مقاصد کار فرما تھے یہاں ہم یہ عرض بھی کرتے
چلیں کہ ’ ’ انصار نامہ ‘‘ کا مصنف جنید انصاری تیسری دنیا کے اس تیسرے
درجے کے ملک کا ایک تیسرے درجے کا شہری ہے اور خدا وندان ِ سیاست و طاقت سے
کسی بھی قسم کی پنجہ آزمائی یا محاذ آرائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔راقم
یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ گستاخوں کے ساتھ ہمارا ملک اور معاشرہ کس طرح
کا سلوک کرتا ہے اور اسی وجہ سے راقم کسی بھی قسم کی مجنونیت سے پرہیز کرتے
ہوئے اپنا دامن کانٹوں اور آگ سے بچا کر چلنا چاہتا ہے ہاں کبھی کبھی جب دل
کی کیفیت آگ میں جلتے ہوئے تندور جیسی ہو جاتی ہے تو قلم و زبان سے اس
دوران کچھ باتیں نکل جاتی ہیں جنہیں صاحبان ِ اقتدار اکثر اوقات ’’ بد
تمیزی اور گستاخی ‘‘کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
قارئین کالم کا عنوان دیکھ کر آپ یقینا چونک گئے ہونگے کہ ’’ کار ِسرکار ‘‘
کا کسی سرکاری کار کے ساتھ کیا تعلق ہے تو جناب آپ کے تجسس کو مزید اشتہا
دیئے بغیر ایک انتہائی دلچسپ خبر آپ کو بتاتے چلیں محترمہ بے نظیر بھٹو
شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو2فروری
کو حکومت آزادکشمیر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے برطرف کر دیا اور پرنسپل کی
سیٹ سے ہٹا دیا پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے پہلے تو وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید بعد ازاں چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل اور دیگر
متعلقہ افراد تک رسائی حاصل کر کے ان سے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ عالی جا ہ
آپ نے مجھے پرنسپل کے عہدے سے ہٹا تو دیا ہے یہ تو بتا دیں میرا جرم کیا ہے
ان کا یہ سوال سوال ہی رہا اور کسی بھی معزز اور مقتدر شخصیت نے جواب دینے
کی زحمت نہ کی ۔اس پر پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے عدالت کا دروازہ
کھٹکھٹایا اور آج کل ان کا مقدمہ عدالت میں زیر بحث ہے اور عدالت نے پہلی
پیشی میں حکومت آزادکشمیر کو انتہائی سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے ہدایت
جاری کی ہے کہ اپنا موقف پیش کرے بصورت دیگر عدالت یکطرفہ فیصلہ دے دے گی
۔سرکاری قوانین کی روشنی میں برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر میاں
عبدالرشید کو تمام سرکاری مراعات ایک مہینے تک استعمال کرنے کا حق حاصل ہے
گزشتہ رات ہمیں اچانک پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے فون کیا اور بتایا
کہ آج 24فروری ہے اور پولیس کے کچھ لوگوں نے میرپور میں ان کے گھر پر رابطہ
کر کے سرکاری کار ان کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں ہم ان
کی مدد کریں اس پر ہم نے فوری طور پر انسپکٹر جنرل پولیس ،چیف سیکرٹری ،پی
ایس او ٹو پرائم منسٹر ،پرنسپل سیکرٹری ،سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت
بلتستان ،میڈیا کے انتہائی معزز دوستوں ڈاکٹر معید پیر زادہ ،حامد میر
،جاوید چوہدری ،نصرت جاوید ،مشتاق منہاس ،رحیم اﷲ یوسف زئی ،مظہر عباس اور
دیگر سے رابطہ کر کے انہیں اس عجیب و غریب ’’ کار ِ سرکارـ‘‘ برائے بازیابی
ء سرکاری کار کے معاملے سے آگاہ کیا ۔اس دوران ہم نے ایس ایس پی میرپور
راجہ عرفان سلیم سے بھی رابطہ کیا جو ایک انتہائی پروفیشنل اور دیانتدار
آفیسر ہیں اور ان چند سرکاری آفیسران میں شامل ہیں جن کا قومی میڈیا بشمول
راقم دل سے احترام کرتے ہیں ۔راجہ عرفان سلیم نے ہمیں بتایا کہ نئے تعینات
ہونے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال نے ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری
طارق کو تحریری درخواست دی ہے کہ برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر
میاں عبدالرشید سے سرکاری کار بازیاب کروا کر انہیں دلوائی جائے اور اسی
درخواست پر عمل کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ کاروائی
عمل میں لائی جائے اگر اس مرحلہ پر برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر
ڈاکٹر عبدالرشید میاں کے پاس کوئی عدالتی حکم موجود ہے تو وہ ہمیں دکھا دیں
ہم کاروائی روک دیں گے ہم نے راجہ عرفان سلیم کا شکریہ ادا کیا او ر ڈاکٹر
معید پیر زادہ سمیت میڈیا کے دیگر دوستوں کو اپ ڈیٹ دے دی ۔یہاں ہم صرف
اتنا سا اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ سرکاری قوانین ہی کی روشنی میں برطرف کیے
جانے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید 2مارچ تک یہ سرکاری کار
استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں اور عدالت کا کوئی حکم پیش کیے بغیر صر ف
سروس رولز ہی کو اپلائی کر لیا جائے تو نا پسندیدہ فعل سے بچا جا سکتا ہے
رہی بات اس لابی کی جو ’’ پوائنٹ آف نو ریٹرن ‘‘ پر وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید اور ان کی حکومت کو مختلف معاملات پر لا چکی ہے تو ہم دل سے
سمجھتے ہیں کہ یہ لابی ان نادان دوستوں پر مشتمل ہے جو وزیراعظم کا بیڑا
غرق کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے واقعی نادان دوست سے عقل مند دشمن
زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں
عبدالرشید کو بحال کرنے کے لیے وفاقی سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت بلتستان
شاہد اﷲ بیگ بھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے بات کر چکے ہیں
اور اس سلسلہ میں عدالت بھی جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائے گی لیکن اس طرح
کے کام کرکے در حقیقت پاکستان سے آنے والے تمام میڈیکل فیکلٹی ممبران کو
نادان دوست یہ نصیحت کروا رہے ہیں کہ آئندہ خود بھی آزادکشمیر میں آکر
سروسز نہ دیں اور کسی اور کو بھی یہ زحمت کرنے کا مشورہ نہ دیں۔یہ صورتحال
انتہائی خطرناک ہے ہماری درد مندانہ گزارش ہے کہ مقتدر قوتیں دل دکھانے
والی ایسی حرکتوں سے خود بھی باز رہیں اور دوسروں کو بھی منع کریں ۔گزشتہ
روز برطرف کیے جانے والے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید میاں نے ایک نجی
ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان
کو انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی درد دل کے ساتھ بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ
ڈینٹل کونسل آزاد کشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کو بلیک لسٹ کرنے کے لئے
کارروائی کا آغاز کر چکی ہے اور اگر ان کی غیر رسمی ،غیر قانونی برطرفی کا
فیصلہ واپس نہ ہوا اور حکومت آزاد کشمیر نے وفاق کے تعاون سے آزاد کشمیر کے
تینوں میڈیکل کالجز کے لئے فنڈز حاصل کر کے ان اداروں کو اپ گریڈ نہ کیا
اور میڈیکل فیکلٹی مکمل نہ کی تو آزاد کشمیر کے یہ تینوں میڈیکل کالجز
ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے میاں عبدالرشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو
تنخواہ مجھے آزاد حکومت دے رہی تھی گزشتہ دو سالوں سے سعودی عرب کی حکومت
اس سے چار گنا تنخواہ کی آفر انہیں دے رہی ہے لیکن وہ صرف ایک جذبے کے تحت
میرپور میڈیکل کالج کو چلا رہے تھے ان کو برطرف کرنے کے عجیب وغریب فیصلے
سے انہیں بہت دکھ ہوا ہے حکومت کو چاہیے کہ دانشمندی سے کام لے اور غلط
فیصلوں سے پرہیز کرے۔
قارئین آئیے اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے عنوان کی طرف ۔آپ نے زبان زدِ عام
محاورہ تو سن رکھا ہوگا ’’ ایک نیام دو تلواریں ‘‘ آج کل آزادکشمیر میں یہ
محاورہ کچھ تبدیلی کے ساتھ ’’دو نیام اور چار تلواریں ‘‘ میں بدل چکا ہے اس
وقت آزادکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو چیف سیکرٹری اور دو انسپکٹر جنرل
پولیس موجود ہیں اور پوری انتظامی مشینری پریشانی کے عالم میں مشرق اور
مغرب کی جانب دیکھ رہی ہے کہ کس کی بات مانی جائے اور کس کی بات نہ مانی
جائے کیونکہ کوئی بھی غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں یا حکم عدولی کی وجہ سے
کسی کی بھی پیٹی اتر سکتی ہے ۔ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر
چوہدری عبدالمجید کس کے اشارے یا بڑھاوے پر اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ
انہوں نے وفاق کے احکامات بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے اور چیف سیکرٹری
اور آئی جی کے متعلق وہ نادر خیالات میڈیا کے سامنے پیش کیے کہ میڈیا بھی
’’ توبہ توبہ ‘‘ کرنے پر مجبور ہو گیا ۔دوسری طرف وفاق کا رد عمل ابھی تک
انتہائی مدبرا نہ ،سنجیدہ اور برداشت پر مبنی دکھائی دے رہا ہے لیکن آخر کب
تک ۔۔۔؟یہ سوال پورے منظر نامے پر ایک تلوار بن کر لٹک رہاہے ماضی میں
وزرائے اعظم سردار عبدالقیوم خان اور ممتاز راٹھور نے بھی ان دونوں شخصیات
کے ساتھ پنجہ آزمائی کی تھی اور جواباً جو انجام ان کا ہوا وہ کسی سے بھی
مخفی نہیں ہے یہاں آزادکشمیر کی اپوزیشن مسلم لیگ ن آزادکشمیر کا موقف بھی
انتہائی مزے دار ہے اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان اور ڈپٹی اپوزیشن
لیڈر چوہدری طارق فاروق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچ الیکشن میں عبرت
ناک شکست کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ اور واویلا کرنے کے
اقدامات کو صرف اور صرف ’’سیاسی شہید‘‘ بننے کی ایک احمقانہ کوشش قرار دیا
ہے ان قائدین کا کہنا ہے کہ بلوچ الیکشن میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ہی کے تعینات کردہ پسندیدہ چیف الیکشن کمشنر
جسٹس چوہدری منیر حسین نے رینجرز کو طلب کیا چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل
اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان انتہائی دیانتدار، پروفیشنل اور
سنجیدہ آفیسرز ہیں اور انہوں نے اپنے فرائض منصبی پیشہ وارانہ انداز میں
انجام دیئے ہیں اور بلوچ الیکشن میں حکومتی منصوبہ بندی کے تحت دھاندلی اور
کرپشن کے کسی بھی منظر میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اس پر سیخ پا ہو کر
غیر قانونی طور پر ان دونوں افسران کو برطرف کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ
اختیار وفاقی حکومت کا ہے کہ وہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کے عہدے پر کس کو
تعینات کرتی ہے اس وقت وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سیاسی تنہائی کا شکار ہیں
اور شنید ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں آزاد کشمیر کے
سیاسی امور کی سربراہ محترمہ فریالتالپور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو
وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے فارغ کرنے کا اعلان کرنے والی ہیں سیاسی
ماہرین کے خیال میں آزاد کشمیر میں سیاسی اور انتظامی سطح پر انتشار پیدا
کر کے چوہدری عبدالمجید وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت بچانے کی آخری کوشش کر
رہے ہیں۔ بقول چاچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو؟
اک تماشہ ہوا گِلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں ؟
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گوریا میں بوریا نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
قارئین! سیاسی تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر اگلے تین دنوں کے
دوران موجودہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو وفاق تین آپشنز میں سے کسی ایک
پر کام کر سکتا ہے اور وہ آپشن کچھ یوں ہیں کہ پہلی صورت میں مسلم لیگ ن
آزاد کشمیر پیپلز پارٹی کے بیرسٹر سلطان گروپ کے ساتھ مل کر تحریک عدم
اعتماد کے ذریعے موجودہ حکومت ختم کر سکتی ہے دوسری صورت میں یہ ہو سکتا ہے
میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان ایک مرتبہ پھر کشادہ دلی کا ثبوت دیتے
ہوئے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے لئے مشکلات پیدا کر کے آزاد کشمیر حکومت کا
موقف تسلیم کرسکتے ہیں اور تیسری اور خطرناک ترین صورت یہ ہے کہ ایکٹ 1974
ء کے تحت حاصل شدہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے دفعہ 56 کے ذریعے آزاد کشمیر
حکومت کا بوریا بستر لپیٹا جا سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال اس لحاظ سے
انتہائی افسوسناک ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ سے مقبوضہ کشمیر میں
انتہائی غلط پیغام جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے سیاستدان اتنے خود غرض ہیں
کہ وہ اقتدار کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں دوسری جانب قوم پرست
جماعتیں چودھری عبدالمجید کو ’’ویلڈن‘‘ کا بڑھاوا دے رہی ہیں اور چیف
سیکرٹری و آئی جی پی کی فراغت کے فیصلے کو کشمیری قوم کے وقار اور غیرت سے
تعبیر کر رہی ہیں جناب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید صاحب ماضی میں انصارنامہ
کا مصنف جنید انصاری آپ کا سب سے بڑا ناقد رہا ہے لیکن جب سے آپ نے کشمیر
کو صوبہ بنانے کی تجویز کی کھل کر مخالفت کی ہے ہم آپ کے مداح بن چکے ہیں
اور ہم آپ کا بھلا چاہتے ہیں بلوچ انتخابات کے نتائج تسلیم کر لیجیے کیونکہ
نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بلوچ میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں پیپلز پارٹی ،
مسلم لیگ ن اور پولیس کی مختلف لڑائیوں میں بہت سے لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں
اور پیپلز پارٹی کا اٹھارہ سالہ نوجوان کارکن مزمل حسین جاں بحق بھی ہو چکا
ہے اقتدار کے لئے انسانی جانوں کو ایندھن مت بنائیں آپ انتہائی دانشمنداور
سنجیدہ سیاستدان ہیں خدارا عوام اور کشمیری قوم کے مفاد کو ترجیح دیجیے۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق حکومت آزاد کشمیر نے عارضی طورپر فیاض اخترچوہدری
کو چیف سیکرٹری اور فہیم عباسی کو آئی جی مقرر کیا ہے لیکن وفاق کی طرف سے
خضر حیات گوندل کو چیف سیکرٹری اور ملک خدا بخش اعوان کو آئی جی کے عہدوں
پر برقرار رکھا گیا ہے اور یہ دونوں شخصیات اپنے اپنے آفس کو چلا رہے ہیں
رات گئے حکومت آزاد کشمیر نے ایک اور بچگانہ قسم کا اقدام اٹھایااور پورے
آزاد کشمیر کی سرکاری مشینری کو یہ سرکلر جاری کیا کہ خضر حیات گوندل اور
ملک خدا بخش اعوان کے کسی بھی آرڈر پر عمل نہ کیا جائے صورتحال ہر گزرتے
لمحے کے ساتھ مزید بگڑ رہی ہے اﷲ کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
سردار جی ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے چلتے چلتے ٹیکسی رک گئی
سردار جی نے ڈرائیور سے پوچھا
’’کیا ہوا‘‘
ٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا
’’سردار جی پٹرول ختم ہو گیا ہے ٹیکسی آگے نہیں جا سکتی ‘‘
سردار جی نے بے نیازی سے کہا
’’کوئی بات نہیں تم گاڑی پیچھے لے چلو‘‘
قارئین! یوں دکھائی دے رہا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کی گاڑی کا پٹرول بھی
ختم ہو چکا ہے اب یہ گاڑی آگے نہیں جا سکتی شاید کچھ دیر بعد پیچھے جانے کی
مہلت بھی نہ ملے عجیب ترین بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا
سانحہ تین میڈیکل کالجز کی بندش کی صورت میں پیش آنے والا ہے اور حکومت اس
خطرے کو نمٹانے کی بجائے اپنے بدلے لے رہی ہے۔ بے شک نادان نصیحت پر عمل
نہیں کرتے۔ |