زندگی اپنے قیام وبقا کی جد وجہد اور کشاکش کا نام
ہے
خالق کائنات کی ساری زمین انسان کے لیے ایک میدانِ عمل ہے
دنیاکاکوئی بھی انسان ایسانہیں جوپریشانیوں میں مبتلانہ ہو۔تاریخ بتاتی ہے
کہ دنیاکے کامیاب ترین انسانوں کوبھی بڑے بڑے مصائب کا صحرا
عبورکرناپڑاہے۔واقعہ یہ ہے کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جوپریشانیوں کاجھیلنے
کاحوصلہ رکھتے ہیں۔یہ حقائق مدِنظررکھیں اوراپناجائزہ لیں تو اندازہ ہوگاکہ
ہم سے ہرکوئی اپنی اپنی پریشانیوں پرشکوہ سنج ہے اورانہیں اپنی کامیابیوں
کے راستے کی رکاوٹ تصورکیے بیٹھاہے ۔حالاں کہ یہ مشقتیں ہی ہیں جوانسان
کوکامیاب سے کامیاب تربنادیتی ہیں۔اسی لیے قرآنِ مقدس میں فرمایاگیا :بے
شک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتاپیداکیا(سورۂ بلد۔۴) کبد کا معنی ہے دکھ ،مشقت
یعنی ہر انسان کو ہم نے دُکھ میں پیدا کیا۔ حضرت ا بن عباس اور حضرت قتادہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہی قول مروی ہے۔ حضرت عطاء نے حضرت ابن عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف مندرجہ ذیل توضیح کی نسبت کی ہے کہ ہم نے انسان کو
مشقت میں پیدا کیا یعنی حالتِ حمل ،پھر ولادت، پھر شیر خوارگی کی انتہا،
پھر حصولِ معاش ،پھر حیات اور آخر میں مرنے کے دُکھ یعنی مشقت میں رکھا۔
حضرت عمر بن دینار نے کہا من جملہ دکھوں کے دانت نکلنے کا دکھ بھی ہے۔ یہ
دشواریاں تو انسان اور دوسرے جانوروں میں مشترک ہیں ،صرف انسان کی تخصیص اس
لیے کی گئی کہ انسان عقل وشعور رکھتا ہے ،کمالِ احسان کے ساتھ شدائد کو
برداشت کرنا بے شعوری کے ساتھ برداشت کرنے سے زیادہ دشوار ہے۔مذکورہ وضاحت
سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ روزِ اول سے ہی ہم دکھ اور تکلیف و شدائد میں
گرفتار ہیں۔ محنت ومشقت انسان کا خاصہ ہے۔ انسان محنت کرنے کے لیے پیدا
کیاگیا ہے کیوںکہ خالقِ کائنات کی ساری زمین انسان کے لیے ایک میدانِ عمل
ہے۔ زمینی خزانہ انسان ہی دریافت کرسکتا ہے اور اس کے لیے محنت ومشقت ضروری
ہے کیوںکہ جو کچھ زمین میں ہے وہ ہمارے لیے ہی پیدا کیاگیا ہے جیسا کہ
قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین
کی تمام چیزوں کوپیدافرمایا۔
یاد رکھیں کہ زندگی اپنے قیام وبقا کی جد وجہد اور کشاکش کا نام ہے۔ زندگی
کا انہماک ہر ذی روح کو محنت ومشقت کی دعوت دیتا ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے
ہیں جو زیادہ محنت کرتا ہے وہ اس کے نتائج اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ حالات بدلیں، ہم ترقی کریں، دارین میں سرخروئی حاصل کریں
لیکن اس کے لیے ہم کتنی جد وجہد کرتے ہیں ہمیں اس کے لیے اپنے اوقات کا
احتساب کرناچاہیے۔ہم ان قوموں کا جائزہ لیں جو اس وقت ہر چہار جانب کامیابی
کی بلندیوں کو چھورہی ہیں تو پتہ چلے گا کہ وہ ہم سے زیادہ محنتی ہیں اور
ہم ان سے کہیں زیادہ سست ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ ہم سے زیادہ آرام پسند کوئی
اورقوم نہیںہے ۔ہم محنت سے جی چراتے ہیں اور مشقت سے راہ ِفرار اختیار کرتے
ہیں توہم کامیابی سے اورکامیابی ہم سے دورہے ۔ہماری غفلت اور کاہلی کاعالم
یہ ہے کہ حالات کے سنورنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے؟ قرآن
ہمیں محنت ومشقت کی طرف ابھارتا ہے اور جد وجہد کی تعلیم دیتا ہے۔نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بھی ہم کو یہی درس دیتی ہے کہ ہم کوشش
کریں اور نتائج خدا کے حوالے کریں لیکن ہم بغیر محنت کے ساری کامیابی حاصل
کرنا چاہتے ہیں ۔ظاہرہے ایسی صورت میں تو کامیابی ہمیں چھوکربھی نہیں
گزرسکتی ۔ ہم چاق وچوبند ہوجائیں، حالات کو دیکھیں، اپنی قوم کے زوال کے
اسباب کامطالعہ کریں اورپھراسی کے مطابق منصوبہ بندی کریں اس کے بعد اللہ
پر بھروسہ کرکے نتائج اس کے سپردکردیں ۔آپ دیکھیں گے کہ ان شاء اللہ حالات
یکسرتبدیل ہوجائیں گے اورہمیں قلبی تسکین بھی حاصل ہوگی۔اللہ عزوجل ہم سب
کو آقائے کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے صدقہ وطفیل دارین کے لیے خوب خوب
تگ ودو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل
الصلوٰۃ والتسلیم۔ |