!ہم اور ہماری پہچان

ہر انسان کے ذہن میں اپنی ذات اور پہچان کے حوالے سے کچھ سوالات ہوتے ہیں۔ ہر قوم کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے۔ لیکن ہماری ثقافت، تہذیب اور زبان ایک سوالیہ نشان بن کے رہ گئی ہے۔ ہم دوسروں کو ترقی کرتے دیکھتے ہیں اور بولتے ہیں کہ دیکھو وہ لوگ کتنا آگے رہے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے آگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے، چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا لیکن آج وہ ایک بڑی طاقت بن کے ابھررہا ہے۔ اس نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مغرب کی اندھا دھند تقلید نہیں کررہا ۔ وہ اپنی تہذیب اور زبان کو ساتھ لے کر چلے تو آج اس قابل ہوئے، لیکن ہم ابھی تک انگریزی اور اردو میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں مغرب کی اندھا دھند تقلید کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پورے کے پورے ان کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ زبان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے۔ قومیں ہمیشہ اپنی تہذیب، زبان اور طور طریقوں سے پہچانی جاتیں ہیں۔ لیکن کیا ان میں سے کوئی بھی چیز اب ہم میں رہ گئی ہے؟ ہمارے طور طریقے تو پورے مغرب جیسے ہوگئے ہیں۔ زبان تو عجیب ہی ہوگئ ہے۔ ہم نہ اردو صحیح بول پاتے ہیں نہ انگریزی۔ عجیب دوہری شخصیت کا شکار ہیں۔ ہم اس بات میں ہی الجھے ہوئے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور آخر کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں اپنی چیزوں کی قدر ہی نہیں ہے۔ ہم جب اپنی چیزوں کی قدر نہیں کریئں گیئں تو دوسرے کیا کریں گیئں۔ کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا جہاں دو طرح کا تعلیمی نظام رائج ہو لیکن ہمارے ملک میں ایسا ہے۔ اور بچوں کو دوہری شخصیت بنانے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم ایک کنفیوژ قوم بنتے جارہے ہیں۔ والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھی انگریزی بولنا سیکھے اس کے لئے وہ ایک اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں میں مہنگی فیس دے کر اسے پڑھاتے ہیں۔ لیکن کیا وہ ایک اچھا انسان بن رہا ہے اس پر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ مسلمان بچہ ہونے کی وجہ سے چاہئے کہ اسے سلام کرنا سیکھائیں لیکن اسے کہا جاتا ہے کہ بیٹا shake hand کرو۔ جب تربیت ہی ایسے دوہری طرز پہ ہورہی ہوتو وہ آگے جا کر کیا کرپائے گا۔ اسے بنیادی باتیں ہی نہیں سیکھائیں جارہی ہیں، جو ہمارے مذیب اور تہذیب کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ آج کل کے بچے بہت بدتمیز ہوتے جارہے ہیں، موبائل فون اعر کمپیوٹر نے بچوں کو خراب کردیا ہے۔ تو انہیں اس کی عادت دلوانے میں کس کا ہاتھ ہے ظاہر ہے والدین کا، اب کوئی باہر والا آکر تو انہیں خراب نہیں کرے گا۔

میڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہے ہمارے معاشرے کو خراب کرنے اور ہماری تہذیب اور ثقافت کو تباہ کرنے میں، جس طرح کے ڈرامے اب بن رہے ہیں ان سے لگتا ہی نہیں کہ یہ ایک مسلمان ملک کے ڈرامے ہیں۔ ہمارے یہاں کے پہلے کے ڈراموں میں ایک حد میں رہ کر کام کیا جاتا تھا اور ان ڈراموں میں کوئی نہ کوئی اچھی بات ہوتی تھی۔ لیکن اب تو سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا ہے اور اوپر سے غیر ملکی ڈراموں نے باقی کی کثر پوری کردی ہے۔اتنی بےہودگی جس کی حد نہیں ہے۔یہ سب چیزیں مل کر جس طرح ہمارے معاشرے کو تباہ کررہے ہیں جس کا اندازاہ شاید ہی کسی کو ہو۔ اوپر سے فیشن انڈسٹری جس طرح ہماری ثقافت اور تہذہب کو نقصان پہنچا رہی ہے، اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے تو جیسے ملک کا امیج صیحیح کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ مغرب زدہ کپڑے پہن کر انہیں کو دیکھاتے ہوئے وہ یہ کہتے کہ اس سے ہمارے ملک کا امیج اچھا جارہا ہے۔ آخر کوئی پوچھے کہ اس طرح کیسے ہمارا امیج اچھا جارہا ہے، ہم اپنا رہن سہن طورطریقہ اور پہناوا دیکھانے کے بجائے، ان کو انہیں کا پہناوا دیکھا کہ کیسے اپنا امیج اچھا کررہے ہیں؟ اور کہتے ہیں کہ حکومت کو بھی ہمیں سپورٹ کرنا چاہئے۔ حکومت اتنی بےہودگی پر خاموش ہے اس سے زیادہ اور کیا سپورٹ کرے گی۔

ہم مغرب کے بہت شیدائی ہیں۔ وہ جو کریں گیں۔ ہمیں بھی وہی کرنا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر ان کی تقلید کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں وہاں کی آذادی بڑی پسند ہے، ہم وہاں کی آذادی کے گن گاتے نہیں تھکتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاں اخلاقی برائیاں کتنی ہیں، وہاں نہ رشتوں کا احترام ہے نہ قدر ۔ وہ بس اپنے لئے جیتے ہیں۔ نہ ماں باٖپ کا پروہ نہ بچوں کا احساس، کسی کی عزت نہیں کرتے وہ لوگ بس ہر چیز میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ جب کہ ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہمارا مذہب ہمیں والدین اور بزرگوں کی عزت کرنا اور بچوں سے شفقت سے پیش آنے کی تاکید کرتاہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ سب ہم میں سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ اولڈ ایج ہوم کا ہمارے یہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ گھر کے بڑے تو کسی سرمائے کی طرح ہوتے ہیں۔لیکن اب ہمارے یہاں بھی اولڈ ایج ہوم بن گئے ہیں۔ جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

یہ قدرتی آفتیں، بیماریاں ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ زلزلہ آئے تو سب استخفار کرنے لگتے ہیں اوراللہ یاد کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ ورنہ تو بس دنیا ہی یاد رہ جاتی ہے۔ تب کیا اللہ کیسا استغفار۔ بس یاد رہ جاتا ہے تو دنیا اور دنیا کے کام۔

آخر میں بس اتنا ہی کہ قومیں وہی زندہ رہتیں ہیں جو اپنے مذہب اور تہذیب کو ساتھ لے کر چلتیں ہیں، جو کہ ہر قوم کی پہچان ہوتی ہے، ورنہ قومیں بےنام و نشان ہی رہ جاتیں ہیں۔ لیکن ہمیں زندہ قوم بننا ہے۔
سیدہ سحر عارف
About the Author: سیدہ سحر عارف Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.