احسان اور اسلام کی معاشی اقدار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔

احسان کا مطلب ’’کسی کام کو خوبی کے ساتھ انجام دینا‘‘ہے۔احسان ’’حسن‘‘سے نکلاہے یعنی بہترین اوصاف حمیدہ کامرقع،احسان کے دیگر مطالب میں ’’حسن پیداکرنا،خوبصورت بنادینا،اچھابرتاؤکرنااورنیکی اور بھلائی کرنا‘‘بھی شامل ہیں۔اسلام لٹریچر میں ا س اصطلاح کو بہت کثرت سے استعمال کیاگیاہے۔کسی بھی معاملے کے تین درجات ہوتے ہیں،عدل،احسان اور ظلم۔عدل سے مراد حق اداکرناہے۔احسان سے مراد حق سے زائد اداکرناہے اور ظلم ان دونوں کے برعکس کسی کاحق مارناہے ۔مثلاََایک مالک اپنے مزدور کو اسکی مزدوری پسینہ خشک ہونے پہلے اداکردیتاہے تو اس نے عدل کیا،مزدوری سے کچھ زائداداکیاتو احسان کیااور مزدوری دیرسے اداکی یا طے شدہ رقم سے کم اداکی تو اس نے ظلم کیا۔احسان سے جہاں معاملات میں حسن پیدا ہوتا ہے وہاں معاشرے میں بھی انسانوں کے باہمی رویوں میں اعتماداور قربت کے جذبات پیداہوتے ہیں اوراستحصالی نظام کاقلع قمع ہوتاہے۔

احسان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ خود اﷲ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک نام ’’محسن‘‘بھی ہے۔عبادات اور معاملات میں احسان کو پسندکیاگیاہے۔ایک بار جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں تشریف لائے اور آپ ﷺ سے پوچھا کہ احسان کیاہے؟؟آپ ﷺ نے جواب دیا کہ عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم ازکم یہ تصور رکھنا کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے ،یہ عبادات کا احسان ہے۔معاملات میں احسان کے کئی احکامات و ترغیبات اسلامی لٹریچر میں موجود ہیں۔مقروض کو مہلت دینے کا حکم خود قرآن نے دیااور پھر بھی ادائگی نہ ہوسکنے کی صورت میں معافی کی ترغیب دی،غلام کے بارے میں بارے میں آپ ﷺ سے پوچھاگیا کہ اسے کتنی دفعہ معاف کیاجائے آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر وہ روزانہ ستر دفعہ بھی غلطی کرے تو اسے معاف کردیں۔طلاق دیتے ہوئے خاتون کو کچھ دے کر رخصت کرنے کا حکم دیا،تحفہ وصول کر کے تو اس سے بہتر تحفہ پیش کرنے کی تلقین کی ،رشتہ داربراسلوک کریں تب بھی ان سے بہترین سلوک کرنے کو پسند فرمایا وغیرہ۔اﷲ تعالی نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایاکہ:
’’اﷲ تعالی کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالواوراحسان کاطریقہ اختیارکرو بے شک اﷲ تعالی احسان کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘2سورۃ بقرہ،آیت195
’’اور احسان کرو جیسے اﷲ تعالی نے تم پر احسان کیاہے۔‘‘28سورۃ قصص،آیت77
’’اور والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ۔‘‘17سورہ بنی اسرائیل،آیت23
’’اور احسان کا بدلہ احسان کے سوااورکیاہوسکتاہے؟؟۔‘‘55سورۃ رحمن،آیت60
’’بے شک اﷲتعالی عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتاہے اوربدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتاہے،وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم سبق حاصل کرو ۔‘‘16سورۃ نحل،آیت90
’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں،خواہ تنگ دستی اور فاقہ مستی کے عالم میں ہی کیوں نہ ہوں ۔حقیقت یہ ہے کہ جولوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔59‘‘سورۃ حشر،آیت9
’’اوراﷲ تعالی کی محبت میں یتیم،مسکین اور گرفتارکو کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم محض اﷲتعالی کی خوشنودی کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں ،تم سے کسی بدلے اور شکریے کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘‘76سورۃ الدہر،آیت9
’’اورتم نرمی سے کام لو تو یہ تقوی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے ۔آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو،تمہارے اعمال کو اﷲ تعالی دیکھ رہاہے۔‘‘سورۃ بقرہ آیت237

معاشی نظام میں احسان کی اہمیت دوچندہوجاتی ہے کیونکہ یہاں شائلاکی فکر تیزی سے جگہ پانے لگتی ہے اور خود غرضی و حوس پرستی بہت جلد انسانی رویے میں عود کر آتی ہے۔عمراوردولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عمراوردولت کی حوس میں بھی اضافہ ہوتا ہے ،چنانچہ اپنی جیب سے دوسرے پر مال خرچ کرنااور اس سے کوئی مالی مفاد بھی حاصل نہ کرنا بہت مشکل ہے اسی لیے اﷲ تعالی نے اس عمل کی سب سے زیادہ ترغیب دی ہے اوراس کا سب سے زیادہ اجر بھی رکھاہے۔مقروض کو مہلت دینے کا ذکر ہوچکا ا یک روایت کے مطابق صدقہ کا جہاں ایک گنا اجر ہے وہاں قرض کا اٹھارہ گنااجر ملے گا۔کھانا کھلانے کو بہت پسندیدہ عمل قراردیاگیاہے اور قرآن نے فرمایا کہ وہ لوگ اﷲ تعالی کی محبت میں مسکین،یتیم اور گرفتارکو کھانا کھلاتے ہیں۔پڑوسی کے بھوکا سوجانے پر ایمان خطرے میں پڑ جاتاہے۔معاملات کے اندر احسان میں بہت بڑا حصہ معاش کا ہے،زکوۃ ،عشر،صدقات اور کفارے سب کے سب معاشی احسانات کی قسمیں ہیں جس میں متمول طبقہ اپنی جیب میں سے ایک خاص مقدار بغیر کسی مطلب و لالچ کے غربامیں تقسیم کردیتاہے ۔غریب کو قرض دینا اور سود کا تقاضا نہ کرنا،ضرورت مند کو اپنے مکان کا ایک حصہ دینااور اس سے کرایہ طلب نہ کرنا،مریض کو دوائی دینالیکن اس سے کو ئی معاوضہ نہ چاہنا،مسافرکواپنی سواری پہ بٹھاکر منزل تک پہچانا اور اس سے شکریہ تک کاطلب گار نہ ہونا اوردائیں ہاتھ سے اس طرح دینا کہ بائیں کو خبر بھی نہ ہوسب کے سب معاشی احسنات کے قبیل سے ہیں،جس معاشرے کے معاشی نظام میں احسان کا رویہ داخل ہوجائے اصل میں وہی معاشرہ ہی فوزوفلاح کا مرکزہوگااور ظلم و استحصال وہاں سے رخت سفرباندھ کر رخصت ہوجائے گا۔

جنوبی ایشائی معاشروں میں ایک بہت اچھی رسم ہے کہ غمی خوشی کے مواقع پر سب اہل خاندان مل کر میزبان کے ہاتھ گرم کرتے ہیں،سب افراد پر تھوڑا تھوڑا بوجھ اٹھتاہے جبکہ میزبان کو اپنے اخراجات کی ادائگی میں یہ معاونت قطرہ قطرہ سے دریاکی مانند ہو جاتی ہے۔یہ رسم اسلام کے بنیادی اصولوں سے بالکل بھی نہیں ٹکراتی اور شریعت اسلامیہ کے ضمنی ماخذ’’استصحا ب‘‘ کے ذیل میں بخوبی لائی جاسکتی ہے۔لیکن کسی کی غمی خوشی کے مواقع پر اسکی مددکرنااور پھر اﷲ تعالی سے اسکا بدلہ چاہنے کی بجائے اسی فرد سے چاہنا کہ اب میری غمی خوشی میں بھی وہ مجھ سے بڑھ کر میری مدد کرے گا اسلام کے اصول احسان کے خلاف ہے۔اگر کوئی ہماری غمی خوشی میں ہمیں ادابھی کرے گا تو اتنا ہی یا اس سے کچھ زیادہ،تو کیایہ بہتر نہیں ہے کہ احسان کی نیت سے ادائگی کی جائے اور بدلے کی توقع اس ذات سے رکھی جائے جس نے ستر سے سات سو گنا تک کا وعدہ کیاہے؟؟اور اس سے زیادہ کون اپنا وعدہ پوراکرنے والا ہے۔اور پھر یہ وعدہ تو اس دنیاکے لیے ہے آخرت میں اسکا جو اجر ملے گا وہ تو کسی کے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔احسان کا معاشی تقاضا ہے کہ سب سے بڑھ کر قریب ترین رشتے دارہماری مالی معاونت کے حق دار ہیں جن کے بارے میں روز محشر ہم سے سوال بھی ہوگا۔والدین ،سگے بہن بھائی،والد اور والدہ کے بہن بھائی اورپھرانکی اولادیں،ان میں سے اگر کوئی بہت غریب ہے اور بیماری ومعذوری نے اس کے گھرمیں ڈیرے ڈال رکھے ہیں یا کسی گھر میں یتیم بستے ہیں تو پھر تو ان پر احسان کرنا کئی گنازیادہ فضیلت کا باعث ہونے ساتھ ساتھ اتناہی ضروری بھی ہے۔اورخاص طور پر رشتہ داروں پر تواسطرح مالی احسان کیاجائے کہ دائیں ہاتھ سے کریں توبائیں کو خبر بھی نہ ہو۔رشتہ داروں کے بعد پڑوسیوں اور پھر دیگر تعلق داروں کے ساتھ حسن سلوک کے بعدجانورں،پرندوں اور پودوں کے ساتھ بھی حسن سلوک بھی اسلامی تعلیمات کا تقاضاہے۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 527095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.