”زمانہ بڑا خراب آ گیا ہے ، ہر
طرف خون خرابہ اور قتل و غارت گری، ایک نفسا نفسی کا عالم ہے، کوئی پیسے
بنانے کی دوڑ میں لگا ہے تو کوئی شہرت کمانے کے چکر میں اخلاقیات بھولا ہوا
ہے، سب قیامت کی نشانیاں ہیں … ایک ہمارا زمانہ تھا، کسی کی جرات نہیں تھی
کوئی پرائی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے اور آج کل کی نسل…توبہ
توبہ…انٹرنیٹ اور موبائل فون نے تو اس کا اخلاقی دیوالیہ ہی نکال دیا ہے،
جسے دیکھو چیٹنگ اور میسجنگ میں لگا ہے، پڑھائی کی کوئی فکر ہی نہیں، ہمارے
زمانے کا میٹرک پاس آج کل کے ایم۔اے سے زیادہ عالم فاضل تصور کیا جاتا تھا
جبکہ آج کل کے پی۔ایچ۔ڈی۔ بھی انگریزی میں ایک درخواست نہیں لکھ سکتے۔ میں
تو یہ سب کچھ دیکھ کر سوچتا ہوں کہ آخر قیامت کے آنے میں اب کیا دیر ہے؟ “
آپ نے اس قسم کی فکر انگیز گفتگو اکثر اپنے بزرگوں سے سنی ہوگی (اور اگر آپ
خود ہی اس وقت کوئی بزرگ ہیں تو پھر آپ نے اپنے بزرگوں سے یہ باتیں اس وقت
سنی ہوں گی جب آپ جوان تھے)۔ بظاہر اس قسم کی باتوں میں بہت وزن محسوس ہوتا
ہے کیونکہ ان میں سے کچھ باتیں کسی حد تک درست ہوتی ہیں تاہم اگر غور کیا
جائے تو پتہ چلے گا کہ اپنے زمانے کے بارے میں بزرگ ہمیشہ اسی طرح کی سوچ
رکھتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ اس کیفیت کو ”ناسٹلجیا“ کا نام دیتے ہیں۔ اس
کیفیت کے مارے لوگوں کو اپنا زمانہ اس بادشاہ کے دور کی مانند لگتا ہے جس
کا ذکر ایسے قصے کہانیوں میں ملتا ہے جن میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر
پانی پیتے ہیں، بادشاہ بھیس بدل کر راتوں کو گشت کرتا ہے، رشوت ستانی، قتل
و غارت گری، فحاشی، اخلاقی گراوٹ کا تصور تک نہیں ہوتا اور کوئی بھی فریادی
رات کے کسی بھی پہر بادشاہ کے محل کی گھنٹی بجا کر انصاف طلب کر سکتا ہے،
وغیرہ وغیرہ۔ ان بزرگوں کے وقت میں (ان کے دعویٰ کے مطابق) نہایت ذہین فطین
لوگ پیدا ہوئے، ان کا دور طمع اور حرص کے مارے ہوئے لوگوں سے پاک تھا، ان
کے زمانے میں پرائی بہو بیٹیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بے حد معیوب
سمجھا جاتا تھا، مزید وغیرہ وغیرہ۔
مجھے ذاتی طور پر ایسی منطق سے خصوصی چڑ ہے کیونکہ اگر پچھلے زمانے اتنے ہی
آئیڈیل ہوتے تو چار سو سال قبل مسیح میں افلاطون کو زہر کا پیالہ نہ پینا
پڑتا، اگر جنگ و جدل صرف آج کے دور کا ہی خاصہ ہوتا تو تاریخ میں ہلاکو خان،
چنگیز خان، نادر شاہ درانی (جس نے دلی میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کروایا)
اور ہٹلر جیسے لوگوں کا کوئی ذکر نہ ہوتا اور راوی صرف چین ہی چین لکھتا،
اسی طرح رحم دل سے رحم دل حاکم وقت کو بھی اگر کوئی سوتے میں جگاتا تو وہ
انصاف کے تقاضے پورے کر کے اس فریادی کا سر قلم کروا دیتا اور جہاں تک اس
بات کا تعلق ہے کہ گئے وقتوں میں اخلاقی گراوٹ اس قدر عام نہیں تھی تو غالب
کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے :
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہمیں کر بیٹھے تھے، غالب! پیش دستی ایک دن
تقریباً سو سال سے زائد عرصہ قبل کہے گئے اس شعر میں اسد اللہ خاں غالب
صاحب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ ان کی محبوبہ قطعاً مار پیٹ کی قائل نہیں
لیکن شاعر کا ارادہ غالباً زبردستی کچھ کرنے کا تھا اس لئے مجبورا ً اس
عفیفہ کو ”سیلف ڈیفنس“ کی خاطر چند ہاتھ جھاڑنے پڑے۔
ہماری پرانی نسل کو اس بات پر بھی بے حد ناز ہے کہ ان کے زمانے میں ایڈز،
ہیپا ٹائٹس، بلڈ پریشر، شوگر اور دل کی بیماریاں نہیں ہوتی تھیں، لوگ علی
الصبح بیدار ہوتے اور سر شام ہی سو جاتے جس کی وجہ سے ان کی صحت قابل رشک
رہتی۔ جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں صرف اتنا عرض ہے کہ ان
وقتوں میں لوگ اس سے بھی کہیں کم موذی امراض کا شکار ہو کر فوت ہو جاتے
کیونکہ وہ بیماریاں لا علاج ہوتیں۔ اس کے علاوہ یقیناً لوگ ایڈز وغیرہ کا
شکار بھی ہوتے ہوں گے لیکن اپنی لا علمی کی بنا پر اسے کسی جن کا سایہ سمجھ
کر مر جاتے ہوں گے۔ رہ گئی بات سویرے تڑکے اٹھ کر عشاء کے وقت سونے کی تو
اس زمانے میں وقت گزارنے کے لئے کوئی سرگرمی ہی نہیں ہوتی تھی اس لئے جلدی
سونا ہی سب سے بڑی تفریح ٹھہری۔ بہت ہوا تو شہر یا گاؤں میں کسی میلے یا
عرس پر چلے گئے اور ”کتلمے“ کھا کر واپس آ گئے۔ مجھے تو ایسے کسی زمانے کا
تصور کر کے ہی وحشت ہوتی ہے جس میں پہلوانی اور کبڈی کو کھیل سمجھا جائے
اور ”مرونڈوں“ کو غذا !!! اور اگر آپ اب تک وحشت زدہ نہیں ہوئے تو اس زمانے
کے عشق کے بارے میں سوچیں کیونکہ وہ بھی اپنی نوعیت کی ایک بے تکی چیز تھی۔
کوئی صاحب کسی بی بی کے شٹل کاک برقعے کی مینا کاری پر یہ سوچ کر فدا ہو
جاتے کہ جس کی ”پیکنگ“ اس قدر خوبصورت ہے وہ خود بھی قیامت ہی ہوگی اور
کوئی محترم کسی خاتون کے محض بالوں کی لٹ پر پورا دیوان لکھ مارتے۔
بزرگوں کے نزدیک اس زمانے کی ایک اور قابل فخر بات یہ ہے کہ تب لوگ ایک
دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے، بجا ارشاد، مگر ذرا اس بے چارے کے
بارے میں بھی سوچئے جس کے گھر میں شادی بیاہ یا مرگ ہو جائے اور پھر پورا
خاندان کئی ہفتوں کے لئے اس کے گھر میں کسی طوفان کی مانند امڈ آئے۔ اور
پھر بات یہاں ختم نہیں ہوا کرتی تھی …بڑ ے ماما جی اس بات پر خفا ہو جاتے
کہ دیگوں پر تایا جی کو کیوں بٹھایا گیا اور چاچا جی کا منہ اس بات پر بن
جاتا کہ انہیں کسی نے ٹھیک سے روٹی نہیں پوچھی۔ آج کل یہ مسائل نہیں ہوتے
کیونکہ کسی کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں کہ وہ ہفتوں کسی کے گھر جا کر ڈیرے
جما لے اور ویسے بھی اب شادی سے لے کر مرگ تک، ہر چیز ”آؤٹ سورس“ کر دی
جاتی ہے …نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!!!
اوپر بیان کی گئی باتوں سے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسی گفتگو جو اس فقرے
سے شروع ہو کہ ” ایک زمانہ تھا جب یوں ہوا کرتا تھا یا ہمارے زمانے میں
ایسا نہیں ہوا کرتا تھا…“ سے متاثر ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ایسی باتیں
عموما ً بزرگ کرتے ہیں اور بزرگوں سے اختلاف کرنا کوئی آسان کام نہیں
کیونکہ ان سے اختلاف کرنے کے دو ہی ممکنہ نتائج نکل سکتے ہیں، یا تو وہ
قائل ہو جائیں گے یا پھر آپ قائل ہو جائیں گے۔ بزرگوں کے قائل ہونے کا تو
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر آپ قائل ہو گئے تو پھر لوگ آپ کو بھی کوئی
بزرگ ہی سمجھیں گے جو کہ یقیناً کوئی صحت مندانہ علامت نہیں۔ لہٰذا بہتر
یہی ہے کہ آج کل کے دور کی آزادی، انٹر نیٹ، ٹی وی کے 100چینلز، اخلاقیات،
موبائل فون، آئی پوڈ، روایات، ڈی وی ڈی پلئیر اور معاشرت سے خود کو ہم آہنگ
کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ آپ اسی بات پر کڑھتے رہیں گے کہ کالج کے زمانے
میں آپ کو صرف ایک آنہ جیب خرچ ملا کرتا تھا جبکہ اب آپ کا بیٹا پچاس روپے
لے کر بھی خوش نہیں!!! |