ہمارے کالج کے زمانے کے ایک
پروفیسر ہوا کرتے تھے، جن کے پاس حکومت کے ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا۔ ان کی
گفتگو کے اکثر جملے یوں شروع ہوا کرتے تھے کہ ” اگر مجھے وزیر اعظم بنا دیا
جائے تو ایک ہفتے کے اندر اندر تمام مسائل حل کردوں گا۔ “ آج مجھے ان کی
یاد اس لیے آئی کیوں کہ پچھلے چند سال سے جب سے نیوز چینلز کی وبا پھیلی ہے،
ہمارے ملک میں خود کو وزیراعظم کے عہدے کا اہل سمجھنے والوں کی تعداد میں
نہایت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ راجو بلیکی سے لے کر مسٹر ٹی۔ سی۔ ترمذی تک
اور سیٹھ چینی والا سے لے کر اس اینکر پرسن تک جس کا پروگرام اس کی گھر
والی بھی نہیں دیکھتی، ہر شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر حکومت اس کے پاس ہوتی
تو پاکستان ایک سپر پاور ہوتا، امریکا اور بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے،
ملک میں دودھ کی نہریں بہتیں (نہ جانے اس کا کیا فائدہ ہوتا؟)، شیر اور
بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے، لوگ بازاروں سے سونا اچھالتے ہوئے گزر جاتے
اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔
ان دعوؤں کے ضمن میں جن پروفیسر صاحب کا میں نے ذکر کیا ہے، ان کی باتیں بے
حد دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔ وہ کالج کے چند لڑکوں کو اس طریقے سے اپنے ارد گرد
بٹھا لیتے جیسے وہ ارسطو ہوں اور باقی سب ان کے شاگرد۔ اس کے بعد وہ سگریٹ
سلگا کر یوں ا سٹارٹ لیتے جیسے حقیقتاً وہ اگلے ہفتے وزیراعظم کے عہدے کا
حلف اٹھانے والے ہوں۔ ان کی گفتگو کچھ اس قسم کی ہوتی کہ” اگر مجھے وزیر
اعظم بنا دیا جائے تو میں ملک میں پٹرول اور بجلی مفت کردوں گا… غربت ختم
کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے دس کھرب کے نوٹ چھپوا کر غریبوں میں بانٹ دوں گا…
ایسا قانون بناؤں گا جس کے تحت دو سے زیادہ بچّے پیدا کرنے والے والدین سے”
اضافی “بچے لے کر ان کو دے دیے جائیں گے، جن کی کوئی اولاد نہیں اور اس کے
بعد اگر ” نئے والدین “کی کوئی اولاد ہوگئی تو پھر بھی وہ بچے ” اوریجنل “
والدین کو واپس کرنے کے بجائے کسی ایسے جوڑے کو دے دیے جائیں گے جو بے
اولاد ہو ( اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا )…پاگلوں سے پاگل خانے بھرے
پڑے ہیں، جہاں حکومت کے کروڑوں روپے بلاوجہ خرچ ہوتے ہیں، اس لیے تمام
پاگلوں کو رہا کر کے ان پاگل خانوں کی زمین قابل اور مستحق پروفیسروں میں
بانٹ دوں گا ( اشارہ اپنی طرف ہوتا ) … ہر چیز کی قیمت آج سے دس سال پہلے
کی قیمت کے برابر فکس کر کے، خلاف ورزی کرنے والے کو سنگسار کروا دوں گا…“
وغیرہ وغیرہ ۔اس ولولہ انگیز گفتگو کے دوران اگر کوئی شر پسند شاگرد اس قسم
کا سوال کر بیٹھتا کہ دس کھرب کے نوٹ چھاپنے سے غربت ختم نہیں ہوگی بلکہ
الٹا افراط زر میں اضافہ ہوجائے گا تو اس کی طرف نہایت حقارت سے دیکھتے
ہوئے مسکراتے اور کہتے ”برخوردار! یہ بال میں نے خضاب سے کالے نہیں کیے،
بھلا یہ تو بتاؤ کہ امریکا دھڑا دھڑ ڈالر چھاپتا ہے، مگر اس کے بارے میں
کبھی نہیں کہا جاتا کہ اس سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، کیوں؟“ اس جوابی
سوال کے جواب میں سوالی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا، جب کہ پروفیسر صاحب کے
چہرے پر چھائی ہوئی حقارت مزید نکھر جاتی۔ اسی طرح اگر کوئی بے چارہ یہ
پوچھ لیتا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ والدین اپنے دو سے زیادہ بچے کسی اور کو
دے دیں گے؟ تو جواباً پروفیسر صاحب کے چہرے پر حقارت کی جگہ تمسخرانہ
مسکراہٹ آجاتی اور وہ فرماتے ”بیٹا! جب ملک کا وزیراعظم ( انگشتِ شہادت سے
اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اپنے زائد بچے ”سرینڈر“ کردے گا تو پھر
کسی کی کیا مجال کہ وہ اس قانون پر عمل نہ کرے!“ ظاہر ہے کہ اس منطقی دلیل
کے بعد مزید بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ویسے بھی پروفیسر صاحب کے
بارے میں مشہور تھا کہ ان کا تیسرا بیٹا خاصا ناخلف ہے اور باپ کو بالکل
چغد سمجھتا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
مجھے پروفیسر صاحب کی براہ راست شاگردی کا شرف تو حاصل نہیں ہوا، البتہ ایک
دو مرتبہ اس قسم کی نشستوں میں بیٹھنے کا موقع ضرور ملا ہے، اور شاید اسی
لیے کالج کے زمانے میں پروفیسر سے میری اس طرح سے شناسائی نہیں ہوئی، جیسی
ان کی اپنے شاگردوں کے ساتھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت عرصے بعد جب پچھلے دنوں
ان کے ایک شاگرد نے میرا تعارف کروایا تو میں نے انہیں فوراً پہچان لیا،
لیکن مجھے ان کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک نظر نہیں آئی، تاہم تعارف
کروانے کا ایک اثر یہ ہوا کہ پروفیسر صاحب مجھ سے کچھ کچھ مرعوب نظر آنے
لگے۔ میں نے اس شاگرد کو سائیڈ پر لے جا کر اس بلاوجہ مرعوبیت کی وجہ پوچھی
تو اس نے لجاجت سے بتایا کہ پروفیسر نے اسے کسی پیر سے ملوانے کے لیے کہا
تھا سو وہ انہیں میرے آستانے پر لے آیا۔ یہ سن کر فرط جذبات سے میرا دل بھر
آیا اور میں نے فوراً جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اس شاگرد کے سر سے ”وار “
کر واپس اپنی جیب میں ڈال لیا، کیوں کہ اس وقت اس نوٹ کا بہترین حق دار میں
ہی تھا۔ کچھ دیر بعد وہ شاگرد تو وہاں سے رفو چکر ہوگیا اور پروفیسر صاحب
صوفے پر آلتی پالتی مار کر یوں بیٹھ گئے جیسے اب قیامت کے روز ہی اٹھیں گے۔
میں سمجھا کہ پروفیسر صاحب ” اگر مجھے وزیر اعظم بنادیا جائے … “ والا
اسٹارٹ لینے لگے ہیں، لیکن خلاف توقع انہوں نے یہ بات کرنے کے بجائے مجھے
اپنے پاس بلایا اور کان میں کہنے لگے ” میں آپ کے پاس بڑی امیدیں لے کر آیا
ہوں، کوئی ایسا عمل کریں کہ میری دوسری بیوی گھر واپس آجائے! “ میں نے
پروفیسر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کی بیوی میرے نہیں بلکہ ان کے اپنے
عمل کے ذریعے واپس آئے گی، لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے
کہا ” خدا کے لیے انکار مت کرنا، میں بڑی آس لے کر آیا ہوں۔ “اب تک کی
گفتگو سے مجھ پر یہ بات تو آشکار ہوچکی تھی کہ ”پیرزادہ“ ہونے کے ناتے
پروفیسر صاحب مجھے کوئی سیکنڈ ہینڈ قسم کا ولی اللہ سمجھ رہے تھے اور ان کا
وہ شاگرد بڑی چالاکی سے اپنا پیچھا چھڑوا کر انہیں میرے حوالے کر گیا تھا۔
پروفیسر کی ”عقیدت“ کو دیکھتے ہوئے میں نے مزید بحث نہیں کی اور انہیں یہ
نسخہ بتایا کہ دونوں ٹانگیں پھیلا کر زمین پر بیٹھ جائیں اور 3797 سے طاق
اعداد میں الٹی گنتی شروع کریں، ہر سات عدد بعد بلند آ واز میں کہنا ہے” یا
اللہ! میری دوسری بیوی واپس آجائے “ اور یہ عمل سات دن تک روزانہ تین مرتبہ
کرنا ہے۔ سات دن بعد پروفیسر صاحب تو تشریف نہیں لائے لیکن اڑتی اڑتی ایک
خبر ملی کہ ان کی پہلی بیوی نے طلاق مانگ لی ہے۔ اس خبر کو سننے کے بعد میں
با لآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کی سولہ کروڑ آبادی میں سے پچاس فی صد
ایسے ضرور ہیں جو پوری سنجیدگی کے ساتھ خود کو وزیر اعظم کے عہدے کا اہل
سمجھتے ہیں، لیکن اگر ان کو ٹھونک بجا کر دیکھا جائے تو ان کا کوئی نہ کوئی
کُل پرزہ ڈھیلا ہی نظر آئے گا… چاہے ان میں سے کوئی پروفیسر ہو، اینکر پرسن،
سڑک چھاپ یا پھر سرکاری افسر! |