آخر کیوں اُمت مسلمہ ذلت و رسوای کے غار میں ؟

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی اُسی کو آج ترستے ہیں ممبر و محراب(اقبالؒ)

آخر کیوں اُمت مسلمہ ذلت و رسوای کے غار میں ؟ کیا دعایٔں بھی قبول نہیں ہو رہی ہے؟

مسلمان اپنی اشیاء خورد نوش کو پرکھا کریں ،کہیں حرام یا مشتبہ چیزیں تو نہیں کھارہے ہیں؟

آج اُمتِ مسلمہ ایک ایسے دور سے گزر رہی ہیں جسے ہم ذلّت ورخواری یا آزمایٔش کا نام دے کر خاموش نہیں رہ سکتے ،بلکہ اسکے وجوہات کو بھی ڈھونڈنکالنا ہوگا ،بظاہر تو اور اس کے کیٔ وجوہات ہیں ، مثلا ِفسق فجور یا کھلی ہویٔ نافرمانی یا اﷲ رب العزّت کی حکم عدولی ،مگر ان سب کی تلافی سچی توبہ سے ممکن ہے، لیکن توبہ کی قبولیت یا دعا کی مقبولیت کے لیٔے پہلی شرط اول حلال ہے اور ہاں یہی اصل وجہ ہے یعنی حلال غذا کا مسلمان کے پیٹ میں نہ داخل ہونے کے سبب دعایٔں قبول ہوتی ہویٔ نظر آرہی ہے،اب مسلمانوں کی اکثریت صرف فتوؤں پر عمل کرنے کو اکتفا کررہی ہے،اس طرح تقویٰ سے دور مسلمانوں سے ظہور میں آنے والے سارے اعمال اسلامی تو ہیں مگر روح اسلام سے خالی ہو چکے ہیں، نتیجتاًیہ اعمال ربّ کریم کے یہاں قبول نہیں ہو رہے یعنی رد ہو رہے ہیں یا رکے ہوے ٔ ہیں، اسی لیٔے تومذہبِ اسلام نے اس کے ماننے والوں کو انتا علم حاصل کرنا ضروری یا فرض قرار دیا کہ وہ حرام وحلال کی پہچان کرسکیں، تانکہ ان سے نکلنے والے سارے اعمال اﷲ کی بارگاہ میں پسند یا مقبول بھی ہوں، آج بظاہر تو اعمال کی کمی نہیں ہے، نمازیوں و روزداروں اورحج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد اب پہلے سے کیٔ گنا ذیادہ ہے،اور دعا یاخصوصی دعاؤوں کا اہتمام بھی ہے ،مثلا مکہ و مدینہ(حرمین )،حج کے موقعوں پر ،اجتماعات، رمضان،قیام اللیل ووغیرہ میں ،مگر کیا کہیں اُمتِ مسلمہ کا حال بدلتا ہوا نظر آرہا ہے؟ یا مسلمانوں پر ہونے والی ظلم و ذیادتی کے طوفان تھمتا یا رکتاہوا نظر آ تا ہے؟ جبکہ اﷲ حی القیوم ،رسول برحق ،قراٰن باقی ،زمین و آسمان وہی، ستاروں کی گردش سب کچھ اپنی جگہ پر پھر کیا بدلا ہے؟ تو پھرکیوں قوم ِمسلم کا حال درست نہیں ہو رہا ؟ مسلمان سوچیں ہم میں ضرور کوتاہیاں یا غلطیاں ہو رہی ہیں،آخر کیوں اور کیسے ہمارے اسلاف عزت و اکرام کے اعلیٰ مناروں تک پہنچ گے ٔ تھے ہم انتہای ذلّت و رسوای کے غار میں آخر کیوں؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف تقویٰ کی شاہراوں پر گامزن تھے اور ہم تقو ی ٰ تو کیا، فتویٰ کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ،بلکہ اپنی مرضی کی راہ پر چل پڑے ہیں، ہمارے اسلاف اپنے کھانے پینے میں اس قدر احتیاط برتے تھے اگر غلطی سے بھی لقمۂ حرام تودور کی بات مشتبہ شۓ بھی پیٹ میں داخل ہو جاتی تو اسے اپنے حلق سے نکلانے کیلیٔے اپنی جان پر کھیلنے کو تیار تھے اور کویٔ بلا اجازت سے سیب کھا لینے کے عوض بارہ سال غلامی کرنے تیار ہوجاتا ہے،حالانکہ اس سیب کو انہوں کسی باغ سے چن کر نہیں کھایا تھا بلکہ اسے وہ پانی میں تیرتا ہوا پایا تھا،لیکن کیا کہنا ان کے زہدو تقوٰیٰ کا؟ کویٔ فاقہ پر فاقہ اور گھر پر چولہانہیں جلتا مگر پڑا ہوا دھرم لے کر مسٔلہ پوچھنے دربار رسالتﷺ میں پہنچ جاتے ہیں، اورکویٔ غربت و افلاس اور کیٔ دن تک بھوکا رہنے کے باوجود پڑا ہوا موتیوں کا ہار امانت رکھ کر واپس لوٹانے کی نیت سے گزرے ہوے قافلہ کو دھنڈنے نکل جاتا ہے، لیکن افسوس آج ہمارا حال تو اس سے بالکل برعکس ہے، تجارت معاملات ؟ اور پھر کھانے پینے کا تو پوچھنا ہی کیا ؟ اور اگر تجارت معاملات صیح بھی ہوں تو اشیاے خوردنوش کی خریدی کے وقت یا تو دھوکہ کھا جاتے ہیں یا لا پرواہ ہو جاتے ہیں اور اپنی حلال کمایٔ سے ہی اپنی غفلت یابے علمی سے ایسی چیزیں لیتے ہیں جو یا تو حرام ہوتی ہیں یا مشتبہ ، جسے خرید کر اچھے اچھے موقوں پر استعمال میں لایا جاتا ہے ، جسے خاص وعام استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں -

آج عام طور پر خصوصا ًجزیرۃ العرب میں ایسی چیزوں کی بھر مار ہے جو یا تو یوروپ میں بنی ہوی ہوتی ہیں یا وہاں کے ہی تیار کردہ اجزاء سے بنتے ہیں،جن میں اکثر سنور کی چربی کی ملی ہوتی ہیں یا غیر حلال جانور کے اجزاء ، یا گوشت جوغیر اسلامی طریقہ کا ذبیح یا بالکل ہی حرام جانور کا گوشت ہوتاہے،ور کیٔ طرح کے مشروبات و کریم و ایٔس کریم توتھ پیسٹ ، بسکٹ اور روز مرہ کی استعمال میں آنے والی کیٔ طرح کے ا شیاء ہیں۔جو غلط طریقہ کار سے یا ملاوٹ سے حرام کے درجہ تک پہنچ چکی ہوتی ہیں، اور یہ بات کیٔ طریقوں سے ثابت ہو چکی ہے، جو دشمنانِ اسلام کی سوچھی سمجھی سازش کے تحت ہے، اور ان کا مقصد صرف مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال کر مسلمانوں کا رشتہ ربّ کایٔنات سے کاٹنا یا کمزور کرنا ہے ، اور انہیں بے حیایٔ یا برایٔ یانافرمانی پر لگانا ہے-

مگر افسوس مسلمان بے خبر اور کچھ جانتے ہوے بھی بے پرواہ ہیں اور تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ،ظاہر سی بات ہے جب مسلمان ایسی چیزیں کھا پی لے گا تو کیوں کر دعایٔں قبول ہوگی؟ اور کیسے اپنی عبادات یا اعمال سے اﷲ کو راضی کر سکے گا؟ کیا اﷲ ربّ العالمین تمام اعمال و دعا کو کو رد نہں کریگا ؟کیا حدیث ِ پاک میں اس کی سراہت یا تنبہ نہیں کی گیٔ ہے؟ اور کیا قران الکریم میں حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے؟ اور کیاقراٰن وہ احادیث میں ہمیں تحقیق کرنے کی تعلیم نہیں دی گیٔ تھی ؟ کیوں نہیں سب کچھ ہے مگر ہم مسلمان بے عمل یا قران و احادیث کی تعلیمات سے دور لا پرواہ ،نفس پرست ہو کر خدایٔ عذاب کو مول لے رہے ہیں ،پھر کیسے دعایٔیں قبول ہوگی اور کیسے اﷲ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی؟ مسٔلہ کی سنگینی کوسمجھنے کی سخت ضروت ہے ورنہ اسی طرح ذلت و سوایٔ ہمارا پیچا کرتی رہیگی اور ہم پر ظلم و خوف برپا ہوتا رہیگا اور ہم دشمن کے خلاف اﷲ سے مدد مانگتے رہینگے مگر اﷲ کی مدد ہم سے کوسوں دور رہیگی جب تک کہ سچی توبہ کر کے سہی معنوں میں مسلمان بن جایٔں
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلمان ہوکر، اور تم خوار ہوے تاریکِ قرآن ہو کر۔۔۔(۔اقبالؒ)

Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed
About the Author: Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed: 28 Articles with 37736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.