سانس لینے سے پہلے سوچ لیجئے کہ آپ اپنے پھیپھڑوں
میں زہر تو نہیں بھر رہے۔
دنیا میں انسان کے لئے ایک ہوا خالص رہ گئی تھی، جیسے بھی انسان نے آلودہ
کر دیا ہے۔ اور انسانوں کو ان بڑے بڑے شہروں میں سانس لینا بھی محال ہے۔
ذرا ان شہروں کا حال تو لیجئے، کیسے کیسے مسائل ہیں جو یہاں پیدا ہورہے
ہیں۔ چین کے شہربیجنگ کی ہوا اس قدر آلودہ ہے کہ وہاں ماسک کے بغیر سانس
لینا بھی محال سمجھا جاتا ہے۔اولان باتورمنگولیا کے دارالحکومت کا شمار
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ سردیوں میں لوگ گھروں کو گرم رکھنے
کے لیے کوئلے اور لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس شہر میں موجود دھوئیں کے 60
سے 70 فیصد تک کی وجہ یہی روایتی طریقے ہیں۔ایرانی شہر اہواز دْنیا کا
آلودہ ترین شہر ہے۔ اس کی وجہ شہر کے ارد گرد قائم مختلف صنعتیں ہیں لاہور
کا شمار بھی ایسے ہی شہروں میں ہوتا ہے۔ہوا میں آلودگی پاکستان کا ایک اہم
ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ یہ صورتِ حال اس ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں خاصی
گمبھیر ہے۔ اس شہر میں دھوئیں کی اہم وجوہات میں کوڑا کرکٹ جلانا، ٹریفک
اور قریب ترین صحرائی علاقوں سے یہاں پہنچنے والی باریک مٹی بھی شامل ہیں۔
پڑوسی ملک بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میں 30 برس کے اندر اندر موٹر
گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار سے بڑھ کر 35 لاکھ ہو چکی ہے۔ تاہم شہر
کی آلودہ ہوا کی زیادہ تر ذمہ داری کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر ڈالی
جاتی ہے۔ اس شہر کی فضا میں پائی جانے والی خطرناک گیسوں کا اسّی فیصد انہی
بجلی گھروں کی چمنیوں سے اٹھتا ہے۔ریاض سعودی عرب کے اس شہر میں ریت کا
طوفان ہوائی آلودگی کو اور بھی خطرناک بنا دیتا ہے۔ شہر کی فضا میں اڑتی
ہوئی ریت میں گاڑیوں اور صنعتوں کا دھواں بھی شامل ہو جاتا ہے۔قاہرہ جو مصر
کا دارالحکومت ہے۔ یہاں کی کی ناقص ہوا بیماریوں کی باعث ہے۔ یہاں ہر سال
سانس کی بیماریاں اور پھیپھڑے کا سرطان دس ہزار سے لے کر پچیس ہزار تک
افراد کی موت کا سبب بنتے یں۔ وہاں ٹریفک اور بڑھتی ہوئی صنعتیں آلودگی کی
وجہ ہیں۔جرمن شہر مائنز کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ایک مطالعے کے مطابق
ٹوکیو اور نیویارک میں ہر سال آلودہ ہوا کے باعث پانچ سو افراد ہلاک ہوتے
ہیں۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں یہ تعداد تقریبا پندرہ ہزار ہے۔
روس کے دارالحکومتماسکو میں بھی فضائی آلودگی کا وہی عالم ہے جو کسی بھی
میگا سٹی میں ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کی آلودہ فضا میں شہر کی مغربی سمت سے
آنے والی تازہ ہوائیں سکون کا سانس لینے کا موقع دیتی ہیں میکسیکو سٹی جو
لاطینی امریکا میں ہے، اس شہر میں آلودگی کی وجہ اس کی جغرافیائی پوزیشن
ہے۔ اسے تقریبا پانچ ہزار میٹر بلند آتش فشاں پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ سلفر
ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز کی وجہ سے میکسیکو کا شہر میکسیکو سٹی
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔امریکہ کے شہر نیویارک کا بھی
یہی حال ہے۔ جہاں فضائی آلودگی نے گرمی کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے یہاں
پانی اور آلودہ ہوا کے ساتھ شور بھی انسان کے لئے خطرہ کی علامت ہے۔آلودگی
کوئی بھی ہو کرہ ارض پر رہنے والوں کی زندگیوں کے لئے خطرے کا ہی باعث ہیں۔
فضائی آلودگی سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر ہر ممکن اقدامات کئے جا ر ہے ہیں
اور دنیا بھر میں رہنے والوں کو اس خطرے سے بچنے کی تدابیر بھی بتائی جا
رہی ہیں تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔دنیا کے گرد قدرتی طور پر اوزن کی جو تہہ
ہے اس کو دھویں اور دیگر کثافتوں کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہے دھویں کی
آلودگی کے باعث ماحول بدل رہا ہے‘ بیماریاں پھیل رہی ہیں اور موسموں میں
بھی تبدیلی پیدا ہوتی جا رہی ہے یہ فضائی آلودگی ہی ہے جس کی و جہ سے گرمی
کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ دھویں کی تہہ کی وجہ سے سورج کی شعاعیں
درست طور پر انسانی جسم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ گرمی کی شدت کے باعث پہاڑوں پر
برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے جس سے آئے دن سیلاب کی بھرمار ہوتی ہے اور
سمندر کی سطح بھی بلند ہونا شوع ہو جاتی ہے جس سے تباہ کن طوفانوں کا خطرہ
بڑھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سمندر کی سطح بلند ہونے کے باعث دنیا کے بیشتر
ممالک سطح زمین کے اندر دھنس جائیں گے۔فضائی آلودگی کے اثرات انسانی زندگی
پر تیزی سے رونما ہو رہے ہیں آئے روز نت نئی بیماریاں دریافت ہو رہی ہیں
جگہ جگہ گندگی کے انبار سے بھی ماحول کی آلودگی متاثر ہو رہی ہے۔ جہاں
گندگی اور کیچڑ کی بدبو سے فضا آلودہ ہو رہی ہے وہاں گاڑیاں کا دھواں کینسر
جیسے موذی مرض کو پھیلا رہا ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا اور کوئی لائحہ
عمل مرتب نہ کیا گیا تو یہ مرض انسانی زندگی کیلئے روگ بن کر رہ جائے گا
جبکہ ناک‘ کان اور گلے کی بیماریاں بھی انسانی زندگی کے لئے خطرے کا باعث
بن رہی ہیں اور سگریٹ کا دھواں بھی انسان کو نت نئی بیماریوں میں مبتلا کر
رہا ہے۔فضائی آلودگی میں جہاں کارخانوں اور فیکٹریوں کا بڑا ہاتھ ہے وہاں
سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں بھی فضا کو خراب کر رہی ہیں۔ سگریٹ کا دھواں
خطرناک قرار دیا گیا ہے مگر ہر قسم کی گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں
سگریٹ کے دھویں سے زیادہ خطرناک ہے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ
انسانی صحت کو بھی متاثر کر رہا ہے اس سے ایسے مرض پھیل رہے ہیں جن کا علاج
بھی ابھی تک دریافت نہیں کیا گیا جبکہ ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں
کہ ہم آنے والے خطرے کو بھانپ کر اس کے ازالہ کے لئے کوئی اقدامات کر سکیں۔
اس کے علاوہ دنیائے ممالک میں ہونے والے ایٹمی دھماکے بھی فضائی آلودگی میں
اضافہ کا باعث بن رہی ہیں ایٹم بذات خود انسان کی تباہی کا موجب ہے اور اسی
کا دھماکہ ایک سے دوسرے بلکہ تیسرے ملک تک اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اور فضا
آلودہ ہو کر انسانوں کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پہلے صرف زمین
پر ایٹمی دھماکے کے کئے جاتے تھے آج کل خلا میں ایٹمی دھماکے کرنے کا رواج
بڑھ رہا ہے جس سے فضائی ایٹمی ذرات پوری دنیا کو متاثر کرنے کیلئے آلودگی
میں اضافہ کر رہے ہیں جو پوری دنیا کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہے۔فضائی
آلودگی کے جہاں منفی اثرات انسان پر اثر انداز ہو رہے ہیں وہاں ہماری زراعت
بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچا پائی فضا میں آکسیجن کی کمی سے فصلیں بے جان
ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں غذائیت کی شدید کمی واقع ہو رہی ہے اور رہی سہی
کسر وہ تیزابی بارشیں پوری کر رہی ہیں جو فضائی آلودگی کے باعث برس رہی ہیں
۔ جنگ اور اسلحہ بارود کی وجہ سے بھی فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا
ہے ۔ خلیجی جنگ میں کویت میں جلتے ہوئے تیل کے کنوئیں سے جو دھواں اٹھا
تھا۔ اس سے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ موسموں پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے
ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کالی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے یہ سب کچھ
فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے کیونکہ فضائی آلودگی نے موسموں کی
نظام کوبھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ بارشیں بے موسم اور شدید قسم کی ہو رہی
ہیں جس سے سیلاب انسانی بستیوں میں تباہی مچا رہے ہیں یہ تباہی صرف انسانوں
ہی کا مقدر نہیں بنی بلکہ جانور بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب شور سے پیدا ہونے والی آلودگی زیادہ تر جمبو جیٹ قسم کے
ہوائی جہازوں‘ کارخانوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں اور لاوڈا
سپیکروں سے پیدا ہونے والے شور تک محدود تھیں اب یعنی گزشتہ 20-15 برسوں
میں جہاں اس طرح کے شور کی شدت میں اضافہ ہوا ہے شور مچانے والے دیگر وسائل
بھی شہروں کے علاوہ دیہات کو بھی اپنی زد میں لے چکے ہیں۔ گاؤں میں ٹریکٹر
ڈیزل پمپ اور ٹیلی ویژن سیٹ عام ہوچکے ہیں۔اونچی آواز میں ریکارڈنگ سے بھی
ماحول متاثر ہورہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بسوں، ٹرکوں میں ’’پریشر
ہارن‘‘ لگانے پر پابندی ہے اور ہمارے ہاں تو ایسے ہارن شہروں میں شوقیہ
ڈرائیور بجا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اور اب تو شہروں خصوصاً
راولپنڈی ، اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی جیسے شہروں میں شور سے پیدا
ہونے والی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اس سے بہرے پن کا خطرہ بڑھ
رہا ہے۔ کیونکہ شور سے صرف ہماری قوت سماعت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ کام
کرنے کی صلاحیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ ذہنی تناؤ بڑھ جاتا ہے۔ نیند متاثر
ہوتی ہے، بے خوابی کی وجہ سے امراض کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔بچپن میں آپ کو
جابجا ’’یہاں ہارن مت بجائیں‘‘ کے بورڈ آویزاں نظر آتے تھے۔ لیکن اب یہ
بورڈ غائب ہوچکے ہیں۔ان پرکوئی عمل کرنے والا بھی نہیں رہا۔ اسکولوں،
ہسپتالوں کے قرب و جوار کے علاقوں میں بھی اس قانون کا نفاذ نہیں ہوتا۔
ٹریفک پولیس بھی اکثر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔دنیا پوری طرح فضائی
آلودگی کے گھیرے میں آچکی ہوئی ہے اور یہ بات بھی حیرت کا باعث ہے کہ ایک
طرف انسان اپنے لئے امن، آرام اور سکون تلاش کررہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ
خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہی کی جانب گھسیٹ رہا ہے حالانکہ یہ فضائی
آلودگی پاکستان سمیت پوری دنیا کے لئے خطرے کا باعث ہے۔ آج کل کئی ایسے
ادارے وجود میں آچکے ہیں جو دنیا کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لئے کام
کررہے ہیں گو انہیں اس ضمن میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی مگر یہ
بھی سو فیصد امید ہے کہ ان کی کوششیں رنگ لاکر رہیں گی۔ ویسے بھی اب دنیا
کے بڑے بڑے ممالک اس مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے سوچ بچار کرنے پر مجبور ہوگئے
ہیں کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی کو کم کیا جائے اور دنیا کو تباہی سے
بچایا جائے۔فوربس میگزین کے مطابق نیویارک کا شمار امریکا کے بیس سب سے
آلودہ شہروں میں ہوتا ہے۔ تاہم شہر کی انتظامیہ نے گاڑیوں کے حوالے سے جدت
اور فلٹریشن سسٹم کے ذریعے آلودگی کم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ دہلی کے
بارے میں کہا جاتا ہے کہ سانس لے کر سوچنے کی بجائے سوچ کر سانس لیں،بھارتی
دارالحکومت نئی دہلی میں فضائی آلودگی کا عالم اب یہ ہے کہ وہاں ایک گہری
سانس لینے سے قبل دس مرتبہ سوچ لینا چاہیے۔ اسی تناظر میں اب دہلی کا
موازنہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہر کہلانے والے بیجنگ سے کیا جانے لگا
ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نئی دہلی میں کچھ روز تو ایسے
بھی ہوتے ہیں کہ فضائی آلودگی کے باعث ہوا اتنی مَٹیلالی ہو جاتی ہے کہ
ٹریفک تک کو رینگ رینگ کر چلنا پڑتا ہے۔ اب وہاں افراد کی باہم گفتگو کے
بیچ کھانسی ایک معمول سا بن گئی ہے، جیسے یہ بھی گفتگو ہی کا کوئی حصہ ہو
اور سورج کی روشنی اس آلودہ فضا سے یوں ٹپک ٹپک کر زمین کو چھوتی ہے کہ
آسمان اپنا نیلا رنگ اتار کر نارنجی قبا اوڑھ لیتا ہے۔یہ تو شاید کہنا فی
الحال ممکن نہ ہو کہ ان دونوں شہروں میں سے کس کی فضا میں اس آلودگی کے
باعث دھند زیادہ ہے، کیوں کہ فضا میں موجود ان مہلک ذرّات کی قسمیں بھی کئی
طرح کی ہیں اور ان کے پیمائشی معیارات بھی متنوع، مگر ایک چیز واضح ہے اور
وہ یہ کہ کم از کم چین میں اس سلسلے میں بہتری کے لیے حکومت اقدامات کرتی
نظر آ رہی ہے مگر گزشتہ کچھ برسوں میں اس بابت نئی دہلی حکومت کے اقدامات
ناکافی نظر آتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئی دہلی کے شہری اس
سلسلے میں کم کم ہی شکایت کرتے ملتے ہیں۔نئی دہلی میں طبی ذرائع اس بات پر
متفق ہیں کہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ افراد اس فضائی آلودگی سے
متاثر ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں، تاہم اس بابت نئی دہلی میں اعداد و
شمار جمع کرنے کا شاید کوئی نظام ہی نہیں۔ فضائی آلودگی انسانی پھیپھڑوں کو
بری طرح متاثر کرتی ہے، تاہم محققین کی ایک بڑی تعداد یہ بھی بتاتی نظر آتی
ہے کہ اس آلودگی کی وجہ سے انسان ذہنی تناؤ اور جسم سوزش یا جلن اور دیگر
کئی طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔PAK-EA کی رپورٹ کے مطابق کراچی اور
لاہور میں آلودگی انہتائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ کراچی میں نائیٹروجن
گیس(NO2) گیس کی انتہائی مقدار 399 مائکرو گرام پر کیوبک میٹر تک جبکہ
لاہور میں TSPیا ہوا میں معلق ذرات کی مقدار 126 مائکرو گرام پر کیوبک میٹر
تک پہنچ گئی ہے جو کہ عالمی سٹینڈرڈ (35 مائکرو گرام پر کیوبک میٹر)سے تین
گنا زیادہ ہے۔یہ سروے پاکستان انوائرنمنٹل ایجنسی PAK-EAنے جاپان کی مدد سے
پاکستان کے پانچ بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد/راولپنڈی، پشاور اور
کوئٹہ میئں جدید ترین آلات کو انسٹال کے کے مکمل کیا۔ اس کے علاوہ ایجنسی
نے چند دیگر شہروں جیسے گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد وغیرہ میں بے
ماحولیات سے متعلق سروے کیا۔نائٹروجن لیول کے لحاظ سے اختیار کردہ سروے کے
مطابق یاد رہے کہ نایٹروجن کی زیادتی سے سانس کے مسائل جیسے دل کے امراض،
پھپھڑوں کا ٹھیک کام نہ کرنا،دمہ، مدافعتی نظام کا کمزور ہونا اور اوزون پر
بد اثرات وغیرہ جبکہ معلق ذرات کی وجہ سے آنکھؤں اور گلے کی انفیکشن،
کھانسی، وغیرہ جیسے امراض کا سبب بنتے ہیں۔آلودگی میں ہونے والا یہ خوفناک
اضافہ کی ایک وجہ پچھلے چند سالوں میں ہونے والی آزادانی کار فائیناسنگ اور
تیز انڈسٹیرلائزیشن بیان کی جاتی ہے۔ جس میں موٹر وہیکلز کی ایک بہت بڑی
تعداد پاکستان کی سڑکوں پرآ گئی جبکہ پاکستان کا روڈ سٹرکچر اسکی اہلیت
نہیں رکھتا تھا۔ روڈز کی توسیع کے نتیجے میں کٹنے والے درختوں نے اس کی
خطرناکی میں مزید اضافہ کر دیا۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، گرمی، Toxic
acids ، روڈز پر اڑنے والہی گرد و غبار، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور
انکے مضر صحت مادے وغیرہ نے پاکستانی کی ماحولیاتی آلودگی میں بے انتہا
اضافہ کیا ہے۔
جب انسان آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں تو درحقیقت خود کو انتہائی خطرے میں
ڈالے ہوئے ہوتے ہیں اور خود کو دل، سانس و پھیپھڑؤں کی بیماریوں، آنکھوں کے
امراض کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی انسان کا معمولی آلودگی میں لمبے
عرصہ تک سانس لینا بھی انتائی خطرناک ہوتا ہے کجا یہ کہ انسان ایسی فضا میں
سانس لے کہ جو عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ آلودہ ہو۔کراچی کی آبادی ایک
کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے تیزی سے بڑھتے تناسب کی وجہ سے اسے
دنیا کے گنجان ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس گنجان ترین شہر میں
آلودگی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ آیندہ
دس برسوں میں اس شہر کا ہر دوسرا فرد سر درد، نزلہ، زکام، دل کے امراض اور
الرجی وغیرہ میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کی بڑی وجہ ہے اس شہر کی فضا میں
پیدا ہونے والے وہ آلودہ عناصر جو انسانی صحت کے لیے کسی طرح بھی مناسب
نہیں ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر 68.6
فیصد افراد نے ایمرجنسی وارڈ میں علاج کروایا اور 31.4 فی صد نے اسپتالوں
میں باقاعدہ علاج کے لیے داخلہ لیا۔ اسپتال کا ریکارڈ یہ بناتا ہے کہ ان
مریضوں میں اکثریت کی تعداد دل کے امراض کی تھی، ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ
فضائی آلودگی کے مستقل بڑھنے کی وجہ سے دل کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر
کے دو معروف ترین علاقے کورنگی جہاں صنعتی علاقے میں فیکٹریوں اور ملوں سے
نکلنے والا دھواں جو خاصا آلودہ اور مضر صحت اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے پوری
آبادی پر اثر انداز ہوتا ہے جب کہ شہر کے وسط میں تبت سینٹر کا علاقہ بھی
جہاں روزانہ تقریباً تین لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں اپنی مضر صحت گاڑیوں سے
خارج ہونے والے دھوئیں کی بدولت شہریوں کی زندگی کو ابتر کر رہی ہیں۔
کورنگی جہاں ریفائنریاں، ٹیکسٹائل ملیں اور دوسری کیمیائی فیکٹریاں شامل
ہیں نہ صرف اپنے دھوئیں بلکہ خارج ہونے والے آلودہ پانی کی بدولت بھی سنگین
صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق ایشیائی
ممالک میں آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورت حال تشویشناک حد تک خطرناک ہے جہاں اس
وجہ سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سالانہ آٹھ لاکھ افراد موت کا
شکار بن رہے ہیں۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں عام عوام کے لیے
ٹرانسپورٹ کی صورت حال خاصی ابتر ہے لیکن گاڑیوں کی شکستہ حالی کی بدولت
فضا میں خارج ہونے والا دھواں جو ان گاڑیوں کی بدولت لوگوں کی صحت کو دیمک
کی طرح چاٹ رہا ہے ۔فضائی آلودگی کا شکار نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے
دوسرے بڑے شہر جن میں لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد شامل ہیں۔ فیصل آباد
کا درجہ اس اعتبار سے خاصا بلند ہے جب کہ لاہور دوسرے نمبر پر آتا
ہیسنگاپور میں پڑوسی ملک انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے جنگلوں میں بھڑکنے
والی آگ کے نتیجے میں دھویں کے بادل چھانے کے بعد وہاں تیسرے روز فضائی
آلودگی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔دنیائے ممالک کو چاہیے کہ وہ دھواں
چھوڑنے والی فیکٹریوں اور کارخانوں کو آبادی سے دور منتقل کریں اور ان
کارخانوں و فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں میں کثافتوں کو صاف کرنے کے لئے
خصوصی پلانٹ لگائیں جو فضا میں جاکر آلودگی نہ پھیلائیں اس کے علاوہ ایسی
تکنیک ایجاد کی جائے کہ سڑکوں پر چلنے والی ہر قسم کی گاڑیوں کے دھویں کو
کنٹرول کیا جاسکے اس معاملے میں شمسی توانائی اہم کردار ادا کرسکتی ہے
انسان کو اس کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا
جاسکے اور جس قدر ممکن ہو دنیا کو تباہی سے بچایا جائے اور ایک صحت مند
معاشرہ عمل میں آئے یہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ |