ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں
کوئی خفیہ فیکٹری لگی ہوئی ہے ۔اِس راز سے پردہ تَب اُٹھا جب گیس کا 22
ہزار روپے کا بِل دیکھ کر ہمارے چودہ کیا سولہ طبق روشن ہوگئے ۔ ہم عالمِ
بَد حواسی میں بہت دیر تک بِل تکتے رہے پھر جب تھوڑا ہوش آیا تو بِل کا
مطالعہ شروع کر دیا لیکن مجال ہے جو ’’کَکھ‘‘ سمجھ میں آیا ہو۔بِل کو
سمجھنے کی خاطرجب اپنے میاں کے پاس پہنچے تو مار ے حیرت کے وہ بھی اُچھل
پڑے لیکن پھر حسبِ عادت جلد ہی پُرسکون ہو گئے اور کہا ، مجھے نہیں پتہ اِس
میں کیا لکھا ہے ،بَس ملازم کو بھیج کر بِل جمع کروا دو لیکن میں نے ضد کی
کہ گیس کے محکمے کے پاس جا کر بِل ٹھیک کروا لائیں کیونکہ اتنا بِل آ ہی
نہیں سکتا ۔ میاں تو میری بات پر کان دھرنے کو تیار ہی نہیں تھے لیکن ہمارے
اصرار و تکرار کے بعد اُنہوں نے اپنے مہربان ہوٹل والے شریف کو فون کرکے
بُلا لیا ۔شریف نے بھی ہمیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ تو گھر گھر کی
کہانی ہے اور گیس کے بِل دیکھ کر ہر گھر میں کہرام بپا ہے ۔لوگ دفتروں میں
دھکے کھا رہے لیکن کوئی شنوائی نہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ بِل جمع کروا
دیا جائے لیکن ہماری ایک ہی ضد تھی کہ بِل میں گَڑ بَڑ ہے اِس لیے اِسے
ٹھیک کروانا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے ۔ہم نے شریف کو کہا کہ یہ تو حکومت
ہی ’’شریفوں‘‘ کی ہے اِس لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بِل ٹھیک کرواؤ
۔ہماری ضِد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے میرے میاں اور شریف دونوں گُلبرگ میں
سوئی گیس کے ہیڈ آفس چلے گئے ۔’’مِرچ مصالحے‘‘ کے بغیر ہیڈ آفس کی جو کہانی
اُنہوں نے سُنائی ، وہ کچھ یوں تھی کہ ہیڈ آفس کا مین گیٹ بند تھا اور باہر
سڑک پر سینکڑوں کی تعداد میں مَرد اور عورتیں ’’انٹری پاس‘‘ کے لیے شہد کی
مکھیوں کی طرح کھڑکیوں کے ساتھ چمٹے ہوئے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے تھے
کیونکہ ’’کمپلینٹ‘‘ کا وقت صرف بارہ بجے تک تھا ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ
جیسے وہ سوئی گیس کا ہیڈ آفس نہیں ، وزیرِ اعظم ہاؤس ہو جہاں پرندہ بھی پَر
نہیں مار سکتا ۔بعد اَز خرابیٔ بسیار جب وہ متعلقہ آفیسر کے پاس پہنچے تو
اُس نے کوئی بات سُنے بغیر مُسکراتے ہوئے کہا کہ بِل فوراََ جمع کروا دیں
وگرنہ میٹر کَٹ جانے پر کم از کم اگلے چھ ماہ تک میٹر نہیں لگے گا ۔ میرے
میاں اُسی وقت ببھاگم بھاگ بینک پہنچے اور بِل جمع کروا کر دَم لیا۔وہ جب
غصّے سے لال بھبھوکا گھر واپس آئے اور اُن کا غُصّہ دیکھ کر ہماری حالت یہ
تھی کہ کاٹو تو بَدن میں لہو نہیں۔
ہم چونکہ تھوڑے ضدی اور ہَٹ دھرم واقع ہوئے ہیں اِس لیے اپنے طور پر معاملے
کی تہ تک پہنچنے میں جُٹ گئے ۔ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ سوئی گیس
کا محکمہ عوام کی چمڑی اُدھیڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔محکمے نے اپنی
کرپشن اور’’لاسِز‘‘ چھپانے کے لیے انوکھا اور نرالا’’ طریقۂ واردات ‘‘نکالا
ہے۔خصوصی ہدایات کے تحت میٹر ریڈر سردیوں میں دو ، دو ماہ تک ریڈنگ نہیں
کرتے اور محکمہ تھوڑے تھوڑے بِل بھیجتا رہتا ہے ۔مقصد یہ کہ ریڈنگ کسی نہ
کسی طرح سے ’’Slab 3 ‘‘ تک پہنچ جائے جِس کی قیمت 530 روپے فی MMBTU ہے
جبکہSlab وَن کے ریٹس 106 اور ٹو کے 212 روپے فی MMBTU ہیں ۔محکمہ اُسی وقت
بِل جاری کرتا ہے جب ریڈنگ سلیب تین تک پہنچ جائے اور اِس طرح وہ پانچ گُنا
زیادہ بِل وصول کر سکے ۔دوسرا طریقۂ واردات یہ ہے کہ بِل آخری تاریخ سے محض
ایک دِن پہلے آتا ہے تاکہ خوف زدہ صارفین بھاگم بھاگ بِل جمع کروا دیں ۔اِس
صریحاََ بے ایمانی پر ’’اَز خود نوٹس‘‘ لینے والے پتہ نہیں کہاں جا سوئے
ہیں ۔موجودہ حکومت ، جو عوام کی اُمنگوں کا محور ہے اور ہم بھی یہی سمجھتے
ہیں کہ اگر خُدانخواستہ یہ حکومت بھی ناکام ہو گئی تو پھر آگے اندھیرا ہی
اندھیرا ہے ۔اِس کے کار پردازوں کو کیا یہ بھی پتہ نہیں کہ بھوکوں مرتے
عوام کی بے بسی جب اپنی انتہاؤں کو چھونے لگتی ہے تو خونی انقلاب آتے ہیں۔
مسّلمہ حقیقت بھی یہی ہے کہ
دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں
خود ناچتی ہیں اور نچاتی ہیں روٹیاں
اور تاریخ کا سبق بھی یہی کہ ’’فرزانے‘‘ کبھی ’’دیوانوں‘‘ کے آگے ٹھہر نہیں
سکے ۔پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف اپنی
تقریروں میں بار بار حبیب جالب کے اشعار پڑھتے اور حکمرانوں کو خونی انقلاب
سے ڈراتے رہتے تھے لیکن شاید اب وہ بھی سب کچھ فراموش کرکے نئی دُنیائیں
آباد کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی
طبقۂ اشرافیہ میں سے سمجھ لیا گیا ہو۔عرض ہے کہ کسی گاؤں میں ایوب نامی ایک
جولاہا رہتا تھا جس کی پہلے بھینس مری ، پھر گائے ، پھر بکری اور آخر میں
اُس کی بیٹی بھی دارِ فانی سے کُوچ کر گئی ۔ایوب جولاہے نے آسمان کی طرف
مُنہ کرکے کہا ’’ میرے مولا ! لگتا ہے کہ آپ کے فرشتوں کو کوئی غلط فہمی ہو
گئی ہے ۔میں ایوب جولاہا ہوں ، ایوب نبی نہیں جو مجھے اتنی آزمائشوں میں
ڈال دیا گیا ہے ‘‘ ۔ ہم بھی حکمرانوں کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ وہ
اِس غلط فہمی کو دور کر لے کہ قوم طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس پر
اُتنا ہی بوجھ ڈالا جائے ، جتنا کہ وہ برداشت کر سکے ۔
ہمیں میاں برادران کے دِلی درد ، صلاحیتوں اور پاکستان سے محبت پر آج بھی
اعتماد ہے لیکن یہ ضرور کہے دیتے ہیں کہ اگر مہنگائی کی ماری قوم کا یہی
حال رہا اور بَد دل قوم نے یہ کہنا بند کر دیا کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شرف ،
ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ تو پھر اُن کے سارے منصوبے دھڑام سے نیچے آن گریں
گے، جِس سے زیادہ بَد قسمتی کی بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔مانا کہ اِس
وقت دہشت گردی کا عفریت حکمرانوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن قوم کی بَد حالی
اُس سے بھی بڑا عفریت ہے ۔دہشت گردی پر تو قابو پایا جا سکتا ہے اور جِس
خلوصِ نیت سے اکابرینِ حکومت اِس کام میں جٹے ہوئے ہیں اُسے دیکھ کر یقین
ہونے لگا ہے کہ انشاء اﷲ بہت جلد دہشت گردی کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا
لیکن اگر ’’مقہور‘‘ قطار اندر قطار باہر نکل آئے تو اُنہیں قابو میں لانا
ناممکن ہو گا۔ہمیں ادراک ہے کہ یہ مہنگائی موجودہ حکومت کی پیدا کردہ نہیں
اسی ادراک کے ساتھ قوم جیسے تیسے زندگی گھسیٹ بھی رہی ہے لیکن جِس طرح سے
’’یوٹیلٹی بِلز ‘‘ میں صریحاََ زیادتی کی جا رہی ہے وہ کسی بھی صورت میں
قابلِ برداشت نہیں ۔غالباََحکمرانوں تک سڑکوں پہ نکلے عوام کا یہ احتجاج تو
پہنچ ہی چکا ہو گا کہ سوئی گیس کے محکمے نے صریحاََ زیادتی کرتے ہوئے
ہزاروں روپے کے بِل بھیج کر لوگوں کے گھریلو بجٹ تہس نہس کر دیے ہیں ۔ابھی
تو بہت تھوڑے لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں لیکن کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ پوری
قوم ہی سڑکوں پر نکل آئے؟۔آخر میں اپنے ، بالکل اپنے حکمرانوں کی خدمت میں
یہ قومی نوحہ کہ
تُم رَکھ نہ سکے اپنی جفاؤں کا بھرم بھی
تُم نے میرا اُمید سے کم ساتھ دیا ہے
اے قافلے والو ! میری ہمت کو سراہو
ہر چند کہ زخمی ہیں قدم ، ساتھ دیا ہے |