جاندار چیزوں کی محبت انسانی فطرت میں شامل
ہے ۔خاص طور پربچے پرندوں اور مچھلیوں سے کھیلنا بہت پسند کرتے ہیں ۔اندرون
لاہور اکثر کسی پیٹرول پمپ ،سی این جی سٹیشن یا کسی بیکری شاپ کے باہرچھوٹی
،چھوٹی مچھلیاں شاپر میں ڈالے محنت کش اپنے ہاتھوں میں لئے نظر آتے ہیں
جنہیں دیکھ کر شہریوں کے بچے مجبور کردیتے ہیں کہ اُن کو کچھ اور لے کے دیا
جائے نہ جائے لیکن مچھلیاں ضرور لے کے دیں۔راقم کے ساتھ بھی یہ واقع کئی
بار پیش آچکاہے ۔شہرمیں فروخت ہونے والی رنگ برنگی فارمی مچھلیاں کمزور جان
ہوتی ہیں اس لئے بچوں کے ہاتھوں میں آتے ہی دم توڑ دیتیں ہیں اُن کے مقابلہ
میں کسی گاؤں یا کھیت میں کھڑے پانی میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والی (ڈھولا)
مچھلیاں سخت جان ہوتی ہیں،یہ مچھلیاں شکاری سے اپنی جان بچانے کیلئے مردہ
ہونے کا ڈرامہ بھی کرتی ہیں ۔ایک دن میرے چھوٹے بیٹے نے دودھ والے انکل کو
اپنی مردہ مچھلیاں دکھا کر افسردہ لہجے میں کہا انکل عرفان میں جب بھی
مچھلیاں لاتا ہوں یہ مرجاتی ہیں ،آپ کوپتا ہے یہ کس طرح زندہ رہ سکتیں ہیں
میرے پاس؟عرفان نے اُسے بتایا کہ میں نہیں جانتا لیکن ہمارے گاؤں میں جو
مچھلیاں ہوتی ہیں وہ جلدی نہیں مرتیں،آپ اپنے بابا کو ساتھ لے کر کسی دن
گاؤں آجاؤ میں تمہیں بہت سی مچھلیاں پکڑ دوں گا پھر وہ جلدی نہیں مریں
گی۔بس پھر کیا ہونا تھا بابا کی شامت آگئی کہ چلوانکل عرفان کے گاؤں وہاں
سے مچھلیاں لانی ہیں ۔بابا نے بہت کہا کہ بیٹا میں بازار سے مچھلیاں لادوں
گا لیکن بازار والی تو جلدی مرجاتی ہیں وہ اب کون لے ۔تمام والدین کی طرح
مجھے بھی ہارماننا پڑی اور ہم سنڈے کوعرفان کے گاؤں جاپہنچے ۔عرفان کے گاؤں
کیا پہنچے یوں لگا جیسے صدر بن گئے ہوں اور صدارتی محل کے ملازمین خدمت میں
حاضر ہوں ۔اتنی محبت اور خاطر داری کبھی کسی رشتہ دارنے نہیں کی جتنی عرفان
اور اُس کے گھر والوں نے کی۔رخصت ہوتے وقت ہماری گاڑی سبزیوں جن میں شلجم،
گاجر، مولی۔ لہسن اور خاص طور پر ساگ اور اُس سے بھی خاص جلدی نہ مرنے والی
مچھلیوں سے پر تھی ۔خوشی خوشی گھر پہنچے ،گھر والوں نے ساگ رشتہ داروں کے
ساتھ،ساتھ ہمسایوں کے گھر بھی بھیجالیکن مچھلیاں صرف آپس میں تقسیم ہوئیں ۔اگلے
دن شدید سردی تھی صبح اُٹھتے ہی بچوں کو گرم کپڑوں سے لاد کر کمرے میں رہنے
کی ہدایات جاری کی گئیں ،تھوڑی دیر بعد شاہ زیب اپنی مچھلیوں والی بوتل
میرے پاس لایا اور روتا ہوابولا بابا دیکھیں میری مچھلیاں تو مرگئی ہیں ۔مجھے
لگا جیسے مچھلیاں جان بچانے کیلئے مردہ پن کا ڈرامہ کررہی ہیں ۔اس لئے میں
نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے بتا یا کہ نہیں یہ مری نہیں مرنے کا ڈرامہ کررہی
ہیں ۔لیکن وہ روتا ہی رہاجس پر میں نے اُسے مچھلیوں کو بوتل سے نکال کر
کھلے برتن میں ڈال کردیکھنے کا کہا ،مچھلیاں کھلے برتن میں آئیں تو میں نے
اُن کو انگلی سے چھیڑ کر دیکھاتو پتا چلا کہ پانی بہت گرم ہے۔میں نے شاہ
زیب سے پوچھا بیٹا آپ نے بوتل میں گرم پانی کہاں سے ڈالا ؟اُس نے بڑی
معصومیت سے بتایا بابا سردی بہت ہے میں نے سوچا مچھلیوں ں کو سردی نہ لگ
جائے اس لئے گیزر سے گرم پانی ڈال دیا۔شدید گرم پانی میں مچھلیاں سچ میں
مرچکی تھیں جبکہ میں سمجھ رہا تھا کہ مچھلیاں ڈرامہ کررہی ہیں۔اگلے دن
عرفان نے شاہ زیب کو نئی مچھلیاں لاکردیں لیکن یہ واقعہ میرے دماغ میں پھنس
کے رہ گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ہمارے حکمران بھی تو
معصومیت کے عالم میں عوام کو دہشتگردی ،بدامنی،بے روزگاری،ناانصافی،قتل
وغارت گری ،مہنگائی،کرپشن وغیرہ وغیرہ کی آگ میں دھکیل کرصحت و تعلیم کی
بنیادی سہولتوں سے دوررکھنے کے بعد کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ عوام ڈرامہ
کررہے ہیں ،عوام کا رونا،خودکشیاں کرنااور اپنے جسم کے حصوں کے ساتھ ساتھ
اپنی اولاد تک کو فروخت کرنا بھی تو کہیں ڈرامہ نہیں سمجھا جارہا؟اگر ایسا
ہے تو میں گرم پانی میں مچھلیوں کو مرتے دیکھ چکا ہوں اس لئے پیارے
حکمرانوں سے گزارش ہے کہ عوام ڈرامے باز ہے یہ سوچ کر کہیں تنہا نہ رہ
جانا۔کبھی کبھی عوامی سطح پر زندگی کا کچھ وقت گزار کر محسوس کرلیا کرو کہ
عوام کن مشکلات سے گزر رہے ہیں ۔عوام کی اکثریت امن،انصاف،قانون کی
حکمرانی،مہنگائی میں کمی،جرائم میں کمی ،صحت و تعلیم کی بہترسہولیات،بجلی و
گیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ،قتل وغارت کا خاتمہ، اورروزگار کی آسان فراہمی
چاہتی ہے ۔اگر یہ ڈرامہ بازی ہے تو پھر ہم ڈرامہ باز ہیں چاہے یہ ڈرامہ
بازی ہماری جان ہی کیوں نہ لے ہم یہ ڈرامہ بازی نہیں چھوڑ سکتے ۔ |