اسلام ایسا دین متین ہے کہ جس نے ظلمت وتارکیوں سے
دوچارزمانہ جاہلیت کے لوگوں کو اس سے نجات دلائی۔چھٹی و ساتویں صدی میں
انسانی معاشرہ حیوانیت کی بلند عروج تک پہنچ چکا تھا۔ایسے میں آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ عظیم دین اور عظیم ملت کی بعثت بھی ہوئی ۔دین
اسلام اور حاملین اسلام نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماضی کی تمام سیاہ
و بد رسوم و رواج اور عادات کو ترک کردیا جس کے سبب پورے انسانی معاشرے نے
سکھ وچین کا سانس لیا ۔حضرت سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
کہ چھٹی وساتویں صدی میں انسانی معاشرہ کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت تھی
وہ یہ کہ ان کے پاس قائد و رہبر و راہنما عنقا ہوگیا تھا ۔اسلام نے انسانی
معاشرہ کو مثالی معاشرہ بنانے کے ساتھ ہی مثالی و عظیم قائد بھی فراہم کیا۔
مندرجہ بالاتحریر میں مختصر یہ ذکر کر دیا گیا کہ انسانی معاشرہ کے پنپنے
اور پھلنے پھولنے کے لیے اچھے رہبر و قائد کی ضرورت ہوتی ہے انسانی معاشرہ
کی اس ضرورت و کمی کو اسلام ہی نے مکمل کیا۔آج چودہ سوسال گزرنے کے بعد وہی
اسلامی آج قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔آج کے مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ
لیں گے کہ یہ کمی کیوں پیدا ہوئی ؟؟؟اور اس کو کونسا طبقہ
پوراکرسکتاہے؟؟؟عالم اسلام کے پاس اسلام کے دامن عافیت کے سبب بے شمار عظیم
قائد و رہبر آئے جنہوں نے براہ راست نبی آخرالزمان صلی اﷲ وعلیہ وسلم سے
فیض حاصل کیا یا پھر تعلیمات نبوی سے روشنی و راہنمائی حاصل کی۔پورا عالم
مسلمانوں کی قیادت میں طویل مدت تک رہا۔مسلمانوں کو ایسی شان و عظمت ملی کہ
جس کو دیکھ کر تاریخ دان بھی عش عش کر اٹھتے ہیں۔مگر یہ رفعت وعظمت رفتہ
رفتہ کم ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اسلام و مسلمان سامراج کے ہاتھوں غلامی کی
بدترین حالت سے دوچار ہوگئے ۔ان اسباب کوتفصیلاًذکر کرنا ممکن نہیں مختصرا
اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مسلمانوں نے اپنی اسلام کے ساتھ وابستگی میں غفلت
وکوتاہی سے کام لیناشروع کردیااور آپس میں لسانی ،قومی،سیاسی ومذہبی اور
علاقائی تفرقہ بازی کو اپنا شعار بنالیا،مسلمان عیش و عشرت اور جاہ حشمت کے
دلدادہ بن گئے اور اسلامی تعلمات سے یکسر چشم پوشی اختیارکرلی۔
ایسی ہی صورت حال سے وہ تعلیمی ادارہ بھی گزررہاہے جو کہ1980میں اسلام کے
نام سے منسوب کر کے وجود میں لایاگیا۔قائد ورہبر کی تیاری تعلیمی اداروں سے
ہی ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے ملک اسلام آبادپاکستان میں اسلام کے نام پر خالص
تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی کہ اس ادارہ عالم کفر کے مدمقابل عالم
اسلام کے ترجمان تیار کیے جائیں گے۔اور وہ ہر طرح عصر حاضر کے تقاضوں اور
دین متین کی تعلیمات سے مسلح ہوکر پورے عالم میں اسلام کی ترجمانی کریں
گے۔مگر تیس سال گزرچکنے کے بعد اب تک یہ جامعہ ملت اسلامیہ کو حقیقی معنوں
میں رہبر و قائد فراہم نہ کر سکی ،دوسری جامعات کی طرح یہاں سے بزنس مین ،انجینئر،صحافی
و وکلا ،پروفیسروغیرہ تمام شعبہ جات سے ماہرین نکلے ہیں ۔مگر ان میں اسلام
کا ترجمان کوئی نہ بن سکا،وکلا عدالتوں میں کوئی تبدیلی برپاکرنے کی بجائے
اسی کرپٹ ماحول سے مانوس ہوگے،بزنس مین اپنے بزنس کو عروج بخشنے میں جھوٹ و
غلط بیانی کو ہتھیار بناکرشب و روز ایک کیے ہوئے ہیں ،پروفیسر و استاذ نئی
نسل کو تختہ مشق بناکر اپنی علمی حیثیت منوانے کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھے
ہوئے ہیں۔تفصیلات پیش کرنے سے عاجز ہوں مگر یہ ایک حقیقت ہے اور اس جامعہ
سے نکلنے والوں کی اکثریت معاشرہ کے زخمی بدن پر مرہم رکھنے کی بجائے اس پر
نمک پاشی کررہے ہیں اور یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ معاشرہ میں فساد فی
الارض کا اضافہ کرنے والے تیار ہورہے ہیں۔
خاص طور پراس امر کے پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کو 9/11کے
بعد سے سبھی لوگ اپنی منشا کے مطابق دیمک کی طرح کھوکھلاکرنے میں مصروف عمل
ہیں کہیں علاقائیت کی روسے تو کہیں قومیت کی جانب سے اور کہیں مسلکیت و
سیاست کی روسے اس یونیورسٹی کی اہمیت و حیثیت کو مٹایاجارہاہے۔کسی نے اس
یونیورسٹی کو سیکولر بنانے کی کوشش کی تو کسی نے اس یونیورسٹی کو چند
خاندانوں کی یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی ۔کسی نے اس یونیورسٹی میں سیاسی
مقاصد و مفادات کے لیے شیعہ ازم کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس
یونیورسٹی کو سلفی و وہابی یونیورسٹی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں
کیا۔جب کہ شعبہ تعلیم کی کیفیت وحالت یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کی اساسی
فیکلٹی اصول الدین میں خصوصی طور پر من پسند اساتذہ کا تقرر عمل میں
لایاجاتارہاہے ۔جب کہ یہ حقیقت ہے کہ اسی فیکلٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ
اسلام کے ترجمان حقیقی اور ملت کے رہبر بننے کے حقدار ہوتے ہیں مگر افسوس
ان کو تریت کرنے کے لیے جن اساتذہ کو مامور کیا جاتاہے وہ خود علمی و عملی
اور اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں۔اگر میں یہ کہوں تو غلط
نہ ہوگا کہ عربی و انگریزی بول چال یابھاری بھر کم اسناد یا پھر سفارش و
اقرباپروری یا مسلک پرستی کو معیار بنا کر اساتذہ کا تقرر تو عمل میں
لایاجاتاہے مگر ان کی تدریس یا اخلاقی تربیت اور طلبہ کے ساتھ رویہ کو
بالکل نظر انداز کردیاجاتاہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسلامی یونیورسٹی حقیقت میں اسلام کی خدمت کرنا چاہتی
ہے تو اپنے تمام امور پر از سر نونیک نیتی کے ساتھ غور و فکر کر ے اور اپنے
درمیان موجود تمام خامیوں کو دور کر ئے اصول الدین فیکلٹی کے طلبہ جو کہ
امت کے حقیقی رہبر و راہنما بن سکتے ہیں ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی
بجائے باصلاحیت اور ماہرین فن عرب اساتذۃ کا تقرر عمل میں لایاجائے بصورت
دیگر اس یونیورسٹی کی نہ تو اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کے دعویداربننے کی
ضرورت ہے اور نہ ہی اس میں عصری تعلیم دینے کی احتیاج باقی ہے کیوں کہ اس
کام کے لیے ملک پاکستان میں دینی مدارس اور عصری جامعات وافر مقدار میں کام
کررہے ہیں اور ہمیں ان کے کسی کام سے شکوہ و شکایت نہیں بعد اپنی اسلامی
یونیورسٹی میں اسلام کو مظلوم حالت میں دیکھ چکنے کے……………………! |