اسلام دنیا کا وہ واحد آفاقی و لافانی مذہب ہے جس نے جہاں
زمان و مکان اور زمین و آسمان کی وسعتوں میں موجود خزانوں کی نقاب کشائی و
تشریح کی ‘ وہیں کائنات کی وسعتوں و جہتوں کو مسخر کرنے کے اسرار سے پردہ
اٹھانے کے ساتھ ساتھ انسان کو معیشت ومعاشرت ‘ تجارت و صنعت‘مبادیت و
معاشرت اور تعلقات و ازدواجیات سے لیکر تہذیب و ثقافت تک ہر سمت میں
رہنمائی کرتے ہوئے مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے اور اسلام کے فراہم کردہ
ضابطہ حیات کی سب سے بڑی خصوصیت وخاصیت یہ ہے کہ اس میں حاکم و محکوم ‘ آقا
و غلام ‘ آجر و اجیر اور مرد و زن ہر ایک رشتے کے درمیان توازن و مساوات کے
قیام کے ذریعے عدل فراہم کیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی انسان کسی بھی رشتے کی
شکل میں دوسرے انسان سے شاکی نہ ہو اور رب کی طرح انسانوں کا بھی شکر گزار
رہے اور یہی شکر گزاری محبت و احترام کے اسباب پیدا کرتی ہے مگر افسوس کہ
آقائے نامدار محمد مصطفی ﷺ کی دنیا سے پردہ داری کے بعد صحابہ و اولیاءکرام
کی کوششوں اور آل علی ؓ کی قربانی کے باوجود اہل ایمان اسلام کے بنیادی
اصول مساوات کو فراموش کرتے چلے گئے اور نبی کریم کی جانب سے قیامت تک
کیلئے رشدوہدایت عطا کرنے والے تحفے قرآن کریم سے استفادہ کی بجائے سرداروں
اور بڑے لوگوں کے منافقانہ افعال کو”روایات“ کے نام پر ایمان کا درجہ دے
بیٹھے تو بے راہروی ان کا مقدر بنی اور مسائل نے انہیں اس طرح جکڑ لیا کہ
مفاد پرستی ‘ نفسانفسی ‘ افراتفری اور انا و تکبر کا زہر اس کے رگ و پے میں
سرایت کر گیا جس کے نتیجے میں اس استحصال نے جنم لیا جس سے آج ہمارا معاشرہ
دوچار ہے اور استحصال کے اس عفریت کی خوراک چونکہ محبت و احترام ہے لہٰذا
اس کی نسل کشی ہورہی ہے اور اس عفریت کی کوکھ سے جنم لینے والی نفرت بہت
تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔
آج ہمارے چہار سو نفرت کے ڈیرے ہیں احترام و محبت مفقود ہوچکے ہیں اور عزت
و تقدس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ‘ ہر انسان دوسرے انسان کا استحصال کر کے ‘
اسے پریشان کر کے ‘ اسے قربان کر کے اپنی ذات کی تسکین میں مگن ہے اور ان
نتائج سے بے پرواہ ہوچکا ہے جن کا شکار اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بننا
ہے کیونکہ انسان آج جو کچھ بو رہا ہے اسکی کھیتی اس کی اولادوں کو کاٹنی ہے
جبکہ نفرت و استحصال کے بوئے ہوئے بیجوں پر محبت و احترام کی فصل لگنے کی
توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس ماحول میں آدم کی تنہائی کے آنسوؤں کی اشک شوئی کیلئے قبولیت دعا کے صلے
میں جنت سے بطور تحفہ آدم کی تنہائی مٹانے کیلئے بھیجی جانے والی حوا کی وہ
بیٹی جو اس زمین پر نسل انسانی کی افزائش کا باعث ہے اس دنیا کو محبت سے
سجانے اور نفرت کی آگ بجھانے کیلئے وہی سعی کررہی ہے جو ”نارِ نمرود“
بجھانے کیلئے ایک چڑیا نے کی تھی اور جب چڑیا سے کہا گیا کہ ”تیری چونچ میں
موجود پانی کا ننھا سا قطرہ کیا ابراہیم کے گرد دہکائے گئے اس الاؤ کو
ٹھنڈا کردے گا “۔
تو اس نے جواب دیا کہ
”میں جانتی ہوں میرے چونچ میں موجود پانی کے ننھے قطرے کی اس نارِ نمرود کے
سامنے کوئی بساط و اوقات نہیں ہے اور اس آگ کا کچھ بگاڑنے کی بجائے خود فنا
ہوجائے گا مگر میں اس آگ کو بجھانے کیلئے اپنا فرض تو ادا کرسکتی ہوں باقی
اللہ کی رضا کہ میری اس سعی کو کیا مقام ملتا ہے اوراسے کامیابی کی منزل
عطا ہوتی ہے یا نہیں ! “۔
یہ ہے عورت کا وہ کردار جو دنیا کی ہر مخلوق میں تقریباً یکساں ہے ! چاہے
وہ انسان ہو‘ حیوان ہو ‘ چرند ہو‘ پرند ہو درند ہو یا حشرات ‘ وہ مخلوق آب
ہو ‘ مخلوق خاک ہو ‘ مخلوق باد ہو مخلوق آتشی ہو یا اشرف المخلوقات حضرت
انسان ہر مخلوق میں موجود”مادہ“ جسے انسانوں میں ”خاتون“ (WOMEN) کہا جاتا
ہے ‘ محبت و فرض کے اسی خمیر سے گوندھ کر بنائی گئی ہے !
اور شاید اسی لئے علامہ اقبال جیسا دانا و مفکر بھی یہ بات کہنے پر مجبور
ہوگیا تھا کہ
”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ “۔
مگر آج کا انسان جو پیغام محمدی کو بھول کر ‘ رضائے الٰہی کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے قرآن کریم کو ”زینت طاق “ بناکر رشدو ہدایت سے محروم ہوچکا ہے
‘ایک بار پھر جہالت کی انہی اندھی وادیوں میں گم ہے جس سے عربوں کو باہر
نکالنے کیلئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی شمع کے ساتھ
آسمان سے اس زمین خاک پر مبعوث کیا گیا تھا۔
آج کا انسان ہر سطح پر ہر ایک کا ہر طریقے سے استحصال کر رہا ہے جس کی وجہ
سے دہشت گردی ‘ بد امنی جیسے قبیح جرائم پیدا ہورہے ہیں جن پر انسانیت نوحہ
کناں ہے ‘ یہی نہیں بلکہ صنفی مساوات کا بھی خون کر کے اس ہستی کی ناقدری
کر رہا ہے جسے قبولیت دعا کے شرف میں بطور نعمت رفیق زندگی بناکر آدم کو
نوازا گیا اور جو اگر ماں ہو تو محبت ‘ خدمت ‘ تربیت ‘ چاہت ‘ اخلاص اور
قربانی کے جذبوں سے مزین ایسی شفیق ہستی ہوتی ہے جس سے رب کو بھی پیار ہے
تبھی تو اپنے محبوب کی شفاعت سے جنت کو منسوب کرنے والے نے”ماں“ کے قدموں
تلے جنت کی بشارت دی ہے یعنی جو ماں سے محبت کرے گا سمجھو وہ رب کی اطاعت
کرے گا اور رب کی اطاعت کرتا ہے وہ یقیناً جنتی ہوتا ہے لیکن سوچو کہ جو
ماں کا نافرمان ہو یا اسے تکلیف پہنچائے تو پھر رب تعالیٰ اس سے کیا سلوک
کرے گا ؟
یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس پر فکر کرنے کی کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت !
عورت ہی ہے جسے ماں جیسا شفیق روپ دینے کے بعد رب نے بیوی کی صورت شریک
حیات بنا کر زندگی گزارنے میں آسانیاں فراہم کرنے ‘ پیٹ و نفس کی تسکین کے
جائز ذرائع فراہم کرنے اور وفا و خدمت کے ساتھ تکمیل آدمیت کے ذریعے افزائش
انسانی کا کارنامہ انجام دینے پر بھی مامور کیا گیا ہے !
بہن کی صورت بھائی پر مر مٹنے کا جذبہ رکھنے والی یہ عورت جب بیٹی کے روپ
میں ڈھلتی ہے تو وہ نعمت بن جاتی ہے جسے جنت کے دروازوں سے تعبیر کیا گیا
ہے !
مگر وائے ری قمست ! کہ عورت کے حصے میں رکھے گئے فرائض تو ہمارے معاشرے نے
تسلیم بھی کئے اور اس پران کا بوجھ ضرورت سے زیادہ ڈالا بھی گیا مگر اس کے
حقوق سے کسی کو کوئی سروکار نہیں !
آج کا انسان اور بالخصوص ہمارے مشرقی معاشرے کا انسان تہذیب یافتہ معاشرے
کی اصل بنیاد عدل‘ انصاف ‘ احسان اور مساوات سب کو فراموش کر کے جس طرح سے
صنفی استحصال کر رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب کو جہالت کی جن تاریکیوں
سے نکالا گیا تھا وہ پھر سے لوٹ آئی ہیں۔
عورت جس کے بارے میں حکم ربی ہوا تھا کہ یہ مارنے ‘ پیٹنے ‘ تشدد کرنے ‘
زندہ دفنانے یا نفسانی بھوک مٹانے والی کوئی جنس نہیں بلکہ اسی طرح سے اللہ
کی زندہ مخلوق ہے جس طرح سے مرد اور چونکہ گھر کی تزئین و آرائش سے بچوں کی
افزائش اور اولاد کی تربیت سے اخلاق و کردار کی تعمیر تک عورت پر ہر شعبہ
میں فرائض وذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اسلئے اس کی فطرت میں قدرت نے محبت
‘ محنت اور خدمت کے جذبات کو بھی 70گنا زیادہ رکھا ہے لہٰذا احکامات الٰہیہ
اور فرمودات نبوی میں عورت کی تعظیم و تکریم کے بارے میں بار بار ارشادات
اس کی لازمیت و اہمیت کو ثابت کر رہے ہیں۔
دنیاوی علم سے لو لگا کر تعیشات کو تہذیب کا نام دینے والا دورِ جدید کا
انسان ‘ آج بھی کسی جنگلی ‘ وحشی اور دورِ قدیم کے کسی خونخوار جانور سے کم
نہیں ہے فرق صرف اس کے لباس و آداب اور طرز معیشت و معاشرت کا ہے انسان آج
بھی اندر سے ویسا ہی جنگلی و وحشی ہے جیسے عرب کے لوگ تھے جو اپنے جذبوں کی
تسکین کیلئے ہمیشہ اپنی عورت کو استعمال کیا کرتے تھے چاہے وہ جذبے نفسانی
ہوں ‘ وحشی ہوں ‘ انتقامی ہوں ‘ انا پرستی کے جذبات ہوں یا کاروباری مفادات
ہر جگہ عورت کو نوالہ بناکر اپنے جذبوں کی تسکین کی جارہی ہے۔
تہذیب یافتہ کہلائے جانے والے اس دور میں جب عالمی سطح پر ماؤں کے دن کے
ساتھ ساتھ ”خواتین کا عالمی دن“ بھی منایا جاتا ہے‘ تقاریر و مذاکرات‘ محفل
‘ مذاکرے اور مناظرے ہوتے ہیں اور عورت کی تعظیم و تقریر کے گن گائے جاتے
ہیں ‘ اس کی آزادی کی بات کی جاتی ہے ‘ مساوات کا راگ الاپا جاتا ہے اور
تصاویر بنوا کر عورت کی عظمت و تقدس کا امین ثابت ہونے والا تہذیب یافتہ
معاشرے کا فرد ہونے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کا یہ متمدن و تہذیب یافتہ معاشرہ جہاں عورت اپنے فرائض
سے بڑھ کر ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے۔ گھر سنبھالنے ‘ بچوں کی تربیت کرنے
‘ شوہر کو خوش رکھنے اور سسرالیوں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت و محنت
کے ذریعے گھر کی کفالت کر کے طب و تعلیم سے تجارت و معیشت تک ‘ بنکنگ سے
ٹریولنگ تک اور دفاع سے ٹیکنالوجی تک ہر شعبہ میں ملک و قوم کی ترقی میں
بھی اپنا ذمہ دارانہ اور فعال کردار ادا کرنے والی اس عورت کو گھر سے دفتر
تک ‘ درسگاہ سے رسدگاہ تک کہیں تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ہر شعبہ میں ہر سطح پر
اس کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم تہذیب و تمدن
یافتہ معاشرے کا حصہ ہیں کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک متمدن اور تہذیب یافتہ
نہیں ہوسکتا جب تک وہاں جنسی مساوات ‘ عورت کا احترام اور معاشرے کے ہر فرد
کو آزادی و مکمل تحفظ حاصل نہ ہو۔
ہمارا مشرقی اور بالخصوص پاکستانی معاشرہ تو کسی بھی طور تہذیب یافتہ
کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں بھائیوں کی جان
بخشی کیلئے بہنوں کو ”وَنی “ کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے تو دوسری جانب
بیٹیوں کو کاری قرار دے کر اسی کی عزت کے رکھوالے اسے بے عزتی کی موت کا
شکار کر رہے ہیں ‘ آبرو ریزی ‘ تیزاب پھینکے جانے ‘ تیل ڈال کر جلا دیئے
جانے ‘ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔باپ ‘ بھائی ‘ شوہر اور
بیٹوں سمیت دیگر رشتہ داروں کے ہاتھوں عورت پر تشدد ‘ قتل اور اس کا جنسی ‘
معاشرتی ‘ معاشی استحصال معاشرے میں روایت کے طور پر موجود ہے جبکہ خاندان
کی کفالت کیلئے گھر ‘ دفتر ‘ فیکٹری اور دیگر صنعتی و تجارتی ‘ تعلیمی و
طبی اور خدمات کے اداروں میں فرائض انجا دینے والی خواتین مردوں سے کم
معاوضہ اور زیادہ محنت کے ذریعے ثابت کیا جارہا ہے کہ عورت کو اس معاشرے
میں کیا حیثیت و مقام حاصل ہے اور کس طرح سے اس پر جسمانی و جنسی ہی نہیں
بلکہ معاشی و معاشرتی تشدد بھی عام ہے اور اسے روکنے والا کوئی بھی نہیں !
عورت کی اس حالت و استحصال اور معاشرے کی دوسری صنف کا اس صنف کے ساتھ رویہ
دیکھ کر شاید قدرت بھی شرمندہ ہے کہ میں نے اپنی اس مخلوق کو اشرف
المخلوقات کیونکر کہہ دیا جسے نہ پاس وفا ہے ‘ نہ حرمت حیا ‘ نہ ادبِ خدمت
ہے اور نہ ہی احترام نسوانیت ‘ اس سے بہتر تو وہ حیوان ہے جو اپنی ”مادہ “
کی حفاظت کیلئے خود سے کئی گنا بڑے درندے سے بھی ٹکرا جاتا ہے اور اس اشرف
المخلوقات سے بہتر جو وہ جانور ہیں جو نر آپس میں کسی بھی طرح لڑیں مگر
کبھی کوئی نر کسی مادہ سے لڑتا ہے نہ اس پر حملہ آور ہوتا ہے !
تذلیل نسوانیت کے اس عہد میں ہر حکومت نے خواتین کے حقوق کے نام پر قوانین
بنائے بینظیر بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں خواتین کو انصاف کی فراہمی کیلئے
پولیس اسٹیشن قائم کیا ‘ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کوٹے میں اضافہ کیا ‘
بنک لون اور روزگار اسکیم میں خواتین کا حصہ رکھا ‘ وومین بنک کو خواتین کی
معاشی خود مختاری کیلئے کام کا پابند بنایا اور خواتین سے زیادتی کے خلاف
قوانین سازی ے زریعے انہیں محفوظ کرنے کی جانب مثبت قدم بڑھا یا ۔میاں
نوازشریف کے سابقہ ادوار حکمرانی میں بھی خواتین کے حوالے سے اقدامات کئے
گئے جبکہ آمر کہلانے والے سابق آرمی چیف و صدر پاکستان پرویز مشرف کے دور
میں بھی خواتین کے حوالے سے کئی قوانین بنائے گئے جبکہ پارلیمنٹ میں بھی
خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کرکے ان کی نمائندگی کو پارلیمنٹ میں یقینی
بنانے کی کوشش بھی گئی ۔ آصف علی زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کے سابقہ
اقتدار میں بھی خواتین کو تحفظ کی فراہمی کی ضمانت کے طور پر ”تحفظ نسواں “
کے عنوان سے ایک بل اسمبلی سے پاس کرا کر اسے قانون کا درجہ دیاگیا جس کے
تحت سرکاری و غیر سرکاری اورنجی وکاروباری ‘ تجارتی ‘ اقتصادی ‘ صنعتی ‘
معاشی ‘ تعلیمی ‘ طبی ‘ فلاحی اور صحافتی اداروں سمیت دیگر تمام اداروں میں
کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے یا ان کے ساتھ غلط رویہ یا تحقیر آمیز
سلوک روا رکھے جانے کو جرم قرار دیکر اس جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی
کاروائی کی ضمانت فراہم کی گئی اور اب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے
مذہبی امور نے جرگوں میں خواتین کیخلاف ہونے والے پرتشدد فیصلوں کیخلاف
قرارداد مذمور کرلی ہے اور سندھ حکومت نے ”حقوق نسواں “ بل کا دائرہ کار
تعلیمی داروں تک بڑھاکر طالبات کو بھی ہراساں کرنے واقعات کی روک تھام کی
منصوبہ بندی کرلی ہے مگر افسوس کہ دیگر قوانین کی طرح خواتین کے تحفظ ‘
معاشی خود مختاری ‘ ترقی اور مساوی حقوق کیلئے بنائے جانے والے تمام قوانین
ہر دور میں دیگر قوانین کی طرح محض قانون ہیں اور پاکستان کی روایت قوانین
پر یکساں عملدرآمد کی تاریخ سے محروم ہے کیونکہ تمام قوانین حکمرانی اور
استحصالی طبقے کے تحفظ کیلئے بنائے جاتے ہیں جن کا فائدہ ہمیشہ صاحب اقتدار
وصاحب ثروت افراد کو ہی ہوا کرتا ہے سو ”حقوق نسواں “ کا قانون بھی روایتی
رویوں کا شکار ہوکر عملدرآمد سے محروم ہے اور خواتین آج بھی اسی ظلم ‘
استحصال ‘ تشدد ‘ خراب ماحول اور جبر سے دوچار ہے جو صدا سے اس کا مقدر ہے
کیونکہ محض قوانین سازی سے مسائل حل نہیں ہوتے ‘ ان قوانین پر عملدرآمد بھی
ضروری ہوتا ہے اور طبقاتی تضاد کے شکار اس معاشرے میں جہاں عدل اور انصاف
مہیا ہی نہیں وہاں قانون پر عملدرآمد کس طرح ممکن ہے اسلئے حکومت اگر
”خواتین کے عالمی دن “ کے موقع پر عوام کو ”تحفظ نسواں قانون “ پر عملدرآمد
کا وہ تحفہ پیش کرے جس کے تحت اس قانون کی پامالی کرتے ہوئے عورت کا کسی
بھی طرح استحصال کرنے والے کے خلاف تادیبی کاروائی یقینی ہو چاہے وہ کسی
بھی طبقے ‘ کسی بھی سطح یا سی بھی عہدے و پیشے سے تعلق کیوں نہ رکھتا اور
اگر حکومت نے ایسا کردیا تو پھر یہ مساوات کے معاشرے کی جانب پہلا قدم ہوگا
اور مساوات کا معاشرہ ہی تمام مسائل کا حل ‘ مصائب سے نجات‘ عدل و انصاف
اور عوام و مملکت کی فلاح کی ضمانت پیش کرتا ہے !
تو آ ج کا ”خواتین کا عالمی دن “ حکومت سے مساوات کے معاشرے کے قیام کے لئے
عورت کو حفاظت کی ضمانت دینے والے ”حقوق نسواں بل “ پر بلا کسی تخصیص و
تفریق فوری عملدرآمد کامتقاضی ہے !
خود کش حملوں و بم دھماکوں کو غیر اسلامی ‘ غیر شرعی و غیر آئینی قرار دینے
کے بعد طالبان کو دہشتگرد قرار دینے اور ان کیخلاف فوجی آپریشن کی تیاریاں
کرنے والے حکمرانوں نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے اور اس بار
طالبان نے بھی مذاکرا ت سے قبل اعلان جنگ بندی اور اس پر پابندی کا یقین
دلاکر ان مذاکرات کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا ثبوت یا ہے جو امن کیلئے
یقینا خوش آئند ہے اور قوم ان مذاکرات کی کامیابی و مستقل امن کیلئے دعا گو
ہے مگر مذاکرات کی کامیابی دونوں جانب کے تحفظات کے خاتمے سے مشروط ہے اور
موجودہ نظام میں رہتے ہوئے دونوں جانب کے تحفظات کا خاتمہ ایک طویل و وقت
طلب امر ہے جبکہ نظام تبدیل کرنا تھکادینے والا پراسس ہے جو مہینوں کا نہیں
بلکہ سالوں کا محتاج ہے اسلئے مذاکرات سے فوری نتائج کی توقع کرنے کی بجائے
ان کے تسلسل کو قائم رکھنے کی زیادہ ضرورت و اہمیت ہے لیکن حکومت گر چاہے
تو طالبان کے زیر اثر علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی ‘ تعلیمی اداروں
کی بندش کے خاتمے ‘ تعلیمی اداروں کو نقصان نہ پہنچائے جانے اور خواتین کو
تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹیں نہ ڈالنے کیلئے طالبان کو رضامند کرکے اس یوم
خواتین پر باجوڑ ‘ وانا ‘ وزیرستان ‘ سوات اور دیگر علاقوں کی خواتین کو
تعلیم کے حصول کی آزادی کا تحفہ بھی دے سکتے ہیں اور ہمارے خیال میں
حکمرانوں کی جانب سے خواتین کو تعلیم کے حصول کی آزادی کے ساتھ معاشی خود
مختاری کے مواقع کی فراہمی اور جنسی و معاشی تشدد سے نجات سے زیادہ بہترین
تحفہ اس ”عالمی یو م خواتین “ پر کوئی اور نہیں ہوسکتا ! |