دنیا میں لا تعداد ثقافتیں ہیں
جن کا ایک مسلمہ وجود ہے ۔ ثقافت کا انکار یعنی کسی زبان و ثقافت کو تسلیم
نہ کرنا تنگ نظری کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ تعصب ثقافتوں کے درمیان مستقل
تفریق کو جنم دیتا ہے ۔ اسی رویے سے ثقافتیں مستقل اور ہمیشہ کیلئے باہم بر
سر پیکار ہو جاتی ہیں ۔ جن کا نتیجہ خوں ریزی کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتا
ہے ۔ کسی بھی ملک میں غیر جانبدار اسٹیبلشمنٹ کا ہونا ثقافتوں اور زمانوں
کے درمیان محبت کی فضاء قائم رکھنے کا بہتر طریقہ ہے ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ
مخصوص زبان و ثقافت کی حامی ہوگی تو یقینا مختلف اقوام کے ساتھ نا انصافی
ہوگی ۔ ( یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ’’قوم‘‘ ثقافت اور زبان رکھنے والے افراد
کو کہا جاتا ہے ۔ یہ اصطلاح صرف میری حد تک ہے ۔ دیگر دانشور اور ادیب
اختلافی رائے بھی دے سکتے ہیں جو ان کا حق ہے ۔ متفق بھی ہو سکتے ہیں
ثقافتوں کے ساتھ ظلم ، ملک کو کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ اندرونی انتشار پیدا ہو
جاتے ہیں ۔ نفاذقانون کے ذمہ دار ادارے ان کا روائیوں میں اپنے ناقص نظام
کے نتیجے میں ان اقوام پر ماورائے قانون کا روائیاں شروع کر دیتے ہیں جو
پہلے ہی ظلم کا شکار ہوتی ہیں ۔ جیسا کہ بلوچستان میں وسائل کی غیر منصفانہ
تقسیم اور وہاں کی معدنیات کی مرکزو وفاق پرست قوتوں کی طرف سے لوٹ مار اور
سرکار کے مراعات یافتہ اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ سرداروں کے ظلم و ستم نے
بلوچوں کو آزاد بلوچستان کے نعرہ پر مجبور کر دیا ۔ انجام میں بلوچستان ایک
شورش زدہ علاقہ قرار دیا جا چکا ہے ۔ اس میں قصور کس کا ہے ۔۔۔۔؟ صرف اور
صرف اسٹیبلشمنٹ ( مرکز و وفاق پرست قوتوں )کا ۔ اگر بلوچستان کو وسائل مہیا
کئے جاتے تو آج بلوچستان امن کا گہوارہ ہوتا ۔ اسی طرح سندھیوں کو بھی
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے محروم رکھا ۔ جس کا انجام آج دنیا کے سامنے ہے ۔
وہاں بھی آزادی کی تحریکیں وجود پا چکی ہیں ۔ آئے روز ریلوے پٹڑیوں پر بم
دھماکے ہو رہے ہیں ۔ اسلام آباد کے وسائل تو سندھیوں کے لئے ہیں ہی بند ۔
کیوں کہ اسلام آباد ہے ہی پنجاب والوں کا ۔ جو خود کو ہی پاکستان کی اعلیٰ
نسل قرار دیتے ہیں۔ اس اسٹیبلشمنٹ کا طریقہ واردات انتہائی غیر منصفانہ ہے
۔ ادھر پشتون خطے میں جاری قتل و غارت اسی متعصب فکر کا نتیجہ ہے۔ پشتون
خطے میں جاری خوں ریزی او طالبانائزیشن کے اصل محرکات کا تجزیہ کیا جائے تو
نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک امریکی ایجنٹ ، اسلام دشمن اور آمر ضیاء الحق نے
امریکی خو شامد اور انتہائی تنگ نظر طبقے ( ملاؤں ) کی خو شنودی حاصل کرنے
کیلئے پشتون خطے کو استعمال کیا ۔ اس طرح سب سے پہلے مخصوص فرقو ں کی مالی،
افرادی ار دیگر امداد ( تربیت ) کر کے بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کی ۔ پشتون
ثقافت پر یہ حملہ زہر قاتل ثابت ہوا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہاں
اب کہیں موسیقی کو غیر مشروع ( غیر شرعی ) تو کہیں ثقافتی اجتماعات کو
شریعت کے خلاف قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ اقتدامات اصل میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ
( جو ملک میں اقتدار پر کلی اختیار رکھتی ہے ) کے وہ ناپاک ہتھکنڈے ہیں جن
کو بنیاد بناتے ہوئے اس نے دیگر اقوا م کو مسخر کر رکھا ہے ۔ یہ تسخیر فقط
وسائل تک تو ہو سکتی ہے ۔ لیکن ثقافتی بنیادوں پر نہیں ۔ وہ ا س لئے کہ
پنجابی کوئی ثقافت ہی نہیں ہے ۔ اور نہ اسے زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔
پنجابی زبان یقینا زبانوں کے بگڑے ہوئے لہجے کا نام ہے ۔ موجودہ پنجاب میں
پنجابی زبان انتہائی کم سطح پر بولی جاتی ہے ۔ جبکہ رچ کلچر ڈ سرائیکی زبان
ہے ۔
اس تمہید کا مقصد کچھ دلائل دینا تھا کہ کس طرح دیگر اقوام پر پنجاب کی
بالا دستی قائم ہے ۔ کس طرح گن پوئنٹ پر اقوام کے وسائل پر قابض ہے ۔ یہ نا
انصافی جو نتیجہ لائے گی مستقبل قریب و بعید میں اس کی کڑواہٹ محسوس ہو رہی
ہے ۔ اتوار 26جنوری 2014ء کو مستقل کالم ’’ آواز پنجاب ‘‘ کے تحت کالم نگا
مدثر اقبال بٹ نے ’’پنجابی طالبان اور آپریشن ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا
جس میں کالم ر نگا نے یہ کالم اسٹیبلشمنٹ/ ملٹری کے نمائندہ کے طور پر لکھا
اور خود کو اس طاقت کا ترجمان ظاہر کیا ۔ مدثر اقبال بٹ کے لب و لہجے سے
میں تو اسی نتیجے پر پہنچا ہوں ۔ دیگر آرا مختلف بھی ہو سکتی ہیں ۔ کالم
میں بٹ صاحب نے اس پر اظہار ناراضگی کیا گیا کہ ’’طالبان تو ہر علاقے سے
سامنے آئے ہیں یا ان کی تخلیق ہوئی ہے ۔ لیکن ’’پنجابی طالبان ‘‘کو ہی ہائی
لائٹ کیوں کیا جاتا ہے ۔ اور فورا ً ہی تعصب کی عینک ناک پر رکھتے ہوئے
سرائیکیوں کو مشق ستم کا نشانہ بناتے ہیں ’’ اور پھر یہ کہ پوری دنیا اس
حقیقت سے آگاہ ہے کہ وہ جو پنجابی طالبان بنے ان کا تعلق پسماندہ جنوبی
علاقوں سے ہے اور ان کی زبان و ثقافت سرائیکی ہے تو انہیں سرائیکی طالبان
کیوں نہیں کہا جاتا ۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ جو ’’ سرائیکستان ‘‘ کے دعویدار
ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سرائیکی ایک علیحدہ زبان ہی نہیں ایک علیحدہ
ثقافت بھی ہے ۔ وہ ان طالبان کو اپنا کیوں تسلیم نہیں کرتے ۔۔۔؟ اور وہ قوم
پرست جماعتیں جو سرائیکی وسیب کے علیحدہ صوبے کی ڈیمانڈ کرتی چلی آ رہی ہیں
وہ بھی ان کو سرائیکی طالبان کہہ کر کیوں نہیں پکارتیں ۔۔۔؟ یہ منافقت نہیں
تو اور کیا ہے ؟ اسی پیرا گراف میں ایک سطر چھوڑ کر کالم نگا ر نے لکھا کہ
’’ اول تو میرے نزدیک سرائیکی کوئی علیحدہ ثقافت نہیں بلکہ پنجاب کی ثقافت
کا ہی ایک عکس ہے ‘‘ ۔ جب مدثر اقبال بٹ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ
طالبان ہر علاقے سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس سے میں سو فیصد متفق ہوا ہوں ۔ بعد
میں انہوں نے سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کو ’’ سرائیکی
طالبان کہا ہے اور ان انتہا پسند عناصر ( طالبان ) کو سرائیکی زبان و ثقافت
کا حامل کہا ہے ۔ جبکہ طالبان کی کوئی ثقافت ہے ہی نہیں ۔ یہ عناصر تو کھلم
کھلا ثقافت کے دشمن ہیں ۔ اس لئے انہیں سرائیکی کہنا سرائیکیوں کو ستم کا
نشانہ بنانا ہے ۔ سرائیکی ثقافت کی آواز بلند کرنے کے جرم میں انتقام کا
ہدف بنانا ہے ۔ مدثر اقبال بٹ کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے ۔ ایک مقام پر
سرائیکیوں کو علیحدہ زبان و ثقافت تسلیم کیا جبکہ دوسری جگہ اس حقیقت سے
انکار کر دیا ۔ سرائیکی ثقافت کو پنجاب کی ثقافت کا ہی عکس کہہ دیا۔
اگر پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور افسر شاہی کایہی وطیرہ رہا تو اقوام میں احساس
محرومی بڑھتا ہی رہے گا۔ جس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ اقوام کو مکمل
حقوق اگر ملتے رہے تو عظیم اتحاد وجود میں آکر ملک کو مستحکم کر دے گا ۔جو
فطری تقاضا ہے ۔ |