کسی جنگل میں ایک تالاب کے اندر
تین مچھلیاں رہتی تھیں ۔ ایک دن چند شکاری اس جنگل میں آئے ،انھوں نے جب اس
تالاب میں یہ مچھلیا ں دیکھیں تو انھیں پکڑنے کے لئے جال کا انتظام کیا ۔
مچھلیوں نے شکاریوں کی اس نیت کو بھانپ لیا اور ان سے بچنے کی تدبیریں
سوچنے لگیں۔
ان مچھلیوں میں سے ایک مچھلی بہت زیادہ سمجھدار تھی اس نے شکاریوں سے بچنے
کے لئے بہت ہی مشکل اور دشور راستے پر سفر کرنے کا ارادہ کیا اس نے سوچا کہ
اگر میں اس سلسلے میں کسی سے مشورہ کرتی ہوں تو دوسری مچھلیاں مجھے کمزور
اور سست کردیں گی ان کی سستی اور نادانی کی وجہ سے کہیں میں مصیبت میں نہ
پھنس جاؤں۔ لہٰذا اس مچھلی نے کسی مشورہ کئے بغیر اس تالاب سے دور جانے کے
لئے سفر شروع کردیااور تالاب سے ایک دریا کی جانب تیرنا شروع کردیا۔ یہ
راستہ بہت ہی لمبا چوڑا تھا لیکن یہ راستے کی تمام تکلیفیں برداشت کرتے
ہوئے ایک گہرے دریا میں پہنچ گئی جہاں محفوظ اور پرسکون زندگی گزارنے لگی۔
ادھر شکاری جال لے آئے ، تالاب میں جو دوسری مچھلی تھی اسے شکاریوں کی اس
حرکت پر بہت غصّہ آیا اور خود سے بولی میں نے وقت گنوادیا ، میں نے پہلی
مچھلی کا ساتھ کیوں نہیں دیا ، میں وقت گنوا بیٹھی ہوں۔ اس مچھلی نے بہت ہی
حسرت کے عالم میں یہ ترکیب اختیار کی کہ وہ مردے کی طرح بے جان سی بن گئی
اور اس نے اپنا پیٹ اوپر کرکے پشت نیچے کی طرف کرلی اور بے جان لاش کی طرح
پانی پر تیرنے لگی اس طرح اس کی بھی جان بچ گئی۔ مردوں کی طرح پانی پر
تیرتی ہوئی اس مچھلی کو شکاریوں نے جب پکڑا تو اسے مردہ سمجھ کر غصّے سے
پھینک دیا اور یہ مچھلی الٹتی پلٹتی دوبارہ پانی میں چلی گئی۔
تیسری مچھلی بڑی بے وقوف اور کاہل تھی اس نے نہ تو پہلی مچھلی کا ساتھ دیا
اور نہ ہی دوسری کی مچھلی کی طرح کچھ کرسکی اور احمقوں کی طرح دائیں بائیں
کودتی رہی۔ وہ اس خوش فہمی میں تھی کہ اس طرح اچھل کود کرکے دریا میں جاگرے
گی اور شکاریوں کے جال سے بچ جائے گی۔
آخر کار شکاریوں نے جال پھینکا اور وہ احمق مچھلی اس جال میں پھنس گئی اور
پھر اسے ابلتے ہوئے تیل میں تل لیا گیا۔ اب اسے اس صورتِ حال میں عقل آئی
اور کہنے لگی کہ اگر میں اب اس مصیبت سے بچ جاؤں تو مشکل اور کٹھن راستوں
سے ہوتی ہوئی دریا کو ہی اپنا وطن بناؤں گی اور کبھی بھی فیصلے میں سستی
اور کاہلی سے کام نہیں لوں گی۔ (ماخوذ:حکایت رومی)
اس حکایت سے ہمیں یہ نصیت ملتی ہے کہ جو لوگ مشکل حالات میں کم عقلی اور
سستی کی وجہ سے اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں اور نصیحت کرنے والوں کی
بات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادیتے ہیں وہ
ہمیشہ پریشانیوں میں ہی مبتلا رہتے ہیں اور کبھی بھی دنیا میں اعلیٰ مقام
حاصل نہیں کرسکتے۔لہٰذا انسان کو چاہیئے مشکل حالات میں اپنے اوسان قائم
رکھے اوراس حالات سے چھٹکارہ پانے کے لئے کوشش کرتا رہے۔ |