خواتین کے حقوق

8مارچ کو بین الاقوامی یوم خواتین کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر خواتین کے حقوق ، ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور معاشی و معاشرتی شعبوں میں ان کے مساوات کے لئے باتیں کی جاتی ہیں، وعدے کئے جاتے ہیں گزرے ہوئے برسوں کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ افسوس کیا جاتا ہے اور نئے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔ خواتین کا بین الاقوامی دن دراصل ملازم پیشہ خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کا کامیاب تحریک کی یاد گار ہے۔18ویں صدی کے اواخر اور 19ویں صدی کے اوائل سے ہی مشرقی یورپ روس کی خواتین نے اپنے حقوق و مفادات کے لئے سڑکوں پر مظاہرے شروع کئے تھے۔/3مئی 1905ء کو پہلی مرتبہ اس تحریک کا آغاز ہوا اور اگست 1910ء میں جرمن شہر کوپن ہیگن میں پہلی انٹرنیشنل وومن کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔تب جرمن سوشلسٹ لوئس زینس نے خواتین کے بین الاقوامی دن کی وکالت کی تھی۔ ابتداء میں یوم خواتین مختلف تاریخوں میں منعقد ہوتا رہا۔ 1977ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 8مارچ کو یوم حقوقِ نسواں خواتین کا دن منانے کا اعلان کیاہے۔ "Promise is a Promise - Time for action to in violance against women"یعنی وعدہ تو وعدہ ہے ، وقت آ گیا ہے کہ خواتین کے خلاف جبر و تشدد پر کاروائی کی جائے۔

خواتین چاہے وہ ملازمت پیشہ ہو یا گھریلوان کے اپنے مسائل رہے ہیں۔ امتیازات کی انہیں ہمیشہ شکایت رہی ہے۔جو مظالم کم تعلیم یافتہ یا مکمل ناخواندہ خواتین سہتی ہیں، اس سے کہیں ذیادہ نام نہاد اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرہ کی پروردہ خواتین اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جلسہ جلوس ، ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، تقاریر کی جاتی ہیں ۔ خواتین کو مساوی حقوق دینے کی باتیں کی جاتی ہیں اور پھر دن گزر گیابات ختم ہو گئی، کے مصدق اگلے برس تک اسے فراموش کر دیا جاتا ہے یہ بات سچ ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین سلجھی اور سنجیدہ ہوتی ہیں وہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اس وقت سالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو 79.7فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں ۔ خواتین کی ناخواندگی کی شرح سب سے کم افغانستان میں ہے جہاں صرف 12.65فیصد لڑکیاں یا خواتین زیور تعلیم سے آراستہ ہیں ، عراق کی 99فیصد خواتین تعلیم یافتہ ہیں ۔ غیر اسلامی مغربی ممالک میں برمودا میں 99فیصد، کروشیا 98.3فیصد، کیوبا 99.8فیصد خواتین خواندہ ہیں ۔ ہندوستان میں 65.5فیصد اور پاکستان میں 65فیصد تعلیم یافتہ ہیں ۔ اسلامی ممالک میں اردن 90فیصد ، لبنان 86فیصد، فلسطین 93فیصد، قطر 95.4فیصد، سعودی عرب 81.3فیصد، شام 73.6فیصد، متحدہ عرب امارات 81.7فیصد، ایران 80.7فیصد اور یمن میں 46.5فیصد خواتین تعلیم سے آشنا ہیں ۔
تعلیم سے مراد اگر مذہبی تعلیم ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی مسلم خواتین کی اکثریت مذہبی تعلیم سے آشنا ہے۔ کیونکہ کم اَزکم قرآن مجید انہیں سکھایا جاتا ہے ۔ خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا ایک مقصد پہلے یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کی صیح تربیت کر سکیں، اچھے برے کی تمیز سکھا سکیں ، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مغربی اور یورپی معاشرے کی تقلید میں مسلم معاشرہ نے بھی خواتین کی تعلیم کو روزگار کا مقصد بنا لیا۔ جہاں تک مسلم معاشرے کا تعلق ہے انہیں عصری تعلیم حاصل کرنے کے لئے کافی وقت لگااور ملازمت اختیار کرنے کے لئے کئی آزمائشی مراحل سے گزرنا پڑا۔ تاہم ڈیرھ دو سو برس پہلے مغربی دنیا نے خواتین کو مساوی حقوق اور ہر شبعہ حیات میں انہیں نمائندگی دینے کا آغاز کیاتھا تاہم آج بھی سب سے ذیادہ متاثر مغربی معاشرے کی خواتین ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کے باوجود اِنہیں مردوں کے مقابلے میں کم معاوضے اور کمتر عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو 192ممالک کے سربراہوں میں اور عالمی سطح کے 500کارپوریشنوں میں سے صرف 13پر خواتین فائز ہیں ۔

ورکنگ وومن کے ساتھ امتیاز اور اس پر کئے گئے تشدد کے لئے آئے دن قوانین و تدوین کئے جاتے ہیں۔ اس بات کا جائزہ نہیں لیا جاتا کہ آخر امتیاز اور تشدد کیوں ہو رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ صنفی مساوات کے نام پر ہم نے معاشرتی توازن کو بگاڑ دیا ہے ۔ جن لڑکیوں یا خواتین کے خلاف غلط نگاہیں اُٹھتی ہیں یا ان کی دست درازی کے لئے جو ہاتھ بڑھتے ہپیں جنہیں دیکھ کر زاہد خشک کا ایمان بھی ڈگمگانے لگتا ہے، کہیں ایسا تو نہیں ان کے لباس، وضع قلطع، بیباکانہ انداز اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آج ترقی نسواں اور آزادی نسواں کے نام پر ہم اس قدر معاشرتی گراوٹ کا شکار ہو گئے ہیں کہ live-in Partnresکے حقوق بھی متعین کرنے لگے ہیں ۔ ہم جنسی کو جائز قرار دینے ہیں۔جب یہ بے راہ وری عام ہو گی تو ظاہر ہے خواتین کے خلاف ہر قسم کے جرائم پیش آتے ہیں۔ ان پر قابو بانے کے لئے ضروری ہے کہ خواتین بھی اپنے آپ پر قابو رکھیں۔ اپنے آپ کو اس حدود اور دائرے میں رکھیں جو ان کے لئے متعین کئے گئے ہیں۔اس حقیقت کا ساری دنیا اعتراف کرتی ہے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا ۔ پیغبر اسلام ﷺنے اپنا پہلا نکاح بیوہ خاتون سے کرکے بیوہ کی عظمت اور معاشرے میں ان کے مقام کو بلند کیا۔ مطلقہ خواتین خواتین سے نکاح کرکے اُن کے سماجی رتبے کو بلند کیا۔ بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کو جنت ضمانت قرار دیا۔ ماں، بیوی ، بیٹی ، بہن کے حقوق متعین کئے۔ وراثت میں ان کو حصہ عطا کیا۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تقلین کی گئی کہ مرد خواتین اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ شادی سے قبل زناء کے لئے کوڑے اور شادی کے بعد زنا پر سنگساری کے احکام جاری کئے گئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو اگر ساری دنیا مشعل راہ بنالے تو صنفی امتیازات اور ان پر مظالم کی شکایتوں کا سلسلہ ختم نہ سہی کم ضرور ہو جائے گا۔

اسلامی تعلیمات کے ہر دور کے لئے دنیا چاہے جتنی ترقی بھی کر لے اسلامی تعلیمات سے باہر نہیں جا سکتی ۔ مغربی دنیا کا ذہنی انتشار معاشرتی گراوٹ کی اصل وجہ ان کی بے راہ وری ہے۔ آزادی کے نام پر عرنیات، بے حیائی ، مساوی حقوق کے نام پر مردوں سے اختلاط نے اس معاشرہ کو اس حد تک انحطار کا شکار کر دیا ہے کہ وہاں کوئی دعوے سے اپنی ولدیت کو ظاہر نہیں کر سکتا ۔ عورت کی ترقی کے نام پر عورت کی رسوائی اسے ایک بازاری چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔عورت جو اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے اُسی عورت کی عظمت و عفت کی سرعام اس طرح سے دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ اسے تفریح کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہی اثر آہستہ آہستہ مسلم معاشرے پر ہو رہا ہے ۔ یہی لابی کے زیر کنڑول مختلف ذرائع ابلاغ، مسلم خواتین کو بھی اس طرح سے اُکسانے لگے ہیں کہ وہ بھی اپنے آپ کو مغربی خواتین کے طرز پر بے حیائی کی راہ پر گامزن کرنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ بھی آہستہ آہستہ اخلاقی اقدار سے دور ہوتا جا رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا ہے اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اِن حقوق و مفادات کو پامال کرتا ہے۔ہم عورت کی تعلیم کے سب سے بڑے علمبردار ہیں اور اس کی آزادی کے لئے بھی مگر یہ آزادی جو اس کے گھر کی چاردیواری میں ہو جہاں اس کے اپنے شوہر بچے اور دیگر ارکان کی دیکھ بھال اپنے گھر کو جنت بنانے اور اپنے بیرونی بلاؤں سے دور رکھنے کی مکمل آزادی ہے۔ہم اس آزادی کے خلاف جہاں ایک عورت ساس بن کر بہو پر ظلم کرتی ہے ، جہاں بہو سسرال میں قدم رکھتے ہی ساس کو بے گھر کر دیتی ہے۔جہاں اپنے رشتوں کی آڑ میں وہ ہر قسم کا ظلم اپنے ہی صنف پر ڈھاتی ہیں، ہم اس آزادی کے بھی خلاف ہیں جو لڑکیوں اور خواتین سے شرافت، عصمت، خاندانی وقار چھین لے۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80117 views i am a humble person... View More