ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس
دن کی مناسبت سے کئی سیمینار اور تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد
صرف اور صرف معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں سے نہ صرف
پردہ اٹھانہ بلکہ ان ناانصافیوں کے صدِ باب کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کے
عزم کو دہرایا جاتا ہے۔ حسبِ معمول امسال بھی 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن
نہایت جو ش و خروش سے منایا گیا، کئی سیمینار منعقد کیے گئے کئی ریلیوں کا
اہتمام کیا گیا، جن کا مقصد خواتین سے اظہارِ یکجہتی اور ان کے ساتھ ہونے
والی معاشرتی نا انصافیوں کا سدِ باب کے عزم کو دہرانا تھا جو کہ ایک خوش
آئین بات ہے۔
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے یورپی یونین کے انسانی حقوق کے عالمی
ادارے نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق صرف یورپ میں تقریباً 1 تہائی
خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس جائزہ
رپورٹ کے جائزے کے مطابق ان متاثرہ خواتین کی تعداد تقریبا 20,00,000 کے لگ
بھگ بنتی ہے اور اس رپورٹ کو اب تک ہونے والے سرویز میں سے سب سے بڑا سروے
قرار دیا جا رہا ہے۔ جس میں 42 ہزار خواتین کے انٹرویوز کیے گئے۔ اس رپورٹ
میں بتائے گئے اعداد و شمار کے بعد یورپی یونین سے کہا گیا کہ وہ خواتین پر
گھریلو تشدد نجی معاملات سمجھنے کی بجائے ایک عوامی مسئلہ سمجھتے ہوئے جنسی
طور پر ہراساں کرنے سے متعلق بنائے گئے قوانین پر نہ صرف نظر ثانی کی جائے
بلکہ ان پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ سروے میں خواتین سے ان
پر گھریلو اور کام کی جگہ پر ہونے والے جسمانی ، جنسی یا ذہنی تشدد کے بارے
میں بھی سوالات کیے گئے۔ جس کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہر 10 میں سے ایک
خاتون کو 15 برس کی عمر سے کسی نہ کسی قسم کے جنسی تشدد کا سامنا رہا۔ جبکہ
ہر 20 میں سے ایک خاتون جنسی ذیادتی کا شکار ہوئی ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ
ان خواتین میں سے 22% پر جسمانی یا جنسی تشدد کرنے والا ان کا جیون ساتھی
ہی تھا۔ لیکن ان میں سے 67% عورتوں نے گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں
کبھی پولیس کو مطلع ہی نہیں کیا ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے واقعات کثرتِ
شراب نوشی کے باعث سامنے آئے اور شراب نوشی اور گھریلو تشدد کو آپ میں گہرے
تعلق سے تعبیر کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 18 فیصد خواتین کو 15 برس کی عمر سے
ہی تعقب کرنے والے مرد حضرات سے واسطہ پڑا، جبکہ 55% خواتین کا کہنا تھا کہ
انہیں ان کے دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس سارے جائزہ کے
بعد یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے عالمی ادارے کے ڈائریکٹر مورٹن جیرم نے
اپنے تعصرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین
پر تشدد یورپ کے تمام ممالک میں ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کی روک تھام کے لیے
کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد ایک بات واضح
طور پر سامنے آ چکی ہے کہ پورپ میں بھی خواتین کو جنسی، جسمانی اور ذہنی
تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی باقاعدہ تصدیق اس جائزہ رپورٹ سے ہو
جاتی ہے۔ جبکہ یورپ اور ان سے متعلقہ ممالک عرصہ دراز سے اسلام اور بالخصوص
پاکستان میں خواتین کو حقوق نہ ملنے اور خواتین کے ساتھ ہونے والے معاشرتی
نا انصافیوں کا ڈھنڈھورا ساری دنیا میں پیٹ رہے ہیں۔ جس سے عالمی سطح پر
اسلام اور پاکستان کا استحقاق بری طرح مجروح ہوا اور ہر سطح پر اسلام اور
مسلمانوں کو بدنام کیا گیا۔ جبکہ اگر حقیقی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا
جائے اور اسلام کو خواتین کے ساتھ ہر قسم کے تشدد کی نا صرف مذمت بلکہ ہر
سطح پر حوصلہ شکنی کرتے ہوئے خواتین کو معاشرے میں وہ مقام دیتا ہے جس کی
کوئی نظیر نہیں۔ اسلام ان تمام تر روایاتِ باطلہ کی نفی کرتا ہے جو انسانیت
کے منافی ہوں اور نا صرف نفی کرتا ہے بلکہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے
لیے مکمل چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم رکھتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کو
یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت ِ عملی متعارف کرواتا ہے جس پر عملدرآمد
کر کے معاشرے میں نا صرف ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی بلکہ ان تمام تر غیر
اخلاقی حرکات کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام تو وہ خوبصورت
شجر ہے جو نا صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی ایک گھنے سایادار
درخت کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر سطح پر خواتین کے لیے ایسے حقوق متعارف
کرواتا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی عورت اگر ماں ہے تو اسلام اس
کے لیے مکمل حقوق متعارف کرواتا ہے عورت اگر بیوی ہے تو اسلام اس کے حقوق
کی فراہمی کو یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے عورت اگر بہن ہے تو اسلام اس کے
تقدس کی وہ مثال زمانے میں پیش کرتا ہے کہ نا قدین دنگ رہ جاتے ہیں عورت
اگر بیٹی ہے تو اسلام اس کی اعلیٰ ترین تربیت اور معاشرتی وقار کے لیے وہ
رہنماء اصول دیتا ہے جو دوسری اقوام کے لیے بھی نمونہ بن جاتے ہیں۔ الغرض
اسلام عورت کو وہ بہترین مقام عطا کرتاہے جو عین عورت کی تخلیق کے مطابق ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اسلام کو Follow تو کرتے ہیں مگر اس پر عملدرآمد
نہیں کرتے۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ تو بڑے فخر سے کرتے ہیں مگر اسلامی
تعلیمات سے دور دور تک ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے نام
پر ہم وہ کچھ کر جاتے ہیں جس کا اسلام سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق
ہی نہیں ہوتا۔
ہم اسلامی تعلیمات کے منافی جا کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑا نیکی
کا کام کیا۔ لہذا اس بری صورتحال میں جہاں ہمیں اپنے بنیادی حقوق کا علم
نہیں ضرورت اس امر کی ہے بحیثیت قوم اسلامی تعلیمات کو اپنا کر اپنا اور
اپنی قوم کا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کریں اور دوسروں پر تنقید پر اپنی
اصلاح کو مقدم کرتے ہوئے اپنی اور اپنے سے متعلقہ احباب کی اصلاح کا بیڑا
اٹھائی تب ہی جا کر ایک متوازن اور بہترین معاشرہ وجود میں آئے گا اوراگر
ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ
’’خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
آخر میں اس دن کی مناسبت سے میری خالقِ کائنات سے دعا ہے کہ مالکِ ارض و
سماء ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے کہ جس کے ساتھ ہم معاشرے میں خواتین کے ساتھ
ہونے والی نا انصافیوں کو روکیں ، معاشرے میں خواتین کو ان کا وہ بہترین
مقام دلوائیں کہ جس کے بعد ہمیں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی قسم کی
جدوجہد کی ضرورت باقی نہ رہے۔ |