غربت وافلاس انتہائی تکلیف دہ اور مصیبت ترین سماجی مشکل
ہے جو ہمیشہ انسانی معاشرے کے دامن گیر رہی ہے۔مسلسل کی جانے والی جد جہد
اور مختلف کوششوں کے باوجود یہ سماجی اور اقتصادی مشکل حل نہیں ہوسکی اور
اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا۔عالمی ادارہ صحت کی نظر میں غربت مہلک ترین
بیماری ہے ،کیونکہ انسان کو ہر بیماری سے زیادہ غذائی کمی سے دوچار کردیتی
ہے ، برائی پیدا کرتی ہے اور لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ ہر روز صج کو
ایک ارب سے زیادہ افراد سو کر اٹھتے ہیں تو انھیں اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے
اور رات کو سوتے ہیں تو زندگی کے کم سے کم امکانات سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ
ایک ارب افراد اس المیے کو اس کی تمام تر نگرانی کے ساتھ لمس کرتے ہیں۔
معمولی کھانا کھا کر سوجاتے ہیں اور اس درد ناک مصیبت کو محسوس کرتے ہیں ۔مناسب
غذا ہر انسان کی جسمانی توانائی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کے لئے ایک
اہم ضرورت ہے اور زندگی کی ابتدائی ضروریات میں اس کا شمار ہوتاہے۔
حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اچھاساخاصا اضافہ
ہوگیا ہے۔ رواں سال میں گذشتہ برس کے مقابلے میں قیمتیں کافی بڑھ گئی ہیں
جس کے متعدد اسباب بتائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے غیرمناسب آب وہوا ،غلط
پالیسیوں اور برآمدات کی راہ میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کی طرف اشارہ
کیا جا سکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ وہ افراد جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی یا
کم آمدنی والے ممالک میں متوسط زندگی بسر کرتے ہیں انھیں سب سے زیادہ نقصان
پہنچے گا۔دنیا بھر میں بھوک اور افلاس کے باعث روزانہ 8 میں سے ایک شخص
ہلاک ہو رہا ہے اور خوراک کی کمی اور بھوک جیسے مسائل میں جنوبی ایشیا اور
افریقہ اس وقت سر فہرست ہے۔
صحرائے تھر میں غذائی قلت نے درجنوں بچوں کی جان لے لی۔ سب کچھ پہلے سے پتہ
ہونے کے باوجود کسی نے کچھ نہ کیا۔ ووٹ لینے والے تو نہ جاگے لیکن ووٹ دینے
والے ابدی نیند سو گئے۔ بھوک اور افلاس کے مارے لوگ اب کس کی جانب
دیکھیں؟ان جگرگوشوں کی جدائی کی وجوہات دنوں یا ہفتوں میں پیدا نہیں
ہوئی۔بلکہ برسوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے والوں کے لئے مسائل وہی
پرانے رہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں لیکن ان کے دل نہ بدلے۔نہ ماضی میں کچھ ہوا
اورنہ ہی حال میں کچھ حال بدلا ہے۔ چند ماہ میں سیکڑوں بچے موت کے منہ میں
جا پہنچے۔ اسکی وجہ بھوک، پیاس، خوراک کی قلت وقحط سالی،
بیماراورکمزورحاملہ خواتین کے ہاں لاغربچوں کی پیدائش۔
بیماری میں مبتلا بچوں کی اسپتال منتقلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لمباسفر،
راستے کی مشکلات ،طبی سہولتوں کا فقدان اور اوپر سے غربت نے وہاں کے لوگوں
کوتباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ حکومت اورمتعلقہ اداروں کی غفلت
اورلاپرواہی بھی ان ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ بنی ہے۔ پنجاب فیسٹیول اور
سندھ فیسٹیول کے نام پر ثقافت کا جشن منانے اورکروڑوں روپے اڑانے والی
صوبائی حکومتوں کوبھوک سے بلکتے بچوں کی صدائیں نہ سنائی دیں اورنہ ہی
ماؤوں کے آنسو ان تک پہنچے۔ہمارے حکمرانوں کو اپنی چمچاتی گاڑیوں، محلوں
اوردفتروں میں رہتے ہوئے غربت میں پسی عوام کی بھوک اورپیاس کا احساس تک نہ
ہوا۔
حکومت نے ورلڈ ریکارڈ بنانے کے چکر میں کروڑوں روپے ضائع کردیے مگر تھر کے
علاقے میں بھوک اور پیاس سے مرنے والوں کے لیے دو آنے بھی خرچ نہیں کیے۔
کیا ورلڈ ریکارڈ بنانے سے پاکستان کی غربت کم ہوسکتی ہے ؟ کیا تھر میں مرنے
والے زندہ ہوسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں کیونکہ کوئی بھی انسان اس بات سے اتفاق
نہیں کرے گا کہ پاکستان میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ جس وطن کے حکمران سندھ
پنجاب فیسٹیول کے نام پر اربوں کھربوں روپے ناجائز کام میں خرچ کرسکتے ہیں
اس وطن کے باسی بھوک سے کیسے مرسکتے ہیں؟
کوئی ہمارے حکمرانوں سے پوچھے کہ کہیں بھوک سے مرنے والوں میں بھی ورلڈ
ریکارڈ قائم کرنے کا منصوبہ تو نہیں ان کا؟ تھر میں یہ سلسلہ کب سے جاری ہے
مگر افسوس صد افسوس کہ آج تک ہمارے حکمرانوں نے اس مسئلے پرکوئی اہم قدم
نہیں اٹھایا۔ یا تو چولستان کا علاقہ پاکستان میں نہیں یا پھر پاکستان کے
حکمرانوں کو چولستان سے کوئی غرض نہیں۔
اے وقت کے حاکمو! کچھ تو سوچئے کہ پاکستان کی عوام کن مصائب سے دوچار ہے ۔
بجلی، گیس اور بے روزگاری کا مسئلہ تو حل ہوا نہیں اوپر سے مہنگائی کا عذاب
مسلط کردیا۔ ورلڈ ریکارڈوں کو چھوڑیے پہلے عوام کا سوچئے ۔ جب ہمارے ملک کی
عوام خوشحال ہوگی تو ہر ریکارڈ پاکستان کی جھولی میں ہوگا۔ لوگوں نے زرداری
حکومت سے جان اس لیے چھوڑائی تھی کہ نئے آنے والے حکمران ہمارے ہمدرد بنے
گے لیکن انہیں کیا معلوم کہ آنے والا وقت ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔اب
بھی حکمرانوں کے پاس وقت ہے کہ وہ چولستان کے متعلق سوچیں ۔کیا ہر بار اسی
طرح بھوک و افلاس سے موت کا رقص ہوتا رہے گا اور ہم تماشا دیکھتے رہیں گے؟ |