میں جب پروفیسر گُل محمد گُلانی صاحب کا ذکر کرتا ہوں تو
اُنکے میری ذات سے جُڑے اس تعلق سے ہٹ کر کرتا ہوں کہ وہ میرے
والدتھے،کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں جب ایک بیٹے کی حیثیت سے اُنکے
لئے کچھ لکھوں گا یا کہوں گا تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ میں ایک فطری سلسلے
کو پانی دے رہا ہوں،فطری سلسلا یہ کہ ہر اولاد کو اپنے والدین پیارے ہوتے
ہیں ،ہر اولاد اُنکی تعریف ہی کرتی ہے،چاہے وہ ڈاکو ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن
میں گُلانی صاحب کا ذکر کرتے وقت پوری دیانت کے ساتھ ہمارے مابین رشتے کو
ایک طرف رکھ کر کرتا ہوں۔
گُلانی صاحب کا ذکر میں ہمیشہ ایک خوددار،با اُصول،ادیب ،شاعراور صوبہ سندھ
کے اُن چند ایماندار آفیسرز شخصیات میں کرتا ہوں کہ جو مرتے دم تک اپنے کام
کو عشق کی صورت نبھاتے رہے اور کبھی اس عشق کا سودا نہیں کِیا۔
گُلانی صاحب۳جولائی ۱۹۳۵ء کو صوبہء سندھ کے ضلع تھرپارکر کے ایک چھوٹے سے
گاؤں ڈیپلو میں پیدا ہوئے،پرائمری تک تعلیم وہیں حاصل کی،اور بعدمیں اُنہوں
نے آگے تعلیم اور ملازمت کے حصول کے لئے گاؤں سے ہجرت کی۔
اُنہیں میٹرک کے فوراً بعدشاہ بُلڑی کریم میں پرائمری اسکول ٹیچر کی جاب
ملی ،اُ س کے بعد وہ ہائی اسکول ٹیچر ہوئے اور نور محمد ہائی اسکول
حیدرآباد میں ہیڈ ماسٹر رہے،اور پھر اُنہیں لیکچرار اپائنٹ کر لیا گیا۔اِسی
ساری سائیکل کے دوران اُنہوں نے ایم ․اے(سندھی) تک تعلیم حاصل کی اور ایل ․ایل․
بی ، بھی کی ۔لیکچرار ہونے کے بعد ایک پرنسپل کی حیثیت سے اُن کی تقریبنً
ڈیوٹی روہڑی ڈگری کالیج اور شہدادپور ڈگری کالیج میں گزری۔گُلانی صاحب
ریٹائرمینٹ سے ۱۳ سال پہلے جب پھر سے شہدادپور ڈگری کالیج بدلی ہو کے
آئے،تو پھر ۳ جولائی ۱۹۹۵ء ریٹائرمینٹ تک وہیں رہے۔آپ نے اپنے گریڈ کے اپ
گریڈ ہونے اور آفرز کے باوجودڈاریکٹر کی چارچ سنبھالنے سے انکار کرکے
شہدادپور ڈگری کالیج میں پرنسپل رہنے کو ترجیح دی اور جاب کہ آخری ایّام تک
وہیں رہے۔گُلانی صاحب ۲نومبر ۱۹۹۵ ء کو اپنی ریٹائرمینٹ کے ۳ماہ ۲۹ دن بعد
اِس دُنیا سے رحلت کر گئے۔
جس دور میں پورے سندھ میں سندھی مہاجر جھگڑے کا رنگ کافی گہرا تھا،اُس وقت
سندھی قومیت رکھنے والے لوگ کالیج پر جئے سندھ کا جھنڈا لگانے کیلئے مرمٹنے
کو تیار رہتے تھے اور مہاجر ایم․ کیو․ ایم ،کا۔لیکن اُسوقت بھی اُنہوں نے
اُسوقت کے بڑے بڑے نام نہاد داداگیروں کو اپنے اُصولوں اور بہادری سے کبھی
بھی اس عمل میں سُرخرو ہونے نہیں دیا،اورہمیشہ اُنکی ریٹائرمینٹ تک کالیج
پر سبز حلالی پرچم لہراتا رہا۔
جس دور میں کالیج گرلز ہائی اسکول کی بلڈنگ میں اپنی ذاتی بلڈنگ نہ ہونے کے
سبب چلتا تھا اُس وقت سے لیکر کالیج کی اپنی بلڈنگ بننے اور آرٹس کے علاوہ
وہاں سائنس میں گریجویٹ ہونے تک اور بی․ ایس․ سی، کی الگ سے اپنی بلڈنگ بھی
بن جانے تک کالیج کی ہر کامیابی اور کامرانی کے پیچھے گُلانی صاحب کا ہی
ہاتھ ملتا ہے،اُنکے دور میں اسٹوڈنٹس تو دُور کی بات لیکن کسی لیکچرار میں
اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ۹بجے کے بعد کالیج میں آئیں،یا بے جا سٹاف روم میں
بیٹھے گپے لگاتے رہیں،لیکن اِس کے برعکس میں آج جب کالیج کو دیکھتا ہوں
تودُکھ سا ہوتا ہے،گُلانی صاحب کی ریٹائرمنٹ کو ۱۸ سال گُزر جانے کے بعد
بھی کالیج وہیں کا وہیں کھڑا ہے،بلکہ پیچھے گیا ہے،کلاسس کب سٹارٹ ہوتی ہیں
اور کب ختم، کچھ پتہ نہیں۔،اسٹوڈنٹس تو دُور کی بات لیکن آج وہاں روٹین میں
نہ تو لیکچرارس ملتے ہیں اور نہ ہی کلرکس۔
گورنمنٹ ڈگری کالیج شہدادپورجو کہ آج بھی شہر سے کافی باہر محسوس ہوتاہے
،اُنکے دور میں توچونکہ آبادی بھی اتنی نہیں تھی اورشہر اتنا پھیلاہُوا
نہیں تھا توکالیج بُہت ذیادہ شہر سے باہر تھا،لیکن گُلانی صاحب اُس دور میں
بھی اگر کام ہو تو رات گیارہ گیارہ بارہ بارہ بجے تک تن تنہا بلاخوف وجھجک
وہاں بیٹھے کام کرتے رہتے تھے،اور اُنکی ایمانداری کی مثال اِس سے بڑھ کے
اور کیا دی جاسکتی ہے کہ کالیج کاسالانہ فنڈبلا ضرورت استعمال نہ ہونے کی
وجہ سے ہر سال گورنمنٹ کے اکاؤنٹ میں واپس بھیج دِیا جاتا تھا،اور کالج سے
عشق کا یہ عالم تھا کہ گُلانی صاحب اپنی زندگی کے آخری ایّام میں غنودگی کے
عالم میں بھی کالج کی باتیں کرتے تھے۔اُنہوں نے گورنمنٹ ڈگری کالیج
شہدادپور کو ایک ایسی انسٹیٹیوشن کیطرح چلایا کہ جس کی مثال بُہت کم ملتی
ہے ،میرے خیال میں یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اُنہوں نے گورنمنٹ ڈگری
کالیج شہدادپور کو اپنے بچوں کیطرح پالا۔
رُشوت سے اتنی نفرت کے بڑے بڑے لوگوں کے بچوں کی بورڈ یا یونیورسٹی سے چیک
ہونے کے لئے آئی ہوئی کاپیس میں مارکس بڑھانے کے لئے زبردستی پیسے تھما
دینے کی کوشش کرنے والے بڑے نام نہاد طاقتور حرام خورلوگوں کی گلی میں
اُڑتی اور نالیوں میں بہتی ہوئی حرام کمائیوں کا تماشہ پورا مُحلہ دیکھتا
تھا۔ کاپی کلچر کے اتنے خلاف کے اپنی بیٹی تک کو نہ چھوڑا۔بہادری اور فرض
شناسی کی حد یہ تھی کہ اُس وقت کے ایجوکیشن منسٹربغیرکسی اطلاع کے امتحانوں
کے وقت پورے ضلع کے افسران کے ہمراہ اپنی منسٹری دکھانے کالیج پُہنچ
گئے،اور کہنے لگے کہ مجھے کالیج کا راؤنڈ کرواؤ،گُلانی صاحب نے اُنہیں
انکار کر دیااور کہا کے میری ڈیوٹی میں یہ شامل نہیں ہے کہ میں بغیرکسی
شیڈول اور اطلاع کے اچانک آئے ہوئے کسی منسٹر کوراؤنڈ کرواؤں،اور پھر اُس
کے بعد اُنہوں نے منسٹر کو اپنا پٹیوالا دِیا اور کہا کہ جاؤ منسٹر صاحب کو
راؤنڈ کرواؤ۔
گُلانی صاحب نے پوری عُمر تین کمروں کے کرائے کے مکان میں گُزاری اور ساری
عُمر پیدل چلے،اور کبھی اس بات میں شرمندگی محسوس نہیں کی کے اس طرز سے
زندگی گُزارنا کسی آفیسر کا شایانِ شان نہیں ہوتا۔
آپ کالج جاتے وقت اکثر سفاری سُوٹ ،عام روٹین میں پولیسٹر کا سُوٹ اور مرزا
کی چپل پہنتے تھے،جیب میں صرف اور صرف بیڑی اور پھیکی چھالیہ رکھتے تھے،۔جب
بھی چلتے تھے تو نظریں نیچی کئے ہوئے اپنی دُھن میں مگن اِس طرح چلتے تھے
کہ برابر سے چاہے کوئی کتنا ہی عزیزشخص کیوں نہ گُزر جائے اُنہیں معلوم
نہیں پڑتا تھا۔
یقین جانیئے مجھے کبھی کبھی یہ سمجھ نہیں آتا کہ گُلانی صاحب جیسے لوگ
ہمارے اس گندے معاشرے میں کیوں بھیجے جاتے ہیں،یہ توشاید کسی اورہی دُنیا
کے لوگ ہوتے ہیں ،شاید کسی پاک صاف اور شفاف نگری کے باسی ۔
لیکن شاید گُلانی صاحب جیسے لوگوں کا اس معاشرے میں لایا جانا بھی ضروری
ہوتا ہے،تا کہ یہ گندہ معاشرہ اور اس گندے معاشرے کے گندے لوگ یہ دیکھ سکیں
کے ایمانداری اور خودداری کیساتھ بھی زندگی گُزاری جاسکتی ہے،اور اس کے پس
منظر میں اپنی آخرت بھی سنواری جا سکتی ہے۔
گُلانی صاحب کے حوالے سے لکھنے کو میرے پاس ایک بیٹے اور ایک رائٹر کی
حیثیت سے بُہت کچھ ہے،لیکن سمندر کو کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں ۔آپ حضرات
دُعا کریں کے اﷲ تعالیٰ ہمارے مُلک کو گُلانی صاحب جیسے سچے ،بہادراور
ایماندار آفیسرزعطا کرے․․،اور دُعا کیجئے کہ اﷲ تعالیٰ اُنہیں اپنے جوارِ
رحمت میں جگہ عطا فرمائیں․․․آمین۔ |