کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے

گذشتہ دنوں خفیہ کے سرکاری اہلکار وں نے مجھ سے ملاقات کرنا چاہی ۔ ملاقات کی اس ملاقات میں کچھ مو ضوعات پر بخث ہوئی ۔ مسائل کی نوعیت پر گفتگو ہوئی۔ میرے کالموں پر تبصرہ ہوا۔ کچھ مسائل کی نشاندہی کی گئی۔ ملکی سا لمیت اور سلامتی کی اہمیت پر زور دیا گیا ۔ سماجی نا ہمواری اور ثقافتی تصادم کی وجو ہات جاننے کیلئے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس ثقافتی یلغار کی اہم وجہ میں نے آباد کاروں کو قرار دیا۔ میری اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کیا گیا ۔ اس کا تدارک میں نے ان آبا د کاروں کی دوسری ثقافتوں میں مداخلت کی روک تھام کو قرار دیا ۔ جو سر کار ہی کر سکتی ہے ۔ اس سے قبل کہ ثقافتیں باہم بر سر پیکار ہو جائیں ۔ جو خو ں ریزی پر منتج ہوگی۔ یہ انجام انتہائی بھیانک ہوگا ۔ بہتر تو یہ ہے کہ لوگ ثقافتی تصادم کی بجائے دیگر ثقافتوں سے متعلق لوگوں کے ساتھ قلبی وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے برداشت کے نظریات پر عمل کریں اور وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنائیں ۔

کالم میں اس ملاقات کا تذکرہ ضروری تھا کیونکہ جس اہم موضوع پر گفتگو ہوئی وہ ایک سنجیدہ ترین مسئلہ ہے ۔ جس سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ لیکن دیگر مسائل بھی ہیں جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمیں درپیش ہیں ۔ حل کیلئے ان کا ذکر ضروری ہے ۔ سنجیدہ حکام کیلئے یہ ذکر ہی طمانچہ سے کم نہ ہے ۔ لیکن بے حمیت حکمران اور افسران پر صوفیصد اثر نہیں پڑتا ۔

اس وقت ڈیرہ غازیخان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بواسیر ، کینسر ، کالا یرقان ، ٹائیفا ئیڈ ، ٹی بی ، سانس کی بیما ریا ں اور دیگر مہلک امراض میں پریشان کن حد تک اضا فہ ہو رہا ہے ۔ ان بیماریوں کے تدارک کیلئے کوئی اقدا مات نہیں کئے جا رہے ۔ عوام میں اس حوالے سے شعور کی کمی ہے ۔ حکومت آگا ہی مہم کے سلسلے میں صفر ہے ۔ ایک عام آدمی کے پاس ان بیماریوں سے نبرد آز ما ء ہونے کیلئے وسائل نہیں ہیں ۔ صاف پانی کا نہ ہونا ان بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضا فے کا ایک سبب ہے ۔ ڈیرہ غازیخان میں اٹامک کا وجود انسانی حیات کیلئے زہر قاتل ہے یہ اور بات کہ ملکی تحفظ کیلئے اقدامات بھی ضروری ہیں ۔ جس سے تابکار کا اخراج ہی ان بیماریوں کی اصل وجہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں اور علاقوں کی نسبت ڈیرہ غازیخان چوٹی زیریں اور اس سے ملحقہ دیہات کے رہنے والے ریکارڈ حد تک سر طان کا شکار ہیں ۔ ملکی ماہرین اور حکام اس احتیاط کو سامنے رکھتے ہوئے ان حقائق کو منظر عام پر نہیں لاتے کہ عوام کا احتجاج سامنے آئے گا ۔ عوام کی صحت جیسے حساس معاملے پر عدم توجہی عوام سے عدم دلچسپی کا مظہر ہے ۔ یہاں کے حکومتی حصے دار یعنی سیاسی نمائندوں نے بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ فقط ووٹ کا حصول ان سیاسی نمائندوں کا مقصد ہے ۔ جس کی طاقت پر چند لوگ عوام پر حکمرانی کرتے ہیں ۔ مگر ان جیسے دیگر مسائل کے حل کیلئے اقدامات تو کجا ایک لفظ بھی نہیں بولتے ۔ ایسے بے حس اور سرد مہر لیڈرز ( رہنما ) جس خطے میں ہوں گے تو وہاں کے لوگ تڑپ پڑپ کر مرتے رہیں گے ۔ نسلیں قتل ہوتی رہیں گی ۔۔۔۔ انھیں احساس تک بھی نہیں ہے کہ ان کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر نسلوں کے مستقبل قتل ہو رہے ہیں ۔ مجال ہے کہ دوسری طرف عوام جو ٹھہرے بے زبان کب اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے ۔۔۔۔؟ یہ تو روز اول سے ہی طاقتوروں کے دباؤ میں ہیں اور نفسیاتی غلام کا کر دار ادا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی روزی کا سر چشمہ مسترد کرے گا ؟ نہیں ۔۔۔۔۔ روزی کا سر چشمہ بند ہوا تو سامان زندگی سے محروم ہونا پڑے گا ۔ یہی غریب عوام ہی تو دو فیصد امراء کے لئے وسیلہ رزق ہیں ۔

بہت سی حقیقتیں ہیں جن کا ذکر از حد ضروری ہے ۔ سچ کا ذکر تک نہ کرنا ایک طرح سے سچ سے انکار ہے ۔ سچ ایک تلخ حقیقت ہے جو کڑوی ہے ۔ یہ کڑوی حقیقت برداشت نہیں ہو سکتی ۔ سچ کی کڑواہٹ سے بہت سے چہروں کی رنگت تبدیل ہو جاتی ہے ۔ سچ سچے لوگ ہی بر داشت کر سکتے ہیں ۔ آٹے میں نمک کے برابر ہیں وہ لوگ جو اپنے اندر اور باہر ایک ہیں ۔ لیکن کثیر تعداد ہے ان کی جو باہر تو پر ہیز گار لگتے ہیں ۔ سچائی کا پر چار کرتے نظر آتے ہیں ۔ مگر اندر منافقت اور حسد کی آگ میں جل کر راکھ ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یہی بد قسمت لوگ ہیں جو حقائق اور سچائیوں کا سامنا نہیں کر سکتے ۔ سچ کا پر چار کرنے والوں کو جھوٹ کے ذریعے مات دینے کی مذموم کو ششیں کرتے رہتے ہیں ۔ جس میں نا مراد ٹھہرتے ہیں ۔
تبدیلی کی خواہش اور اس خواہش کا اظہار کوئی جرم نہیں ہے ۔ مگر ہمارے یہاں مثبت اور پر امن تبدیلی کی خواہش کے اظہار اور اس نیک اور پر امن مقصد کیلئے رائے کے اظہار کو بھی گستاخی تصور کیا جاتا ہے ۔ اس کی پاداش میں انتقامی کار روائیوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ کیا اس طرح سچ بولنے والے اپنی خو ترک کر دیں گے ۔ ۔۔۔؟ میرے خیال میں تختہ دار کو بھی وہ سر خرو ہو کر قبول کریں گے۔ سچ سے منحرف نہیں ہوں گے ۔ کچھ انہی مقاصد کیلئے میں بھی لکھتا ہوں ۔ علاقائی ، قومی اور بین الا قوامی اخبارات میں شائع شدہ میری تحریر یں گواہ ہیں کہ میں نے معاشرتی و سیاسی نا ہمواری ، دہشت گردی اور بد عنوانی کے خلاف واضح الفاظ میں لکھا تا کہ امن کی فضاء قائم ہو ۔ قانون کا نفاذ ہو۔ انسانی قتل عام کا خاتمہ ہو۔ مگر جھوٹے اور بد عنوان گروہوں نے الٹا مجھے نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ کیا سچ بولنے کا یہی انعام ملتا ہے۔۔۔۔؟ یہ سوچ جو سچ کو قتل اور تختہ دار پر لٹکا نے کے در پے ہے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ اﷲ کی ذات جو سب طاقتوں سے طاقتور ہے میری حفاظت کر رہی ہے ۔

صدر تھانہ جامپور ( راجن پور )میں ایک مقدمہ نمبر214/13 درج ہے ۔ جس میں دفعہ 365تعزیرات پاکستان لگائی گئی ۔ اس ایف آئی آر میں ایک ملزم اسماعیل ولد نا معلوم بھی ہے ۔ جو مجھے قرار دیا جا رہا ہے ۔ مقدمہ میں جس انداز کے ساتھ مؤقف اختیار کیا گیا ۔ وہ مقدمہ کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔ ملزم کی ولدیت نا معلوم یعنی مقدمہ جھوٹا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ جس بچے کے اغوا کی بات ہوئی اس مقدمہ میں ۔۔۔میری قلمی تحقیق سے یہ عیاں ہوا کہ مقدمہ کے مدعی شفیع جکھڑ نے اصل میں اپنا لخت جگر جام پور کی شاہجمال کالونی میں رہائش پذیر چانڈیہ گینگ کے ہاتھوں لاکھوں میں فروخت کیا تھا ۔ یہ گینگ قحبہ خانوں کی سر پرستی بھی کر تا ہے ۔ عظیمن نامی عورت کی سر براہی میں اس گروہ کا نیٹ ورک ہے ۔ اس کے بیٹے ان کاموں ( مکروہ دھندوں ) میں اس عورت کے معاون ہیں ۔ جب میں نے مغوی عبدالخالق پر تحقیق کرنا چاہی کہ کن وجو ہات کی بنا پر بچہ گم ہے تو ’’نام آئے گا تمہارا ‘‘ کے مصداق عظیمن چانڈیہ نامی عورت کا نام آنے لگا ۔ حقائق جاننے کیلئے میں نے اس گروہ سے رابطہ کیا ۔ رابطہ کرنے پر یہ گروہ آگ بگولہ ہوگیا اور اسماعیل ولد نا معلوم پر مقدمہ درج کرادیا ۔ اس مدعی نے اس گینگ کے اشاروں پر جن سے پہلے ہی یہ زخم خوردہ ہے ۔ ضلع ڈیرہ غازیخان میں کا ر روائی کرنا چاہی تھی ۔ جس میں ملزموں کی رہائش حد و د تھانہ در خواست جمال خان جبکہ اپنی رہائش موضع مسیتہ تحصیل کوٹ چھٹہ ظاہر کی تھی ۔ گینگ کے ایما پر غلط دلائل غلط مؤقف ۔۔۔۔ ایک ایسا لکھاری جو دہشت گرد ی ، انتہا پسندی اور بد عنوانی کے صریح خلاف لکھتا ہو اور عدم تشدد کا قائل اور اس نظریے پر عمل پیرا ہو ۔۔۔۔تو ۔۔۔ کیا انسانی غواء میں ملوث ہو سکتا ہے ؟ میں تو مدارس میں فرقہ وارانہ تعلیم کا قائل تک نہیں ہوں ۔۔۔۔ بھلا ۔۔۔ اپنے کیرئر پر اس قسم کے الزامات اور دھبوں کو دیکھنا چاہوں گا ۔۔۔۔؟ یہ مقدمہ در اصل آزادی اظہار اور قلم کی آزادی کے خلاف ناپاک کوشش ہے ۔ کیا اس طرح کے بھونڈے اور شرم ناک ہتھکنڈے مجھے حق گوئی سے روک سکیں گے ۔۔۔۔؟
ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 46980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.