ایک بھارتی گُرو کو جنہیں ڈاکٹرز مردہ قرار دے چکے ہیں،
ان کے پیروکاروں نے انہیں گزشتہ چھ ہفتوں سے ایک فریزر میں رکھا ہوا۔ ان کا
ماننا ہے کہ گرو جی گہرے مراقبے میں مصروف ہیں اور وہ ان کی رہنمائی کے لیے
واپس لوٹیں گے۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق ماہرین نے 29 جنوری کو آشو توش مہاراج کو طبی طور پر
مردہ قرار دیا تھا۔ تاہم ان کے عقیدت مندوں نے بھارت کی شمالی ریاست پنجاب
کے ایک چھوٹے سے شہر میں واقع ایک آشرم میں ان کی لاش کو ایک فریزر میں
رکھا ہوا ہے اور ان کو روز اس امید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ وہ کب ’مراقبے‘
سے باہر آ کر ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔
|
|
70 برس سے زائد عمر کے آشو توش مہاراج بھارت کے ان بہت سے گروؤں میں سے ایک
ہیں جو ’دیویا جوتی جگ رتی سنستھان‘ یعنی خدائی روشنی جگانے کے مشن کے
سربراہ رہے ہیں۔ اس مشن کے مطابق اس کے کروڑوں ماننے والے ہیں۔
اس مشن کے ترجمان سوامی وِشال آنند مُصر ہیں کہ ان کے رہنما فوت نہیں ہوئے
بلکہ وہ ’سمادھی‘ کی حالت میں ہیں اور اسی وجہ سے وہ زندہ ہیں۔ سمادھی
مراقبے کے بلند ترین درجے کو کہا جاتا ہے۔
وشوا آنند نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مہاراج کے عقیدت مند اب
اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب اپنا مراقبہ ختم کرتے ہیں۔ آنند کے مطابق تب تک
نور محل نامی شہر میں موجود یہ آشرم کُھلا رہے گا اور ان کے عقیدت مند بھی
وہاں مراقبے اور دیگر عبادتوں میں مصروف رہیں گے۔
وشوا آنند قبل ازیں رواں ہفتے کے آغاز میں کہہ چکے ہیں، ’’مہاراج جی ابھی
تک اپنے عقیدت مندوں کو مراقبے میں یہ پیغامات دے رہے ہیں کہ جب تک وہ لوٹ
نہیں آتے ان کے جسم کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘
آشوتوش مہاراج کی لاش کو فریزر میں رکھنے کے فیصلے کو ایک ایسے فرد کی طرف
سے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے جو خود کو ان کا سابق ڈرائیور قرار دیتا
ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس شخص کا کہنا ہے کہ مہاراج کے بعض عقیدت مند
ان کی لاش کو اس لیے نہیں چھوڑ رہے کیوں کہ وہ ان کی جائیداد میں سے حصہ
لینے کے خواہشمند ہیں۔
|
|
تاہم ریاست پنجاب کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ریتا کوہلی کے مطابق عدالت نے
حکام کی طرف سے یہ تصدیق حاصل ہونے کے بعد کہ گرو کا انتقال دل کے دورے کے
سبب ہوا ہے اس شخص کی یہ درخواست خارج کر دی۔ ’’کورٹ نے پنجاب حکومت کی
جانب سے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ مہاراج کی طبی لحاظ سے موت واقع ہو چکی اس
لیے اب یہ ان کے عقیدت مندوں پر منحصر کرتا ہے کہ وہ ان کے جسم کے ساتھ کیا
کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
وِشوا آنند کے مطابق تاریخ میں ایسے بے شمار مذہبی رہنما موجود ہیں جنہوں
نے جما دینے والے درجہ حرارت میں سمادھی کے لیے ہمالیہ کا مہینوں کا سفر
کیا جس کے بعد وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے۔
’دیویا جوتی جگ رتی سنستھان‘ کے ایک اور ترجمان لکھوندر سنگھ نے جو ایک
قریبی گاؤں کے سربراہ بھی جہاں مہاراج کے بہت سے عقیدت مند موجود ہیں،
مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ صرف انتظار کریں گے: ’’جب ہم اپنی آنکھیں بند
کرتے ہیں تو ہم مہاراج سے بات کر سکتے ہیں جنہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ
وہ واپس آئیں گے۔ |