دوسری شادی ( حصہ دوم )

آج کا آرٹیکل گذشتہ سے پیوستہ ہے۔ کل کے آرٹیکل میں میں نے دو انتہاؤں کا ذکر کیا تھا ، ایک نام نہاد علماء کی طرف سے اور دوسری مادر پدر آزاد میڈیا کی طرف سے این جی اوز کی خواتین کو مودعو کرکے ان سے اسلامی موضوعات پہ تبصرہ کروانا۔ آج بھی ایک چینل پر محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ تبصرہ فرما رہی تھیں ، اب انکا شریعت سے لگاؤ تو اتنا ہی ہے جتنا میرا وکالت سے ہے۔ جسکا کام اسی کو ساجھے، میڈیا کو خیال رکھنا چاہیے۔ کل کا آرٹیکل میں نے سورہ النساء کی آیت سے شروع کیا تھا۔ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے علماء سے مئودبانہ درخواست کی تھی کہ اس آیت مبارکہ کا شان نزول اورتفسیر ہی اگر وہ ملاحظہ فرما لیتے تو مسئلہ ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا اور میڈیا پر بھی اتنا این جی اوز کی وہ خواتین جن سے سنبھلتا نہیں دوپٹہ اپنا واویلہ نہ کرتیں۔ قارئین اکرام یہ بات یاد رکھیں کہ آیات قرآنی کا ایک شان نزول ہوتا ہے ، اور ساتھ کچھ حالات و واقعات ہوتے ہیں جن کو جان کر اسی تناظر میں آیات کو سمجھنا ہوتا ہے۔ آج میں اس آیت کا جو کل بیان کی تھی ترجمہ اور شان نزول آپکی خدمت میں پیش کروں گا تاکہ اس موضوع کو سمجھنا آپ کے لیے انتہائی آسان ہو جائے۔ مالک ارض و سمآء قرآن کریم سورہ النساء میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا۔ ترجمہ ، اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے ۔ ام المئومنین حضرت عائشہ اس آیت کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں ارشاد فرماتی ہیں کہ زمانہء جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، انکے مال ور حسن وجمال کیوجہ سے یا اس خیال سے کہ انکا کوئی اور آسرا تو ہے نہیں، اس لیے جسطرح ہم چاہیں گے انکو دبا کر رکھیں گئے۔ لہذا وہ ان بچیوں کے ساتھ نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان پر ظلم وستم کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں حکم ربی آیت بالا کی صورت میں نازل ہوا کہ اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ مطلب یہ کہ ان یتیموں کو درگذر کرو ، دنیا میں عورتیں اور بھی ہیں ان سے نکاح کر لو اور اکر تمھیں حاجت ہو تو بے شک چار سے نکاح کرلو۔ ایک دوسری تفسیر رئیس المفسرین ، امام المفسرین حضرت ابن عباس اور انکے شاگرد عکرمہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمانہء جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی ایک شخص دس بیویاں کر لیتا تھا۔ اور جب اس کثرت ازواج سے مصارف و اخراجات بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ، بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتے تھے۔ اس پر الله رب العزت نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لیکر چار تک بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔ سعید بن جبیر اور قتادہ اس میں مذید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ارشاد ربانی ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی سے ڈرو اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو اور اس چار کی حد میں بھی اتنی بیویاں رکھو جن سے عدل و انصاف کر سکو۔ نیز اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی مفسرین نے بیان کیاہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو ان عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں۔ نیز یہ آیت تعداد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویوں کے جواز سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ الله کے حکم اور شریعت کا مذاق اڑاتا ہے۔ حکومت اسلامی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس نا انصافی کو روکنے اور جن خواتین کے ساتھ ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے انکی دادرسی کرے اور مناسب قانون سازی بھی کرے۔ قارئین لکھنا تو مذید چاہتا ہوں اس موضوع پر مگر مضمون طویل ہو جائے گا۔ میں نے آیت کی تفسیر آپ کی خدمت میں عرض کر دی ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس آیت سے اجازت پہلی بیوی سے نہ لینے کا مسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کیسےاور کہاں سے نکالا ہے۔ حالانکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ اگر قرآن و حدیث میں کسی کام کی ممانعت نہ آئی ہو اور شریعت اسلامی اس بارے میں خاموش ہو تو اسکی اجازت ہوتی ہے۔ اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ممانعت نہیں آئی لہذا اجازت طلب کرنا جائز اور شرعی ہے۔ اب یا تو اسلامی کونسل والے علماء اسکی ممانعت قرآن و حدیث سے دکھائیں یا تسلیم کریں کہ انکا مئوقف غلط ہے اور اعلان کریں کہ نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری و عین اسلامی ہے۔ شکریہ
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186489 views System analyst, writer. .. View More