آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں ہر چیز ترقی
کے اعلیٰ مقام پر پہنچ رہی ہے۔ وہیں ہمارے معاشرے میں کئی ایسی قدریں ہیں
جو دم توڑ رہی ہیں۔ان ہی میں سے ایک مہمان نوازی یا بالفاظ دیگر میزبانی کی
اہمیت ہے۔ایک وہ دور تھا جب ہر شخص مہمان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے
لئے تیار تھا۔لوگ مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب
ہوجاتے تھے۔اور اپنے مہمان کے لئے اپنی قیمتی سے قیمتی چیز نچھاور کرنے کے
لئے تیار رہتے تھے۔ اور آج کے دور میں اکثرلوگ مہمانوں سے نظریں چراکر
بھاگتے نظرآتے ہیں۔جب کہ مہمان نوازی کی اہمیت قرآن و حدیث میں واضح طور پر
ملتی ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:’’جو شخص اﷲ اور یوم آخر پر
ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے‘‘(بخاری)
مہمان کے آداب میں سے ہے کہ جب مہمان آپ کے گھر آئے تو سب سے پہلے اس سے
سلام و دعا کیجئے اور خیروعافیت معلوم کیجئے۔جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتا چلتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
مفہوم:کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ
ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جو اب میں سلام کیا‘‘۔(الذاریات:
۲۴،۲۵)
مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنا یہ انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم
علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے ساتھ کیا۔اﷲ
تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مفہوم: ’’پھر وہ جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ
بچھڑاذبح کرکے بھنواکرلائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘(سورۃ الذاریات:
۲۶،۲۷)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت و اکرام، خاطر و مدارات
اپنی حیثیت کے مطابق کرنا ضروری اور واجب ہے۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے مہمان جب آئے تو حضرت ابراہیمؑ فوراًان کے کھانے پینے کے انتظام
میں لگ گئے اور جوموٹا تازہ بچھڑا انھیں میسر تھا اسی کا گوشت بھون کر
مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیا۔
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مفہوم:
’’لوط علیہ السلام نے کہا: بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوانہ کرو۔ خدا
سے ڈرواور میری بے عزتی سے باز رہو‘‘۔ (الحجر: ۶۸۔۶۹)
حضرت ابو شریح ؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو تم
میں سے اﷲ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات زبان سے نکالے
ورنہ خاموش رہے،اور جو اﷲ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے اُسے
چاہئے کہ مہمان کہ عزت کرے،مہمان کی خاطر مدارات (کی مدّت) ایک دن ایک رات
ہے،اور عام ضیافت(میزبانی) کی مدت تین دن ہے،اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ
صدقہ ہے۔اور (مہمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا ٹھہرے
کہ اُسے پریشانی میں مبتلا کردے۔
اس حدیث میں ایمان بِاﷲ اور ایمان بالآخرۃ کے دو تقاضے بیان کئے گئے ہیں:
(۱) زبان کی حفاظت ،یعنی غیبت،بدکلامی اور فضول یا وہ گوئی سے پرہیز کرتے
ہوئے اچھے مصرف میں زبان کا استعمال ۔ (۲) فیاضی اور سخاوتِ نفس،اُس کی ایک
شکل یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر اُس کے گھر میں ٹھہرنا چاہے تو بجائے انقباض
اور تنگ دلی کے وسعتِ قلب کے ساتھ اُس کے کھانے پینے اور قیام کا اہتمام
کیا جائے۔ساتھ ہی یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ مہمان کو بھی اتناخوددار ہونا
چاہئے کہ تین دِن سے زیادہ کا بوجھ اپنے میزبان پر نہ ڈالے۔
اِس طرح اگر میزبان کی طرف سے فیاضی کا برتاؤ اور مہمان کی جانب سے خودداری
کا اظہار ہو تو اجتماعی زندگی میں ایک خوش گوار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کیجئے اور نہایت خوش دلی ،وسعت قلب
اور عزت واحترام کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے۔تنگ دلی ،بے رخی،سردمہری اور
کڑھن کا اظہار ہرگز نہ کیجئے۔خاطر تواضع کرنے میں وہ ساری ہی باتیں داخل
ہیں، جو مہمان کے اعزاز واکرام، آرام وراحت،سکون ومسرت اور تسکینِ جذبات کے
لیے ہوں،خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا،ہنسی خوشی کی باتوں سے دل
بہلانا،عزت واکرام کے ساتھ بیٹھنے لیٹنے کا انتظام کرنا۔اور فراخی کے ساتھ
کھانے پینے کا بہتر سے بہترانتظام کرنا اور خودبنفسِ نفیس خاطر مدارات میں
لگے رہنا‘‘یہ سب ہی باتیں’’اکرامِ ضیف‘‘میں داخل ہیں۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ کے پاس جب مہمان آتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بذاتِ
خود ان کی خاطر داری فرماتے۔اسی طرح جب آپ مہمان کو اپنے دستر خوان پر
کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے ’’ اور کھایئے اور کھایئے‘‘۔ جب مہمان خوب
آسودہ ہوجاتا اور انکار کرتا تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اصرار سے باز آتے۔
مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے، تنگ دلی، کڑھن اور کوفت محسوس
نہ کیجئے۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیرو برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور
خدا جس کو آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اُتاردیتا ہے، وہ آپ کے دستر
خوان پر آپ کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور آپ کے
اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
حضرت ابو الاحوص جشمی ؓ اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار
انھوں نے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’ اگر کسی کے پاس میرا گزر
ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور پھر کچھ دنوں کے بعد
اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کرو؟ یا اس کی بے
مروّتی اور بے رخی کا بدلہ اسے چکھاؤں؟ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ نہیں بلکہ تم بہ ہرحال اس کی مہمانی کا حق ادا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھا جائے ۔ اگر
آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروّتی اور روکھے پن کاسلوک
کیا ہو تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراغ دلی، وسعت ظرف اور فیاضی کا سلوک
کیجئے۔اور حتی الامکان اس کی میزبانی میں کوئی کمی مت کیجئے۔
مہمان نوازی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کے تمام عیوب پر پردہ ڈال دیتی ہے۔جو
آدمی اپنے مہمان کی اچھی میزبانی کرتا ہے وہ شخص مہمان کے دل میں اس قدر
جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتاہے کہ مہمان ہمیشہ اس کی تعریف کرتا ہے۔ جب
کبھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کی تعریف بغیر کئے نہیں رکتا۔
حضرات صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین اسی طرح ائمہ کرام اور اکابر علماء
کے یہاں میزبانی کی ایسی ایسی نادر و نایاب مثالیں ملتی ہیں جسے پڑھ کر
آدمی کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ایک انصاری صحابی کا مشہور واقعہ ہے جنھوں
نے اپنے بچوں کو بہلاکر سلادیا او ر جب مہمان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو
بہانے سے چراغ بجھادیا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ گئے تاکہ اس کو یہ
محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں۔
آج یہ چیز جہاں عوام سے مفقود ہوتی نظر آرہی ہیں وہیں دینی حلقوں میں بھی
اس کی طرف توجہ کم ہی نظر آتی ہے۔اس اہم صفت کی طرف توجہ کی ضرورت
ہے۔والدین کو اپنے بچوں کے اندر اس چیز کو ابھارنا چاہئے۔اور خود اس کی طرف
توجہ کرنی چاہئے۔اسی طرح دینی مدارس کے اساتذہ کو بھی اپنے طلباء کے اندر
اس چیز کو ابھارنے کی سخت ضرورت ہے۔یقینا مہمان نوازی کی صفت اختیار کرنے
میں ایک دوسرے سے محبت پروان چڑھے گی۔ایک دوسرے میں کھانے کھلانے ، ہدیہ
تحائف دینے لینے کا جذبہ پیدا ہوگا۔اور انبیاء کرام کی اس سنت کوزندہ کرنے
میں ثواب بھی ملے گا۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بھی مہمان نوازی کی صفت سے متصف
فرمائے۔ آمین |