تھرمیں پیاسی زندگی

قحط تھر کے حالات میڈیا میں آنے کے بعد پاکستان میں زیر بحث بہت سے موضوعات پر گفتگومیں بہت حد تک کمی ہوچکی ہے خاص طور پر طالبان مذاکرات اور سابق فوجی صدر پرویزمشرف پر چلنے والا غداری کا مقدمہ ہے،جس طرف ہوا چلتی ہے ہمارے عوام بھی چل پڑتے ہیں۔پاکستانی عوام کو کسی بڑے صدمے سے نکالنا بھی کوئی مشکل کام نہیں رہا بس میڈیا میں اُس سے بڑے صدمے یا خوش خبری کی افواہ پھیلا دی جائے جو کچھ دنوں میں خود بخود منظر سے غائب ہوجائے گی لیکن عوام تب تک گزشتہ صدمہ بھول کرنیا صدمہ اُٹھانے کیلئے تیار ہوچکے ہوں گے۔ہم لوگ اکثر وقت گزر جانے کے بعد غور وفکر کرتے ہیں ۔جس واقع کے روح پذیر ہونے کے امکانات پہلے سے موجود ہوں اُس کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنا ہمارے بس کی بات نہیں رہی البتہ واقع روح پذیرہونے کے بعد ہم بہت زیادہ فکر مند نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی اخبار یا ٹی وی رپورٹ پر تبصرہ پہ تبصرہ آنے لگتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ مسئلہ نیا ہے یا پُرانا۔ قحط تھر جیسے سانحات پرجہاں سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر تنقید کاموقع میسرآتاہے وہیں انسانی حقوق کی ترجمان تنظیموں کو بھی فنڈ حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور ہاں میرے جیسے نام نہادصحافیوں کو بھی صحافت چمکانے کیلئے بہتر مواد ہاتھ لگ جاتا ہے ۔مجھے میرے خبری نے بتایا ہے کہ تھر میں پیدا شدہ قحط کو قحط سالی کہنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے کیونکہ وہاں سدا سے قحط ہے ۔غذائی قحط میں تو ہر سال کسی حد تک قدرتی طور پر ریلیف مل جاتا ہے لیکن حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کبھی کوئی ریلیف دینے کی کوشش نہیں کی ۔ماضی میں میڈیا کم ہونے کی وجہ سے تھر میں قحط میں شدت آنے پر بھی کسی صحافتی ادارے نے اس قدر رپورٹینگ نہیں کی جس اندازمیں رواں قحط کے دوران ہورہی ہے۔

آج کل پاکستان کے صوبہ سندھ میں تھر پارکر کے اکثر علاقے شدید قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں۔گزشتہ دو،تین ماہ کے دوران غذائی قلت اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کے رہائشی مختلف جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔یہ قحط اب تک 150سے زائد بچوں کی جان لے چکا ہے ۔خبری کا کہناہے کہ تھر کے عوام اس درجہ معصوم ہیں کہ احتجاج کرنا بھی نہیں جانتے ،وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی شکایت سننا اور اُن کے مسائل حل کرنا اﷲ تعالیٰ کے بعد حکومت وقت کے ذمے ہے۔آج میڈیامیں خبریں آنے کے بعد بہت سارے شہری تھر کے عوام کے حالات زندگی دیکھ کر رونے لگتے ہیں لیکن میری طرح کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ تھر سمیت پاکستان کے بہت سے غریب عوام بہترین زندگی بسر کرسکتے ہیں اگر ہم اسلام آباد،کراچی اورلاہور سمیت دیگر شہروں میں بسنے والے صرف فضول خرچی چھوڑ دیں ۔مجھے یہ رپورٹ دیکھ کر حالاتِ تھر سے زیادہ رونا آرہا ہے جس میں لکھا ہے کہ دنیا میں ہر سال خواتین 17ارب روپے میک اپ میں اڑا دیتی ہیں جن میں مقروض ،خیرات لینے والے پاکستان کی خواتین صرف 7ارب روپے اُڑاتی ہیں،آپ سمجھ تو گئے ہوں گے صرف 7ارب۔سمجھ نہیں آتی کہ اپنی میک اپ زدہ خوشحالی پر جشن مناؤں یا تھرسمیت پاکستان بھر میں بیڈگورنس ،حکومتی نا اہلی اور قومی بے حسی پر ماتم کروں ؟ تھرکی قحط سالی چند دن زیر بحث رہنے کے بعد ہمیشہ کی طرح یہ موضوع بھی دفن ہوجائے گا جبکہ ہماری فضول خرچیاں مزید بڑھتی رہیں گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسے ہم قحط سالی کہہ رہے ہیں کہیں یہ ہماری بے حسی تو نہیں؟ہم پیٹ بھرکر کھانے کے بعد جسمانی خوبصورتی پر اربوں روپے اُڑا دیتے ہیں اور ہمارے بہن ،بھائی،بچے اور بزرگ گندم کے ایک ایک دانے اور پانی کی ایک،ایک بوندھ کو ترس رہے ہیں ۔اس حقیقت سے کون نا واقف ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والی خواتین کے میک اپ پر ایک سال میں خرچ ہونے والاسرمایہ تھر جیسے غریب علاقوں کے 10سال کے بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔اب کوئی بتائے تھر میں آنے والا قحط قدرتی آفت ہے یا ہماری بے حسی ؟اگر یہ ہماری بے حسی ہے تو پھر تھر میں جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں سمیت خواتین اور بزروگوں کی ہلاکت کے ذمہ دار(قاتل) بھی ہم سب ہیں ۔جانے یا انجانے میں قتل کرنے کے بعد ہم مقتولین کی موت اور بیماری پر آنسوں بہاتے ہیں ۔حکمران کہتے ہیں کہ ہم حکومت پر صرف تنقید کرتے ہیں تو کیا ہم اُن کی بے خبری اور بے حسی پر پھولوں کی مالا پہنائیں؟میڈیا کا کام مسائل کی نشان دہی کرناہے حکمرانوں کے سہرے گانا نہیں ،اگر حکمران اس بار بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ تھر کے معاملے پر عارضی انتظامات کے بعد عوام بھول جائیں گے تو کسی غلط فہمی یا کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کیونکہ اب ملک میں صرف سرکاری میڈیا نہیں بلکہ بڑی تعدادمیں آزاد میڈیا بھی کام کررہا ہے ۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ انتظامیہ اپنا فرض پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کرے تاکہ تھر کے غریب عوام کی تکلیف کم ہوکر آہستہ آہستہ ختم ہوجائے-
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 524248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.