ڈالر بیچ دوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈالر بیچ دوں یا ابھی رکھوں؟ یہ سوال پچھلے کئی دنوں سے ہر ’ڈالر‘ رکھنے
والا کر رہا ہے۔ گھروں میں، دفاتر میں، نجی محفلوں میں شاپنگ سینٹرز میں
حتیٰ کہ فون پر بھی۔۔۔ہر شخص ایک دوسرے سے مشورہ مانگ رہا ہے جن کے پاس
پہلے سے ڈالر موجود ہیں وہ پوچھ رہے ہیں۔۔’ڈالر بیچ دوں کیا؟۔۔کہیں مزید نہ
’گر‘ جائے۔۔۔ریٹ نہیں بڑھے تو۔۔۔؟جن کے پاس ڈالر نہیں وہ انہیں خریدنے کے
لئے ’ماہرین‘ سے مشورے کر رہے ہیں۔۔’ریٹ دوبارہ کب تک بڑھے گا۔۔۔؟؟ کہاں تک
جائے گا۔۔۔؟؟ سوا سو روپے سے تو اوپر ہی جائے گا نہ۔۔آپ تو عرصے سے لین دین
کر رہے ہیں، مشورہ دیں مارکیٹ سے مزید ڈالر’اٹھا‘ لوں کیا۔ڈالر رکھنے والے
پہلے روز امیر ہورہے تھے، اب ان کی دولت میں کمی آرہی ہے۔ درآمد کرنے والے
خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں تو برآمد کرنے والوں کے چھکے چھوٹ رہے ہیں۔ پہلے
کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ اسحاق ڈار نے کیا جادو کیا ہے، اب آہستہ
آہستہ سمجھ آرہا ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ڈار فیمیلی نے اس
میں بھی مال کمایا ہے، ان کو پہلے سے پتہ تھا کہ ڈالر گرے گا۔ سو انھوں نے
اپنے سارے ڈالر اونچے ریٹ پر بیچ دیئے اور اب دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ بلی
تھیلے سے اس وقت بر آئی جب یہ خبر عام ہوئی کہ سعودی عرب نے حکومتِ پاکستان
کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا ہے تاکہ حکومتِ پاکستان اپنے زرِ مبادلہ
کے ذخائر کو بہتر کر سکے اور اپنے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو ادا کر
سکے اور بڑے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے مکمل کر سکے۔اس قرض کی
اطلاع پاکستانی حکام نے خبر رساں ادارے رائٹرز اس وقت دی جب ورلڈ بنک اور
دیگر اداروں نے اس پر سوال اٹھائے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ ڈیڑھ
ارب ڈالر کے بدلے ملک کی خارجہ پالیسی کا سودا تو نہیں کیا گیا۔پاکستان
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے تو اس بارے میں تحریک التوا سینٹ
میں جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایوان میں بحث کی جائے کہ ایک
اسلامی ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان کو دئیے ہیں کیا اس کا تعلق شام کے
بارے میں پاکستان کی غیرجانبدارانہ پالیسی میں تبدیلی سے تو نہیں؟ فرحت اﷲ
بابر نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کا قرضہ 800 ارب روپے کم ہوگیا ہے کیونکہ ڈالر
کے مقابلے میں روپے کی قیمت بڑھ گئی ہے اور روپے کی قیمت میں یہ اضافہ ڈیڑھ
ارب ڈالر کے بیل آوٹ کے بعد ہوا ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا یقین دلایا جائے
کہ کیا اس کے بدلے ملک کی خارجہ پالیسی کا سودا تو نہیں کیا گیا۔ وزیرخزانہ
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ایک اسلامی ملک جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا
نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دئیے ہیں۔ یہ رازداری بہت سارے سوالات کو جنم
دیتی ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کا قیام کب
اور کس مقصد کے لئے عمل میں لایا گیا اور کچھ عرصہ پہلے قائم کئے گئے
فرینڈزآف ڈیموکریٹک پاکستان کا کیابنا۔ ہمیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ
یہ رقم گرانٹ ہے، مدد ہے یا قرضہ ہے؟ اور اگر یہ قرضہ تو یہ کن شرائط پر
حاصل کیا گیا ہے؟ کیونکہ دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات میں کوئی بھی چیز
مفت نہیں ہوتی۔ اور یہ ایسے امور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکت ۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں
خاص طور پر جب سعودی شاہی خاندان نے ان کی دوسرے دورِ حکومت کے دوران فوجی
بغاوت کے بعد انھیں جلاوطنی کے بعد پناہ فراہم کی۔
پرنس الولید بن طلال نے جو سعودی سرمایہ کار ہیں اور بیت السعود کے رکن ہیں
نواز شریف کو ’پاکستان میں سعودی عرب کا اپنا آدمی‘ قرار دیا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ ایک ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں 105.40 کی قدر سے 4 سے 12
مارچ کے درمیان گر کر 97.40 تک پہنچ گیا جو کہ اس کی قدر میں 30 دن میں سب
سے تیزی سے اضافہ ہے۔ایک پاکستانی اہلکار جو اس لین دین سے باخبر ہیں نے
نام نہ بتانے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ ’وزیراعظم کی ذاتی ضمانت پر
سعودی عرب نے 1.5 ارب ڈالر دیے ہیں جس نے پاکستانی روپے کی قدر کو سنبھالا
دیا ہے۔‘دوسری جانب سعودی مرکزی بینک کے گورنر نے اس پر تبصرہ کرنے سے
معذوری ظاہر کی ہے اور حکام نے اس قرض کی کوئی شرائط نہیں بتائی ہیں۔ایک
اور اعلیٰ اہلکار نے جو لاہور میں رہتے ہیں کہا کہ یہ رقم ایک اکاؤنٹ میں
منتقل ہوئی ہے جسے پاکستان ترقیاتی فنڈ کہا جاتا ہے جو ’دوست ممالک‘ جیسا
کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے رقوم کی ترسیل کے لیے استعمال کیا
جائے گا۔ہمارے پاس 3 ارب ڈالر کے وعدے ہیں جن میں سے اب تک 1.5 ارب ڈالر
موصول ہو چکے ہیں جبکہ ایک اور اہلکار نے کہا کہ ’حال ہی میں ہمیں 750 ملین
ڈالر سعودی عرب سے موصول ہوئے ہیں۔پاکستانی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ
کو اس بات کی تصدیق کی کہ 1.5 ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں مگر اس کے بھجوانے
والے کا نام نہیں بتایا۔ابتدا میں اسحاق ڈار نے ایک پریس کانفرینس میں ایک
رپورٹر سے کہا تھا کہ ’آپ کیوں ہمارے دوستوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتے
ہیں۔ جو ممالک ہماری مدد کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کو ظاہر کیا
جائے۔وزیر خزانہ نے 18 فروری کو ایک نئے فنڈ کی تشکیل کا اعلان کیا جس دن
سعودی ولی عہد اور نائب وزیراعظم سلیمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے تین
روزہ دورے کا اختتام پذیر ہوا تھا۔یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پاکستان کے
نئے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اس فنڈ کی تشکیل سے دو ہفتے قبل
سعودی فرمانروا شاہ عبداﷲ اور اعلیٰٰ سعودی فوجی اہل کاروں سے ملاقات کی
تھی۔دوسری اعلیٰ سطحی سعودی اہل کار جنہوں نے پاکستان کا حالیہ دنوں میں
دورہ کیا ان میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل اور پرنس سلمان بن سلطان
شامل ہیں جو سعودی عرب کے نائب وزیرِ دفاع شامل ہیں۔ دوسری جانب عالمی
مالیاتی فنڈ کے قرض کی تیسری قسط 550 ملین کی صورت میں مارچ کے آخر تک
پاکستان کو موصول ہو گی جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ زرِ مبادلہ کے
ذخائر 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔پاکستان کو 150 ملین اسلامی
ترقیاتی بینک سے مارچ کے مہینے میں ملیں گے جبکہ 150 سے 200 ملین ڈالر کے
قریب کولیشن سپورٹ فنڈ سے بھی موصول ہونے ہیں۔پاکستان کو اس کے علاوہ مئی
کے مہینے میں 500 ملین ڈالر مالیت کے یورو بانڈز جاری کرے گا اور اس کا
منصوبہ ہے کہ نجکاری سے بھی اربوں ڈالر وصول کیے جائیں گے۔بیرون ملک
پاکستانیوں کی جانب سے رقوم کی ترسیل میں 11 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد یہ
اس سال مالیاتی سال کے پہلے آٹھ مہینے کے دوران 10.2 ارب ڈالر تک پہنچ
گئے۔رواں ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں غیر
متوقع طور پر خاصی بہتری دیکھی جارہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک امریکی
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ایک سو کی نفسیاتی حد سے بھی نیچے آ چکی
تھی۔ جس کے بعد پھر اسے سو روپے پر استحکام دیا گیا ہے۔
کرنسی مارکیٹ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے
مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہوتے ہوئے ایک سو کی نفسیاتی حد سے بھی نیچے
جانے کے بعد سو روپے پر آچکی ہے۔ عام آدمی اور ملکی معیشت پر روپے کی قدر
میں بہتری کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔اس بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
مارچ کے اوائل تک چھوٹے بڑے سرمایہ کار حتی کہ عام صارفین بھی ڈالرز خرید
رہے تھے اور یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب کبھی بھی ڈالر کی قدر کم نہیں
ہوگی اور یوں کمائی کی ایک آسان مگر ملکی معیشت کے حوالے سے ایک منفی روش
مضبوط ہوتی جارہی تھی۔ اب رواں ہفتے سے یہ رجحان خاصا بدل چکا ہے۔ مارکیٹ
ذرائع کے مطابق گرچہ اب بھی کچھ بڑے مالیاتی ادارے اور سرمایہ دار شخصیات
مبینہ طور پر کروڑوں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کیے بیٹھے ہیں مگر ڈالر کی قدر
میں حالیہ کمی کے باعث صورتحال تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ڈالر کی قدر میں
کمی یا دوسرے الفاظ میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں حالیہ بہتری کے پیچھے
حکومت کی مانیٹری پالیسیوں کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر
خزانہ اسحاق ڈالر چند ماہ قبل پارلیمان میں خطاب کے دوران کہہ چکے تھے کہ
حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ڈالر کو واپس اس کی حقیقی قدر یعنی ایک
سو روپے سے کم کی سطح پر لایا جائے۔ غیر ملکی کرنسی کی لین دین کا کاروبار
کرنے والی فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین ملک بوستان کے بقول
وزیر خزانہ نے نجی بینکوں کے منتظمین پراسلام آباد منعقدہ ایک ملاقات میں
غیر رسمی طور پر یہ زور دیا تھا کہ وہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ
افزائی نہ کریں بلکہ روپے میں سرمایہ کاری اور اس کی قدر میں بہتری کے
اقدامات کریں۔ ’’ اس وقت پوری دنیا میں پاکستان کے بینک سب سے زیادہ منافع
کما رہے ہیں۔ آپ ان کا سالانہ منافع دیکھیں تو دنگ رہ جائیں گے۔ یہ اربوں
روپے کما رہے ہیں۔ بینکوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پاکستان کی
فراخدلانہ پالیسیوں کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے، تمام نہیں لیکن کچھ
بینک اس میں ملوث ضرور ہیں‘‘۔انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام
کے وقت امریکی ڈالر 98 روپے میں خریدا جا رہا تھا تاہم معاشی، سیاسی اور
امن امان کی مخدوش صورتحال کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار بد گمان
تھے اور یوں ملک کے اندر ڈالر کی آمد کم جبکہ بیرون ملک سے سامان اور خدمات
کی درآمد باعث ڈالر کا اخراج زیادہ تھا۔مبصرین کے مطابق روپے کی قدر میں
بہتری کی ایک اور بڑی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ایشیائی ترقیاتی بینک
اور اسلامی بینک کی جانب سے قرض کی دستیابی بھی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار
اپنے ایک تازہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر
دس ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ وزارت مالیات سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق
پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ ملا
ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق بڑی حد تک غیر متوقع طو پر سعودی عرب
سے کسی دفاعی تعاون کے سسلے میں سات سو ملین ڈالر کی دستیابی اور سعودی عرب
سمیت عرب امارات اور کویت کو تیل کی مد میں ادائیگیوں کے وقت میں چھوٹ نے
بھی پاکستانی روپے کو سہارا فراہم کیا ہے۔ واضح رہے کہ اندازے لگائے گئے
ہیں کہ محض سعودی عرب کی جانب سے خام تیل کی مد میں ادائیگیوں میں نرمی سے
پاکستان کو ماہانہ پانچ سو ملین ڈالر تک کی بچت ہو رہی ہے۔امید کی جارہی ہے
کہ ڈالر کی قدر میں کمی کے اثرات عام صارفین تک دیر سے ہی صحیح مگر پہنچیں
گے ضرور۔ اس کی ایک سادہ مثال پٹرولیم کی قیمتوں میں فی لٹر پانچ سے دس
روپے تک کی کمی کی صورت میں سامنے آسکتی ہے جو مجموعی طور پر تمام اقتصادی
ڈھانچے کے لیے ایک خوشگوار جھونکے کی مانند ہوگی۔بظاہر ڈالر کی قدر میں کمی
کے باعث پاکستانی مصنوعات بیرون ملک برآمد کرنے والے نقصان میں ہیں۔ ذرائع
کے مطابق ایکسپورٹرز حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنے
کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان تمام تر عوامل کے باوجود روپے کی قدر میں
موجودہ بہتری چونکہ صنعتی یا اقتصادی ڈھانچے میں ٹھوس بہتری کی بنیادوں پر
قائم نہیں اسی لیے مستقبل میں روپے کی قدر اور پاکستانی معیشت کے حوالے سے
یک دم بہت زیادہ خوش گمانی لامعنی ہے ۔روپے کی قدر میں اضافہ کیسے ہوا، ایک
تو اسحا ق ڈار کا عزم داد کا مستحق ہے، دوسرے زر مبادلہ کے ذخائر میں
اضافہ، تیسرے جی ایس پی پلس کا فیصلہ، چوتھے میاں شہباز شریف کے غیر ملکی
پھیرے جن کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے پرآمادہ ہو گئے،
پانچویں سعودی عرب اور کویت سے چند ماہ کی تاخیر سے ادائیگی کی شرط پر
پٹرول کی فراہمی کی بات چیت کاآغاز،سونے کی برآمد پر پابندیاں،تھری جی اور
فور جی ٹیکنالوجی کی نیلامی کا فیصلہ،ماہ رواں میں حکومت کو کسی قرضے کی
ادائیگی بھی نہیں کرنی،آئی ایم ایف کی طرف سے معاشی شرح نمو میں2.8 کی جگہ
3.1کے اضافے کی پیش گوئی،بجلی اور گیس کی سپلائی کو متوازن رکھنے کی حکومتی
کوشش،سعودی عرب کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے یا گرانٹ کی فراہمی کا
وعدہ۔اور یہ بھی پہلی دفعہ ہے کہ ڈالر کوکنٹرول کرنے کے لئے اسٹیٹ بنک نے
دخل ا ندازی نہیں کی۔یہ سارے عوامل بھی کارگر ہوئے ہیں ۔ لیکن امن و مان کا
مسئلہ بھی اہم ہے۔ مذاکرت کی سمت پیش رفت اہم قدم ہے۔ اگر ملک میں دہشت
گردی کا بازار گرم رہتا ہے تو کسی بھی معاشی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر
نہیں ہو سکتا۔ تاجر کہتے ہیں کہ ان کی نظر حالات پر ہے جو عالمی سطح پر
رونما ہو رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان پر ڈالروں کی بارش ہو رہی
ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کی امریکی، جاپانی، فرانسیسی ،
برطانوی،آسٹریلوی وزیر اعظم یا صدر یا جرنیل اسلام آباد یا پشاور کے دورے
پر نہ اترتا ہو۔پاکستان کی جیو اسٹریٹجیک اور سفارتی اہمیت ہمارے حوصلوں کو
مہمیز بخشتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ڈالر اور ڈار کے بھونچال نے بڑے بڑوں کی
پھرکیاں گھما دی ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ مصنوعی تھا۔اب
’مصنوعی بحران تو ختم ہورہا ہے۔۔۔یہ جو بار بار ریٹ بڑھ رہے تھے اور ڈالر
کے مقابلے میں روپیہ نیچے آرہا تھا۔۔وہ ’اچھال‘ مصنوعی تھا، ڈالر اصل ریٹ
پر تو اب آیا ہے۔ تجزیہ نگار مزمل اسلم کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے پاس دو ارب
ڈالر آجانے کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ عوام کے پاس اربوں روپے مالیت
کے ڈالر ہیں جو سارے کے سارے رولنگ میں آگئے تو صورتحال مزید خراب بھی
ہوسکتی ہے۔‘کراچی اسٹاک ایکسچینج، کاٹن ایکسچینج، اسٹیٹ بینک آف پاکستان،
کرنسی ڈیلرز کے دفاتر، ٹاور، بولٹن مارکیٹ اور چندریگر روڈ پر واقعی ملکی
اور غیر ملکی بینکوں کے آس پاس آنے جانے والوں لوگوں آج کل سب سے زیادہ جس
موضوع پر بات ہوتی ہے وہ ’ڈالر‘ ہی ہے۔ایک خاتون پریاشان ہیں کہ ڈالر اور
کم نہ ہوجائے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 93روپے فی ڈالر کے حساب سے ڈالر ز
خریدے تھے۔ماہر کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر صرف پاکستانی کرنسی میں ہی
کم نہیں ہوا بلکہ کرنسی کے کاروبار سے جڑے ماہرین کے بقول پورے ایشیائی خطے
کی مارکیٹوں میں بھی ڈالر کو دھچکا لگا ہے، جبکہ یورپ انگلینڈ اور مشرق
وسطی میں صورتحال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ بھارت میں ڈالر کی قدر میں دو
اعشاریہ آٹھ فیصد کمی ہوئی اور بھارتی روپیہ گذشتہ سات ماہ کی بلند ترین
سطح پر آگیا۔بنگلا دیش کے ٹکہ میں بھی ڈالر کے مقابلے میں ایک فیصد اضافہ
ہوا ہے۔حیرت انگیز طور پر عوامی رد عمل یہ ہے کہ ڈالر کم ہوا تو ان کا ذاتی
نقصان ہوگا، یہ سوچ کم ہے کہ اس سے کم آمدنی والوں کو کتنا فائدہ ہوگا۔ یا
یہ چیز کس حد تک اپنے لئے نہیں پوری عوام کے لئے فائدہ مند ہے، معیشت کے
لئے یہ صورتحال کتنی سود مند ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر گرنے سے
پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل سمیت تمام پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے
چاہیئے۔ ایک اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ عوام کو یہ امید ہی نہیں کہ بین
الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کم ہوئے تو ہمارے ملک میں مہنگائی ختم اور
’سستائی‘ بڑھ جائے گی۔ سیاسی مبصرین کو یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے وال،
عوام کو کبھی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ عوام اب بھی پیٹرول خوردنی تیل، اور
دیگر چیزوں کے نرخ میں کمی کا انتظار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی سے پسے عوام اب
ڈالر گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس لئے لوگ ڈالر کے بڑھنے یا ’گرنے‘ کو میں
عوام کیا کیا ہوگا۔ اس بارے میں کون بتائے۔ |