قا رئین کرام !ہم میں سے تقریباًــسبھی لوگ ٹریفک جام کے
مسائل سے دو چار ہوتے ہونگے۔کیونکہ میں نہیں سمجھتی کہ ہمارا نظام کہیں بھی
یہ کہنے کے لائق ہے کہ اب سب ٹھیک ہے یا ٹھیک ہو رہا ہے۔اکثر و بیشتر ہمیں
میڈیا کے ذریعے بھی جانکاری ملتی ہے کہ فلاں فلاں جگہوں پر ٹریفک جام ہے
۔ٹرانسپورٹ کا رک جانا دراصل وقت کو کھو دینے کے مترادف ہے۔اور وقت کی قدر
تو ہم کھو ہی چکے ہیں۔یہی وقت دوران سفر ہمارے لیئے کیا اہمیت رکھتا ہے اور
اس مسئلے کی بدولت ہم کس قر مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں اس کا اندازہ وہ
لوگ ہرگز نہیں کر سکتے جو تقریباً ہر روز احتجاج ریلیاں جلسے جلوسوں کا
اہتمام کرتے نظر آتے ہیں ۔مظاہروں کے دوران جو شرمناک اور افسوسناک مناظر
دکھائی دیتے ہیں ۔وہ ہمارے نظام کے چہرے پہ کسی تمانچے سے کم نہیں ۔ہزاروں
افراد گھنٹوں ان ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔اس دوران بھکاری حرکت عمل
میں آجاتے ہیں۔خدا جانے پیشہ ور بھکاریوں کو ایسا کیوں محسوس ہونے لگتا ہے
کہ مجبوری کے تحت سڑکوں پر رکے یہ خدا کے بندے ان پر رحم کھائیں
گے۔بھکاریوں کے علاوہ لٹیرے عوام کی بے بسی کو اس وقت غنیمت جانتے ہوئے
ہاتھ صاف کرنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں ۔اس طرح کسی کی برسوں کی کمائی ہوئی
محنت ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے جنہیں اپنے ہاتھ صاف کرنے میں ذرا بھی محنت
نہیں کرنا پڑتی ۔روزانہ کتنے مظلوم بے بس لوگ ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ویسے
دیکھا جائے تو روز روز کی وارداتوں سے کچھ لوگ عادی ہو جاتے ہیں۔اور جب ان
سے افسوس کیا جاتا ہے تو کہتے تو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ تو روز کا
معمول ہے۔لٹنا ہی ہمارا مقدر تھا۔
قارئین کرام
اہم بات یہ ہے کہ ٹریفک جام کے دوران انسانیت کی پہچان بخوبی ہو جاتی ہے۔کہ
جب ایمبولینسوں میں جاں با لب مریض تڑپ رہے ہوتے ہیں اور ہم اپنی گاڑیوں
میں پتھر نما بت بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔اس بات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا
کہ ہماری ایک لمحے کی لاپرواہی سے کوئی زندگی کی بازی ہار سکتا ہے۔ہم اس
قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس دوران ہمیں اپنی ذات کے سوا کوئی دوسرا دکھائی
نہیں دیتا ۔ٹریفک جام میں حکومت یا ٹریفک پولیس کا کیا کردار ہے اس کے
برعکس ذمہ داران کے علاوہ خود ہماری اپنی ذات کا کیا کردار ہے۔کیا ہم خود
اس دوران گردو نوح سے نظریں چرائے صرف اور صرف منزل تک پہنچنے کے متمنی
نہیں ہوتے؟
یقینا تب انسانیت کی اصل صورت بے نقاب ہوتی ہے۔کہ جب ہمیں کسی ضروت مند کو
راستہ دینا ہوتا ہے بے حسی خود غرضی کی چادر اوڑھے اپنی منزل کی جانب روانہ
ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ بزرگ افراد بچے اور خواتین بھی دکھائی نہیں دیتے جو
ٹریفک جام میں انتہائی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔عوام الناس کی ذمہ داری بنتی
ہے کہ ٹریفک جام کے دوران احتیاط سے کام لیں۔خاص طور پر پیدل چلنے والے
افراد سڑک عبور کرنے کی تگ و دو میں حادثے کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ نیز
کسی بھی مصیبت کو احتیاط کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔اگر ہم آج بھی اپنی
کوتاہیاں درست کر لیں اپنے فرائض سمجھنے لگیں تو مسائل میں کچھ نہ کچھ کمی
آسکتی ہے۔اور اگر ہمارے اعمال درست ہو رہے ہیں۔تو سمجھیں کہ بہار کے امکان
روشن ہو رہے ہیں۔پروردگا ر ہمیں ہدایت دے اٰمین |