ایک شخص 21 سال کی عمر میں ہی وفات پا گیا۔ ساری عمر کسی
لا ابالی نوجوان کی طرح مزے مستی میں گزار دی۔ دین سے کوئی دلی لگاؤ نہیں……
نہ ہی اﷲ کے احکامات کی پابندی کی…… لہذا وہ دوزخ میں جائے گا۔
دوسرا شخص 60سال کی عمر میں انتقال کرتا ہے۔ ساری عمر گناہوں کے کام کرتا
پھرتا ہے۔ مگر مرنے سے چند سال پہلے نیک کام کرجاتا ہے …… اﷲ والا بن جاتا
ہے……حج کر کے اپنے سارے پچھلے گناہ بھی بخشوا جاتا ہے……سَو وہ جنتی ہوا۔
پہلے شخص کا کیا قصور تھا کہ اسے ساٹھ سال کی عمر تک کی مہلت نہ ملی!!! اگر
مل جاتی تو شاید وہ بھی سدھر جاتا…… ہدایت پا جاتا؟؟؟
’’ اﷲ( کسی پر) ذرہ بھربھی ظلم نہیں کرتا بلکہ ( کسی نے ذرہ بھر بھی) نیکی
(کی )ہو تو اسے بڑھاتااور اپنے پاس سے بڑا ثواب عطا فرما دیتا ہے‘‘۔ سورۃ
النساء آیت ۴۰
چالیس سال…… چالیس سال وہ سارا عرصہ ہے جو اﷲ تعالی ایک انسان کو دیتا ہے
کہ وہ سدھر جائے ، سیدھا ہو جائے، حقیقت کی کھوج لگائے، ہر چیز کی چھان
پھٹک کر لے، کرے غور و فکر اپنے آپ پر اور اپنے ارد گرد پر …… اور بن جائے
اﷲ کا بندہ……
اس چالیس سال کے طویل عرصے میں اﷲ بار بار اپنے بندے کے سامنے ایسے معاملات
اور حالات لاتا ہے جو اسے اس کائنات کے انتظام پر غور و فکر کرنے اور اس کی
جڑ تک پہنچنے پر اکساتے ہیں۔اور بندہ ضرور بار بار ان چیزوں کے بارے میں
سوچتا بھی ہے۔ اب کوئی مال و دولت کے حصول میں، علم حاصل کرنے کی دوڑ میں،
شہرت، عزت، ناموری، نفس کی غلامی اور سب سے بڑھ کر آباء و اجداد کی اندھی
تقلید میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ وہ حق کی جستجو کو ایک غیر ضروری کام سمجھتا
ہے۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو ان مادی اشیاء سے اپنے آپ کو اوپر اٹھا
کر اﷲ سے صدقِ دل سے ہدایت طلب کرتا ہے اور راہِ راست پا جاتا ہے۔
’’ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے۔ اس کی ماں
نے مشقت سے اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت سے اسے جنا۔اس کے حمل اور دودھ
چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔حتی کہ جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا اور چالیس
سال کا ہوا تو کہنے لگا’’ میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر
ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ اور یہ کہ میں اچھے عمل
کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری خاطر میری اولاد کی اصلاح کر۔ میں تیرے
حضور توبہ کرتا ہوں اور بلا شبہ(بغیر کسی شک و شبہہ کے) میں مسلمان ہوں‘‘۔
یہ آیت غور و فکر کا ایک سمندر ہے۔اﷲ تعالی نے صاف صاف بیان فرما دیا کہ
انسان اپنی پوری جوانی یا طاقت کو چالیس سال کی عمر میں پہنچتا ہے۔ جسمانی
طور پر تو انسان چوبیس پچیس سال کی عمر میں اپنی نشونما مکمل کر لیتا ہے۔
مگر سب کو معلوم ہے کہ پندرہ سے ستائیس سال کی عمر تک عموماََ انسان بڑا
غیر سنجیدہ اور لا ابالی سا ہوتا تھا۔ مگر چالیس سال کی عمر تک پہنچتے
پہنچتے وہ ایک پختہ ذہن اور خیالات کا مالک بن جاتا ہے۔ آگے اﷲ پاک نے یہ
بھی فرما دیا کہ اس عمر کے حصے کو پہنچنے کے بعد وہ حقیقی ایمان کو پا لیتا
ہے۔ اﷲ کے احسانات کا شکر کرتا ہے کفر نہیں کرتا……کہ اس نے اسے چالیس سال
کی عمر کے اندر اندر ہدایت دے دی۔ اور اﷲ سے اپنے پچھلے گناہوں کی توبہ بھی
کرتا ہے اور اب شعوری طور پر(بغیر کسی شک کے) اپنے مسلمان ہونے کا پھر
اعلان کرتا ہے ۔
……اور جو چالیس سال کی مہلت پا کر بھی دنیاوی معاملات میں ہی غرق رہتا ہے
اور راہِ راست نہیں پاتا تو پھر اس کے لئے بڑی مشکل ہے۔
اہلِ قرآن(یعنی منکرینِ حدیث) تو صاف صاف کہتے ہیں کہ جو بھی چالیس سال کا
ہونے سے پہلے پہلے وفات پائے گا جنت میں جائے گا( چاہے عیسائی ہی کیوں نہ
ہو)اور جو چالیس سال کا ہو کر بھی مسلمان نہ ہو اور مسلمان نیک عمل نہ
کرے……وہ جہنمی ہے۔ یعنی اس لحاظ سے لیڈی ڈائنا 36سال کی عمر میں انتقال کر
گئیں لہذا وہ جنت میں جائیں گی اور مدر ٹیریسا 87 سال کی تھیں مگر ایمان نہ
لائیں لہذا وہ جہنمی ہیں۔
میری ناقص رائے کے مطابق چالیس سال سے کم عمر پانے والوں کے ساتھ ضرور
رعایت کی جائے گی۔ چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم……اور جو اس سے ذیادہ عمر
پا کر بھی باطل پرستی اور جہالت پر اڑے رہے ان کے ساتھ بہت سختی ہو گی۔(واﷲ
العلم)
حضورؐ پربھی پہلی وحی چالیس سال کی عمر میں نازل ہوئی۔ یقینا اس میں اﷲ کی
ایک حکمت پوشیدہ تھی،ایسے ہی بلا وجہ نہیں(اﷲ پاک ہے اس سے کہ بے وجہ کوئی
کام کرے۔ القرآن)…… ورنہ اﷲ 35 سال کی عمر میں بھی وحی نازل کر سکتا
تھا۔مگر اﷲ نے یہی عمر چُنی انہیں نبوت کی ذمہ داریاں سونپنے کے لئے۔
اسی طرح حضرت موسی ؑ پر بھی چالیس سال کی عمر میں نبوت کا ظہور ہوا۔( یاد
رہے صرف یہ دو پیغمبر ہی صاحبِ شریعت بھی ہیں)۔
چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے کرنے کے کام:
۱۔ سب سے پہلے یہ طے کر لیں کہ آپ مکمل طور پر غیر جانبدار یعنی اپنا ذہن
neutral رکھیں گے۔ جو کچھ بھی آپ کے معاشرے نے اور آپ کے آباء و اجداد نے
ذہن میں ٹھونس دیاہے اسے ایک طرف رکھ کر اپنی جستجو کا آغاز کریں گے۔
۲۔اپنی دینی کتب کا سمجھ کر مطالعہ کریں۔ مسلمان حضرت قرآنِ مجید کا ترجمہ
اور تفسیر پڑھنے کو اپنے روزانہ کے مشاغل میں شامل کر لیں۔
۳۔ یہاں میں نے صرف ایک بار قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے کا ذکر نہیں
کیا۔ کیونکہ یہ نا کافی ہے۔ ہر مفسر اپنی سمجھ کے مطابق قرآن مجید کی تفسیر
بیان کرتا ہے۔چاہے جتنا بھی بڑا مفسر ہو۔انسان ہونے کے ناطے غیر دانستہ طور
پر کوئی بھی بھول چوک کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا ایک سے ذیادہ طبقہ فکر
کے مفسرین کو پڑھنا ضروری ہے تا کہ صحیح رائے قائم کی جا سکے۔
۴۔قرآنِ مجید کو اپنے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں۔بلکہ خود کو
قرآن مجید کے رنگ میں رنگیں۔ علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
کتنے ہوئے فقیہانِ حرم بے توفیق
۵۔احادیثِ مبارکہ کا پورا پورا علم حاصل کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن
نہیں کیونکہ اس کا ذخیرہ بہت ذیادہ ہے۔مگر ایک کثیر تعداد میں احادیث کا
ضروری علم قرآن مجید کی تفاسیر پڑھنے سے خود بخود حاصل ہوجائے گا۔
۶۔بہتر ہے کہ اب دوسری آسمانی کتابوں کا بھی ایک سرسری سا مطالعہ کر لیا
جائے۔ مثلاََ توراۃ و انجیل کا تقابلی جائزہ لے لیا جائے۔ ساتھ ساتھ اور
بھی دینی کتب پڑھنا شروع کر دیں۔
۷۔ اسی طرح تاریخ ،سائنس ، سیاست اور معاشرتی علوم پر بھی کچھ وقت صرف کیا
جائے۔
۸۔ تاریخ میں خاص طور پر دنیا کی قدیم تاریخ، جدید تاریخ، اسلامی تاریخ پر
نظر کرنا ضروری ہے۔
۹۔ تمام فرقوں (خصوصاََ شیعہ سنی مسئلہ)کی اصل اور تاریخ بھی غیر جانبداری
سے جانئیے کہ کیا کچھ ہوا اور کیوں ہوا۔
۱۰۔ علماء اکرام سے سوال جواب اور ان کے نظریات سے استفادہ بھی کرتے رہیں۔
جدید دور میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ، مولانا طاہر القادری، ڈاکٹر ذاکر نائیک،
شیخ عمران حسین، فرحت ہاشمی، جاوید غامدی، نعمان خان وغیرہ ایسے افراد ہیں
جن کے خیالات جاننا ضروری ہیں تا کہ صحیح بات معلوم ہو سکے۔
۱۱۔اب جو بھی اصلاحات آپ کو اپنے اندر نظر آئیں بے دھڑک اصلاح کیجئے چاہے
ساری دنیا آڑے آ جائے۔مثلاََ دین کی تبدیلی، فرقہ کی تبدیلی، فقہہ کی
تبدیلی یا ان چیزوں سے مکمل بے زاری…… یا جو کچھ بھی آپ نے نیک نیتی سے
پایا اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔
نوٹ: یاد رکھیں کہ اگر آپ نے اپنے آپ کو اس جدوجہد میں کھپایا ہے مگر آپ
حقیقی منزل تک اب تک نہ پہنچ سکے، تب بھی اﷲ آپ پر اپنا کرم ضرور کرے گا۔
مگر جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنی موج مستی میں گم ہے …… اسے اﷲ کا خوف کرنا
چائیے)۔
۱۲۔ اگلا قدم اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ کرنے کا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح اور
بہتری تو ساری عمر جاری رکھیں۔دن بدن اپنے ایمان میں اضافے کے لئے سعی
کیجئے۔مگر ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد اور معاشرے کے لئے بھی کچھ کرنا ہو
گا۔مثلاََ امر باالمعروف اور نہی عن لمنکرکا فریضہ انجام دیں اور اقامتِ
دین کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔اس کے لئے کسی نا کسی جماعت یا تنظیم سے
منسلک ہونا پڑے گا۔
وقت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ میں نے ذاتی طور پر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جو لوگ
چالیس سال کی عمر پا جاتے ہیں وہ اپنے خیالات میں بہت پختہ اور ضدی ہو جاتے
ہیں۔پھران کے لئے کچھ سمجھنا سمجھانا نا ممکن سا ہو جاتا ہے۔مگر اﷲ چاہے تو
کوئی بھی شخص کبھی بھی ہدایت پا جائے۔ لہذا جلد از جلد اوپر دئیے گئے نکات
پر غور کریں۔ شاید قارئین حضرات سوچیں کہ اتنا کچھ کرنا تو بڑا مشکل ہے……
تو ایک شعر عرض کرتا ہوں:
یہ شہادت گئے الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
(صرف یہ سمجھنا کہ کلمہ شہادت پڑھ لیا تو جنت ہمارے پیروں تلے ہے…… مضحکہ
خیز بات ہے۔ مسلمان ہونے کے تقاضے پورے کرنا آسان کام نہیں) |