توہین مذہب و رسالت کا پاکستانی قانون سابق فوجی حکمران
جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا۔ بعد میں اسے مزید سخت
کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آتا رہا ہے ۔ اگرچہ ملک کے اندر اور عالمی سطح پر
انسانی حقوق اور سب کے لئے عقیدہ کی مساوی آزادی کا مطالبہ کرنے والی اکثر
تنظیمیں اس قانون کے خلاف آواز بھی بلند کرتی رہی ہیں۔پاکستان کے آئین کے
مطابق وطن عزیز میں تمام مذاہب کو بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ مذہبی حقوق کی
مکمل آزادی حاصل ہے۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اورتمام انسانوں کوایک ہی نظر
سے دیکھاتاہے الہذ امریکی کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات بھی ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن نے پاکستان میں توہین
مذہب کے قوانین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد معطل کرنے کا
مطالبہ کیا ہے ۔ ’’پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین پر نہایت سختی سے عمل
کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے آزادء عقیدہ کا حق متاثر ہو رہا ہے ۔یہ امریکی
کمیشن حکومت کے لئے مشاورتی پینل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پوری دنیا میں توہین
مذہب کے قوانین اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔
اس پس منظر میں خاص طور سے پاکستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے
انسانی حقوق کے حوالے سے تشویشناک قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان میں 14 افراد
کو توہین مذہب کے قانون کے تحت موت کی سزا دی جا چکی ہے ۔ جبکہ 19 افراد کو
طویل المدتی سزائیں دی گئی ہیں‘‘تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے
کہ اس قانون کے تحت پاکستان میں اب تک کسی کی موت کی سزا پر عمل نہیں کیا
گیا۔
یوں تو دنیا کے متعدد ممالک میں توہین مذہب کے بارے میں قوانین موجود ہیں
لیکن انہیں اب متروک قرار دیا جا رہا ہے ۔ اکثر مغربی ممالک میں ان قوانین
کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے ۔ تاہم روس میں دو سال قبل ایک چرچ
میں صدر پیوٹن کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ایک میوزیکل گروپ کی تین لڑکیوں کو
گرفتار کر کے ان کے خلاف چرچ اور مذہب کی توہین کرنے کا الزام عائد کر کے
سزا دی گئی تھی۔ اس اقدام کو دنیا بھر میں سیاسی اقدام سمجھا گیا تھا۔ اب
یہ تینوں لڑکیاں رہا ہو چکی ہیں۔ تاہم یورپ میں توہین مذہب کے استعمال کی
اس مثال پر کافی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اس کے برعکس مسلمان ملکوں میں
توہین مذہب کے قوانین کا استعمال زیادہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ مسلمان اپنے
عقیدہ اور رسول کے بارے میں گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف توہین
آمیز کلمات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ تاہم پاکستان کی صورتحال
اس لحاظ سے منفرد ہے کہ توہین مذہب اور رسالت کے قوانین کو ذاتی انتقام کا
ذریعہ بنانے کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں
آیا ہے کہ کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام عائد ہونے کے بعد مسلح جہادی
جتھے یا عوام کے گروہ ملزموں پر حملہ آور ہو کر انہیں ہلاک کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ اس قانون کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والوں کو عدالتیں اگر بری
بھی کر دیں تو مذہبی تنظیمیں اور عام لوگ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے
ہیں۔رپورٹ میں خاص طور سے اس قانون کے حوالے سے اقلیتوں کے خلاف تیار ہونے
والی فضا کا ذکر کیا گیا ہے’’ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان جیسی
تنظیمیں عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کرتی ہیں‘‘
ان قوانین کی موجودگی میں اس رویہ کو شدت حاصل ہو رہی ہے ۔
گزشتہ برس اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے بھی اس معاملہ کو اٹھایا گیا تھا۔
ملک میں توہین مذہب کے غلط استعمال اور اس سلسلہ میں الزام لگانے کے لئے
جھوٹ اور پروپیگنڈا کا حوالہ دیتے ہوئے متعدد تنظیموں کی طرف سے یہ مطالبہ
کیا گیا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ان لوگوں کے خلاف بھی توہین مذہب کے
قانون کے تحت کارروائی کرنے کا مشورہ دے جو ان قوانین کو غلط استعمال کرتے
ہیں۔ یا مخالفین کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کے لئے اس قانون کا سہارا لیتے
ہیں۔ البتہ نظریاتی کونسل نے غلط استعمال کو افسوسناک مان لینے کے باوجود
یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا کہ اس حوالے سے کسی خصوصی قانون کی ضرورت
ہے یا توہین مذہب کے قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کو بھی اسی قانون کے
تحت سزا دی جاسکتی ہے ۔ کونسل کے خیال میں ملک کے قوانین ایسے معاملات سے
نمٹنے کے لئے کافی ہیں۔ نظریاتی کونسل کے اس مؤقف کے بعد یہ سوال پیدا ہؤا
کہ اگر قانون کا غلط استعمال کرنے والے عام قوانین کے تحت سزا پا سکتے ہیں
تو توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف خصوصی قانون کی کیا ضرورت ہے
۔تاہم ملک میں مذہبی جماعتوں کی سرکردگی میں اس حوالے سے صورتحال کو اتنا
جذباتی بنا دیا گیا ہے کہ توہین مذہب کے موجودہ قانون کے حوالے سے کوئی
متوازن بحث سامنے نہیں آ سکتی۔ اس صورتحال کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں
آیا جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو جنوری 2011ء میں ان کے ہی ایک محافظ
نے سرکاری بندوق سے اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر ہلاک کر دیا۔ حملہ آور کا
کہنا تھا کہ گورنر نے توہین مذہب کے الزام میں ملوث ایک خاتون سے اظہار
ہمدردی کرکے خود توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا۔ بعد میں ممتاز قادری کو
عدالتوں اور کچہری میں ہیرو کا درجہ دیا گیا اور متعدد مذہبی حلقوں کی طرف
سے اسے غازی کا رتبہ دیا گیا۔ جیل میں اسے غیر قانونی طور پر خصوصی اور
امتیازی سہولتیں حاصل ہیں جبکہ اسے موت کی سزا دینے والے جج کو فیصلہ سنانے
کے بعد اپنے اہل خاندان سمیت بیرون ملک پناہ لینی پڑی تھی۔ ممتاز قادری کی
اپیل اب بھی زیر سماعت ہے اور اس پر کارروائی نہیں ہو رہی۔اس قسم کا ایک
واقعہ اگست 2012ء میں پیش آ چکا ہے ۔ اسلام آباد کے نواح میں ایک عیسائی
آبادی کی ایک مخبوط الحواس گیارہ سالہ بچی رمشا مسیح کو قرآنی صفحات جلانے
کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ یہ
الزام ایک مقامی مسجد کے امام کے ایما پر عائد کیا گیا تھا۔ امام کے اکسانے
پر عوام کے ہجوم نے اس ننھی بچی کا محاصرہ کر لیا اور پولیس کو مجبور کیا
کہ اسے گرفتار کیا جائے ۔بعد میں زبردست عالمی دباو کی وجہ سے اس بچی کو اس
مقدمہ سے بری کر دیا گیا تاہم اسے اپنے خاندان سمیت روپوش ہونا پڑا تھا۔ اس
بات کا اندیشہ تھا کہ عام لوگ اسے بے گناہ نہیں مانیں گے اور موقع ملنے پر
انتہا پسند عناصر اسے ہلاک کر دیں گے ۔ اب یہ بھی اپنے خاندان سمیت ملک سے
باہر پناہ لے چکی ہے ۔
یہ دو واقعات ان افسوسناک سانحات کو نمایاں کرتے ہیں جو توہین مذہب کے نام
پر ملک میں رونما ہوتے ہیں۔ اس قسم کی ہر صورتحال میں علاقے یا محلے کا
امام لوگوں کو اکسانے کا سبب بنتا ہے ۔ لوگ خود ہی پولیس ، جج اور جلاد کا
رول ادا کرنے پر آمادہ اور تیار ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ان قوانین کے بارے
میں غور و خوض بے حد ضروری ہے ۔زیر نظر رپورٹ چونکہ ایک امریکی ادارے کی
طرف سے سامنے آئی ہے اس لئے اسے بیرونی سازش قرار دے کر آسانی سے مسترد کر
دیا جائے گا۔ لیکن اس میں جو حقائق اور صورتحال پیش کی گئی ہے اس کی تصدیق
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یا دیگر آزاد ذرائع سے بھی کی جا سکتی ہے
۔پاکستان اور اس کے عوام کو اپنے عقیدے کا تحفظ کرنے اور اس کے احترام کا
تقاضہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ اس بنیاد پر دیگر اقلیتوں سے ان کے عقیدے
کی آزادی نہیں چھین سکتے ۔ نہ ہی بے گناہ لوگوں کو غلط بیانی اور جھوٹے
پروپیگنڈے کی بنیاد پر اس قانون کے تحت سزا دلوانا اسلامی یا اخلاقی طور پر
درست ہو سکتا ہے ۔ ان حالات میں ان قوانین میں دور رس اصلاحات کی ضرورت ہے
اور خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی سخت سزا کا سزاوار سمجھنا چاہئے ۔ |