سائنس کی دنیا میں حیرت اب کم ہی ہوتی ہے۔ دنیا برق
رفتاری سے اپنا سفر کر رہی ہے اور سائنس کی حیران کن ایجادات اب انسان کو
ایک نئی دنیا کی سیر کرا رہی ہیں۔ کیا پہلے آپ سوچ سکتے تھے کہ ایک پلک کی
جببش سے تصویر کھیچ لی جائے۔لیکن اب یہ ممکن ہے۔ اب چھلکتی روشنی والا لیمپ
بھی آگیا ہے۔ جس سے آپ روشنی کو مختلف زاویے دے کر اپنے کمرے کو چار چاند
لگائیں.
ہنگری سے تعلق رکھنے والے تخلیق کارPeter Toronyنے ایک ایسا لیمپ تخلیق کیا
ہے، جس میں سے چھلکنے والی روشنی سورج گرہن کی منظر کشی بھی کر سکتی ہے۔
چارج ایبل بیٹری کی مدد سے روشن رہنے والے اس لیمپ کی بنیادی شکل فٹ بال
جیسی ہے۔ تاہم یہ گولائی تین مختلف ٹکڑوں یا حصوں کا مجموعہ ہے، جس میں ایک
درمیانی یا مرکزی حصہ ہے، جس کی دائیں اور بائیں جانب دو ڈھلوانی حصے ہیں۔
یہ دونوں حصے یا ٹکڑے درمیانی حصے میں موجود لوہے کی پلیٹ سے مقناطیس کی
مدد سے جوڑے گئے ہیں۔ان دونوں حصوں اور مرکزی حصے کے درمیان خلا یا ’’درز‘‘
رکھی گئی ہے۔ اس خلا یا Gapکے باعث ان دونوں حصوں کو انگلیوں کی مدد سے
مختلف سمتوں میں بہ آسانی حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس حرکت دینے کے عمل کے دوران
لیمپ کے درمیانی حصے اور دونوں جانب موجود حصوں سے روشنی دکھائی نہیں دیتی۔
تاہم دونوں حصوں اور مرکزی حصے کے درمیان میں موجود خلا سے روشنی کا اخراج
ہوتا ہے اور یہی روشنی کا اخراج اس لیمپ کا طرہ امتیاز ہے۔ مختلف زاویوں سے
نظر آنے والی یہ روشنی دیکھنے والے کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔
واضح رہے کہ لیمپ کے درمیان 5واٹ کے دو LEDبلب لگائے گئے ہیں، جس کے ساتھ
بیٹری بھی موجود ہے۔ لیمپ عمدہ پولی میر مادے سے بنایا گیا ہے۔ کمرے میں
روشنی پھیلانے کے بجائے روشنی کو مقید کرنے کے بعد خوب صورت زاویوں سے
چھلکانے والے اس لیمپ کو بہ آسانی لٹکایا بھی جاسکتا ہے اور کسی ہموار سطح
پر رکھ کر کمرے کی خوب صورتی میں چار چاند لگائے جاسکتے ہیں۔
اسپرنگ بیٹری
برقی آلات میں اب دو کی جگہ چار بیٹریاں بہ آسانی سما سکتی ہیں
روزمرہ کی زندگی میں برقی آلات کے لیے بیٹریوں کا استعمال لازم و ملزوم ہے۔
اس حوالے سے مختصر جگہ گھیرنے والی بیٹریوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اسی سوچ
کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے نوجوان طالب علموں نے ایک ایسی بیٹری تشکیل دی
ہے، جس کی شکل دیکھنے میں میکینکل اسپرنگ جیسی ہے۔ اس بیٹری کو بہ آسانی
برقی آلات میں بیٹری لگانے کے مختلف سائز کے خانوں میں لگایا جاسکتا ہے۔ دل
چسپ بات یہ ہے کہ اگر ایک اسپرنگ بیٹری کی قوت مدھم ہونے لگے تو بیٹری کی
پھیلنے اور سکڑنے کی سہولت کے باعث اس کے ساتھ دوسری اسپرنگ بیٹری لگاکر
آلے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی دو بیٹریوں کی جگہ کی گنجائش میں بہ
آسانی چار بیٹریوں سے دیر تک کام لیا جاسکتا ہے۔ تین طالبات ہینگ کن، مینگ
ڑن، ہی تنگ اور ایک طالب علم لیویان کی اس کاوش کو عالمی سطح پر پذیرائی
حاصل ہوئی ہے۔
لپیٹا جانے والا چولہا
جسے کھانے کے برتن پر لپیٹیں اور پھر گرما گرم کھانا کھائیں
WrapStoveسیر سپاٹے کے دوران کھانا گرم کرنا ایک دقت طلب مسئلہ ہے۔ بالخصوص
ساحلی مقامات پر تو تیز ہوا آگ جلنے ہی نہیں دیتی۔ تو پھر جناب! کیا کیا
جائے؟
پریشان مت ہوئیے۔ اس مشکل صورت حال کا حل ایک ایسے پٹی نما چولہے کی شکل
میں سامنے آچکا ہے جس کو آپ بہ آسانی پتیلی یا کسی بھی برتن پر باہر کی
جانب لپیٹ کر حسب مرضی کھانا گرم کرسکتے ہیں۔ اس تخلیق کے موجد ’’وان چول
ہانگ ‘‘ کا کہنا ہے کہ ان کے اس چولہے یا گرم پٹی میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر
مقناطیس کے چھوٹے ٹکڑے لگائے گئے ہیں، جو Wrapstoveپٹی کو پتیلی کی بیرونی
سطح سے چپکائے رکھتے ہیں۔ جب کہ درج? حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے پٹی میں
ٹچ اسکرین رکھی گئی ہے، جس میں موجود کنٹرول پینل سے پٹی کو اپنی سہولت کے
مطابق استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بعد ازاں اسے تہہ کرکے سفری بیگ میں رکھا جاسکتا ہے۔ لچک دار چارج ایبل
بیٹری کی سہولت سے آراستہ اس چولہے میں پولی مر مادے سے بنی لچک دار حرارتی
تہہ(Heating Film)لگائی گئی ہے، جو چولہے میں ہیٹر کا کام دیتی ہے۔ یہ پٹی
نما چولہا سیاحوں میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔
اْلٹی چھتری
چھتری بند ہونے پر پانی ٹپکنے کے مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالا گیا
عموماً بارش کے دوران چھتری استعمال کرنے والے جب کسی خشک جگہ پر پہنچتے
ہیں اور چھتری بند کرتے ہیں، تو اس میں سے ٹپکنے والی بوندیں اس جگہ کو
گیلا کردیتی ہیں، اور اگر ایسے میں فرش پر قالین وغیرہ بچھا ہو تو صورت حال
مزید خراب ہوجاتی ہے۔
اس نامناسب صورت حال سے نکالنے کے لیے جنوبی کوریا کے ڈیزائنروں نے ایک
ایسی چھتری ڈیزائن کی ہے جس کا بیرونی گیلا حصہ چھتری کو بند کرتے وقت اندر
کی جانب چلا جاتا ہے اور اس طرح بوندوں کی شکل میں گرنے والا پانی فرش پر
یا استعمال کنندہ کے کپڑوں پر نہیں گرتا۔ اس مقصد کے لیے تینوں ڈیزائنررز
آہان مو، کم تی ہان اور سیو ڈانگ ہان نے چھتری کھولنے اور بند کرنے والی
تیلیوں کو عام استعمال کی تیلیوں کے برعکس زیادہ لچک دار بنایا ہے۔
ڈیزائن کے مطابق اس چھتری کو بند کرتے ہوئے عام استعمال کی چھتریوں کے
برعکس جب چھتری بند کرنے کے لیور کو اوپر سے نیچے کی جانب لایا جاتا ہے، تو
چھتری کے اوپری حصے پر لگائی گئی تیلیاں اندر کی جانب سمٹتے ہوئے بیرونی
گیلے حصے کو اندر کی جانب بند کردیتی ہیں۔ اسی انوکھی خصوصیت کے باعث چھتری
کو’’ الٹی چھتری‘‘ کا نام دیا گیا ہے-
سائنس نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اور یقینا اگر ترقی
کی یہی رفتار برقرار رہی تو اگلے پانچ سے دس سال میں بہت کچھ مزید بدل جائے
گا۔ ایک وقت تھا جب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر نے ہر جگہ دھوم مچا رکھی تھی تاہم
امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اب اپنی زندگی
کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس کے اسٹوروں میں اب ڈیسک ٹاپ
کمپیوٹر کا شاہد ہی کوئی پیس نظر آجائے کیونکہ ان کی جگہ لے لی ہے لیپ ٹاپ
کمپوٹرز نے۔ لیپ ٹاپس کے اکثر نئے ماڈلز میں استعمال کیا جانے والا مائیکرو
پراسسر ڈیسک ٹاپ کے مقابلے میں طاقت، ریم میموری اور ہارڈ ڈسک بھی نمایاں
طور پر زیادہ ہے۔ گرافک کارڈ بہتر ہیں اور انٹرنیٹ کے لیے زیادہ قوت کے
وائی فائی استعمال کیے گئے ہیں۔
لیب ٹاپ کے اکثر نئے ماڈلز کو ڈیسک ٹاپ کے متبادل کا نام دیا جا رہا ہے۔
قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پانچ سو سے سات سو ڈالر میں آپ ایک ایسا لیپ
ٹاپ لے سکتے ہیں جو آپ کو ڈیسک ٹاپ کی ضرورت سے بے نیاز کرسکتا ہے اور آپ
جس جگہ چاہیں، آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ بجلی کے کنکشن کا
جھنجھٹ اور نہ انٹرنیٹ کی تار لگانے کی ضرورت۔ نئے طاقت ور لیپ ٹاپ وزن میں
ہلکے ہیں، ان کی بیٹری دیر تک چلتی ہے یعنی آپ چھ سے آٹھ گھنٹے تک بیٹری
چارچ کیے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ اب ایسے لیپ ٹاپ بھی دستیاب ہیں جن کی بیٹری
پندرہ گھنٹوں تک چلتی ہے۔ ایک طرف جہاں ڈیسک ٹاپ کی جگہ لے رہا ہے لیپ ٹاپ
تو دوسری طرف لیپ ٹاپ کی بقا بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔
چار پانچ سال پہلے لیپ ٹاپ کے مقابلے میں نیٹ بک متعارف ہوئی تھی۔ یہ ہلکا
پھلکا لیپ ٹاپ ایسے لوگوں کے لیے تھا جو زیادہ تر انٹرنیٹ پر رہتے ہیں۔ نیٹ
بک کے بعد کے ماڈلز کو لیپ ٹاپ کا متبادل بنانے کیلئے ان میں طاقت ور
مائیکرو پراسیسر، زیادہ ریم میموری اور بڑی ہارڈ ڈیسک لگائی گئی۔ نیٹ بک
ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو ہی رہی تھی کہ اس پر شب خون مارا ایپل نے آئی
پیڈ کی شکل میں۔ آئی پیڈ ایک طرح سے نیٹ بک ہی ہے، مگر اس کا وزن کم تھا،
کارکردگی بہتر تھی، بیٹری زیادہ چلتی تھی اور دیکھنے میں کہیں زیادہ جاذب
نظر تھی۔ آئی پیڈ کی نقل میں بہت سی ڈیجیٹل کمپنیاں بھی اسی طرح کے اپنے
کمپیوٹر مارکیٹ میں لے آئیں۔ امریکی مارکیٹوں میں اب نیٹ بک ڈھونڈے سے ہی
کہیں دکھائی دیتی ہے اور ہر جگہ اپنے جلوے دکھا رہے ہیں آئی پیڈ طرز کے منی
کمپیوٹر۔ منی کمپیوٹرز کی اس نئی نسل نے صرف نیٹ بک اور روایتی لیپ ٹاپ کو
ہی اپنا نشانہ نہیں بنایا بلکہ الیکٹرانک بک ریڈرز بھی اس کی زد میں آگئے
کیونکہ وہ اپنی شکل وشہبات اور حجم میں بک ریڈرز سے بہت قریب ہیں، جس پر آپ
ڈیجیٹل کتابیں پڑھنے کے ساتھ کمپیوٹر کی سہولت کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
ان منی کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کی بہتات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بک ریڈر
جو چند سال پہلے تک چار پانچ سو ڈالر میں ملتا تھا، اب ایک سو ڈالر سے کم
میں بھی دستیاب ہیں مگر کوئی خریدار نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی جگہ لینے کا یہ
سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔
آئی پیڈ طرز کے کمپیوٹرز کو اب نگل رہا ہے سمارٹ موبائل فون۔ گذشتہ دو
برسوں کے دوران سمارٹ فونز کے سائز نمایاں طور پر بڑے ہو چکے ہیں۔ اور
مارکیٹ میں پانچ سے سوا پانچ انچ سائز کے فونز عام فروخت ہو رہے ہیں۔ ان
میں طاقت ور مائیکرو پراسیسر نصب ہیں۔ نئی نسل کے کئی سمارٹ فونز اب ڈبل
کور پراسیسرز کے ساتھ آ رہے ہیں اور ان ریم میموری دو جی بی ہے جب کہ قابل
استعمال میموری سولہ سے بتیس جی بی ہے جب کہ ان میں چونسٹھ جی بی فلیش
میموری کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ گویا ایک طرح سے آپ کے پاس چھیانوے جی
بی ہارڈ ڈسٹک موجود ہے جو نیٹ بک اور آئی پیڈ ٹائپ منی کمپیوٹرز سے کہیں
زیادہ ہے۔ ان میں این ٹائپ طاقت ور وائی فائی انٹرنیٹ اور جی فور کی سہولت
فراہم کی گئی ہے جس سے اس کی انٹرنیٹ کارکردگی ایک اچھے اور معیاری لیپ ٹاپ
جیسی بن گئی ہے۔ ان سمارٹ فونز میں دو کیمرے فراہم کیے گئے ہیں۔ سامنے کے
رخ ویڈیو چیٹنگ کے لیے تقریبا دو میگا پیکسلز کا کیمرہ لگایا گیا ہے جب کہ
پیچھے کی جانب آٹھ میگا پیکسلز کا زوم کیمرہ ہے، جو نہ صرف معیاری تصویر
اتار تا ہے بلکہ 1080 ایچ ڈی ویڈیو فلم بھی بنا سکتا ہے۔ بعض ماڈلز میں
سولہ میگا پیکسلز کے کیمرے نصب ہیں۔
نئے سمارٹ فونز کے کیمروں میں کئی ایسے فنگشنز بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو
اس سے پہلے صرف اعلی معیار کے پروفیشنلز کیمروں میں ہی ملتے تھے۔ نئے سمارٹ
موبائل فونز اب لیپ ٹاپ کی ہائی ریزلوشن سکرین کے ساتھ آ رہے ہیں۔ اس طرح
سمارٹ فونز کی نئی نسل، صرف فون ہی نہیں ہے بلکہ وہ بیک وقت ایک طاقت ور
منی کمپیوٹر بھی ہے، ایک معیاری سٹل اور ویڈیو کیمرہ بھی ہے، ایک ڈیجیٹل بک
ریڈر بھی ہے، ایک جدید جی پی ایس بھی ہے جس سے آپ راستے معلوم کر سکتے ہیں
اور اس کے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے سڑکوں پر ٹریفک کی تازہ ترین صورت حال سے
بھی باخبر رہ سکتے ہیں۔ نئے سمارٹ فونز میں ٹی وی کی سہولت بھی موجود ہے
اوران پر آپ اپنی پسند کے ٹی وی چینلزلائیو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک فون
میں کئی ڈیجیٹل آلات کی خصوصیات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ اکثر تجریہ کاروں
کا کہنا ہے کہ آج ہمارے زیر استعمال بہت سے سائنسی آلات آئندہ پانچ سے دس
برسوں میں روزمرہ زندگی سے نکل جائیں گے اور ان سب کی جگہ لے لے گا ایک
سمارٹ فون، جو کمپیوٹر سے لے کر گھر کے الیکٹرانک آلات کو کنٹرول کرنے والے
ریموٹ تک کی بجائے استعمال کیا جانے لگے گا
جدید عینک جو پل بھر میں تصویر کھیچ لے۔
گوگل کمپنی کی جدید ترین عینک کے ذریعے صرف پلک کی ایک جْنبش سے تصویر
کھینچی اور ویڈیو اپ لوڈ کی جا سکتی ہے۔ اس ہائی ٹیک چشمے سے پیغام بھیجنے،
رابطہ کرنے اور زبانی ہدایات کے ذریعے بہت سے دوسرے کام بھی ممکن ہو سکیں
گے۔کمپنی کے مطابق گوگل گلاس نامی اس ہائی ٹیک چشمے میں ایسی نئی خصوصیات
متعارف کروائی گئی ہیں، جن سے ذاتی معلومات اور پرائیویسی بھی برقرار رہے
گی۔ گوگل نے ان عینکوں میں ایک انتہائی جدید آلہ لگایا ہے، جو ہمہ وقت
انٹرنیٹ سے منسلک رہتا ہے۔ کمپنی کے سوشل نیٹ ورکنگ کے پیج گوگل پلس پر
لکھا ہے، ’’ہم نے ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جس کی مدد سے آپ صرف پلک
جھپک کر اپنے یادگار لمحوں کو بہت آسانی سے قید کر پائیں گے، اس بیان میں
مزید لکھا ہے، ’’ہم تصویر لینے سے شروع کر رہے ہیں لیکن ذرا سوچئے کہ ہم اس
سے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘بیان کے مطابق گوگل اْس جگہ تک پہنچنا چاہتا ہے،
جہاں یہ چشمہ پہننے والا صرف ٹیکسی کے میٹر کی ریڈنگ کو دیکھ کر اپنی آنکھ
کو حرکت دے تو کرایہ کی ادائیگی ہو جائے۔ اگر کسی دکان میں کوئی چیز پسند آ
جائے تو صرف پلک جھپک کر اْسے خریدا جا سکے۔یہ ٹیکنالوجی جتنی آسان لگتی
ہے، استعمال کرنے والے کی ذاتی معلومات سے متعلق اتنے ہی بڑے خطرے بھی لے
کر آئی ہے۔ ذاتی ڈیٹا سے متعلق خطرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس چشمے کے
سافٹ ویئر میں بہتری لائی گئی ہے۔ اب اس چشمے کا مالک ایک مخصوص کوڈ کے
ذریعے اسے مقفل کر پائے گا۔ لاک کرنے کی سہولت کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی
کو صحیح کوڈ نہیں پتہ تو وہ عینک کا غلط استعمال بھی نہیں کر پائے گا۔گوگل
گلاس کے نئے سافٹ ویئر میں ایسی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں کہ چشمہ پہننے
والا کسی بھی ویڈیو کو براہ راست یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر سکے گا۔ فیس بک اور
ٹوئٹر سمیت کئی کمپنیوں نے بھی گوگل گلاس کے لیے خصوصی ایپلیکشن بنائی ہیں
لیکن ان ایپس تک صرف اْن سافٹ ویئر ڈویلپرز اور مخصوص یوزرز کو رسائی حاصل
ہے، جو گوگل گلاس کے لیے پندرہ سو ڈالر (تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے ) ادا کر
چکے ہیں۔اس ہائی ٹیک عینک سے تصویر کھینچنے، ویڈیو بنانے، پیغام بھیجنے،
رابطہ کرنے اور بول کر دی گئی ہدایات کے ذریعے بہت سے دوسرے کام بھی ممکن
ہو سکیں گے۔ یہ آلہ وائی فائی کے ذریعے انٹرنیٹ یا موبائل کے نیٹ ورک سے
بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خریداری کرنے یا کسی بھی جگہ کے
موسم کی تازہ معلومات سے لے کر ویڈیو گیمز کھیلنے میں بھی اس چشمے کا
استعمال ہو سکتا ہے۔ کمپنی کی طرف سے گوگل گلاس کو مارکیٹ میں لانچ کرنیکے
لئے ابھی کوئی دن تو مقرر نہیں کیا گیا ہے لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں
کہ اس سال یہ ہائی ٹیک چشمہ عام شہریوں کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔
ستارہ شماری‘، جدید ترین یورپی دوربین کے ذریعے یورپی اسپیس ایجنسی کی جانب
سے جمعرات کے روز ایک بلین ڈالر سے زائد مالیت کے ایک پروجیکٹ کے تحت ایک
انتہائی جدید دوربین خلا میں روانہ کی جا رہی ہے، جس کا مقصد ملکی وے
کہکشاں کا سہ جہتی نقشہ تیار کرنا ہے۔اس دوربین کے ذریعے حاصل شدہ تھری ڈی
ماڈل سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ مِلکی وے کہکشاں میں زمین اور نظام شمسی کس
جگہ پر قائم ہیں۔ اس دوربین کو سویوز ایس ٹی بی فریگٹ راکٹ کے ذریعے
فرانسیسی گنی سے روانہ کیا جائے گا۔ گائیا (Gaia) نامی اِس دوربین کو عرف
عام میں ’ڈسکوری مشین‘ یا ’دریافتی آلہ‘ کہا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا
ہے کہ اس دوربین سے حاصل شدہ ماڈل ملکی وے میں زمین کی پوزیشن کے حوالے سے
سابقہ اندازوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اس دوربین کی تیاری پر ایک اعشاریہ دو
بلین ڈالر لاگت آئی ہے۔یورپی خلائی ایجنسی ESA کے مطابق گائیا کی ممکنہ
دریافتیں انوکھی اور سائنسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہوں گی۔اس
دوربین کا ایک اہم ہدف ملکی وے کہکشاں میں موجود ستاروں میں سے ایک فیصد یا
تقریباً ایک بلین ستاروں کی پوزیشن کا پتا چلانا ہے۔ دوربین کے اس کام کو
’اسٹرونومیکل سینسس‘ یا ’ستارہ شماری‘ قرار دیا گیا ہے۔فرانسیسی سائنسدان
فرانکوئس مگرانڈ کے مطابق دو برسوں کے عرصے میں آسمان کی ایک بہتر تصویر
انسان کے سامنے ہو گی۔اس پروجیکٹ پر ایک ارب ڈالر سے زائد لاگت آئی ہے
۔واضح رہے کہ اس سے قبل سن 1989 میں یورپ کی جانب سے ہیپرکوس نامی ایسا ہی
ایک مشن روانہ کیا گیا تھا، جس پر اس وقت کے جدید ترین آلات نصب تھے۔ اس
دوربین نے چار برس تک کام کیا اور مجموعی طور پر ایک لاکھ اٹھارہ ہزار
ستاروں کی پوزیشن اور تصاویر انسان کو مہیا کیں۔ آج بھی اس مشن سے حاصل
شدید تصاویر کو سائسندان اور خلانورد استعمال کرتے ہیں۔گائیا دوربین چھ
جہتوں کی حامل ہے، جب کہ اس میں نصب آلات ہیپرکوس کے مقابلے میں دو سو گنا
زیادہ حساس ہیں۔ ESA کی ویب سائٹ کے مطابق اگر ہیپرکوس کے ذریعے چاند پر
موجود کسی خلانورد کا قد ناپا جا سکتا تھا، تو گائیا کے ذریعے اس کی انگلی
کے کسی ناخن تک کی بھی پیمائش کی جا سکتی ہے۔خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ
دوربین سورج سے 150 نوری سال کے فاصلے پر موجود تقریباً پچاس ہزار اجرام
فلکی کو دریافت کر پائے گی۔سائنسدانوں کے مطابق اس دوربین کو مریخ اور
مشتری کے درمیان پہنچایا جائے گا اور اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو گا کہ یہ
اْن خلائی چٹانوں کا پتا چلائے جو کسی وقت زمین کے لیے خطرے کا باعث ہو
سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دوربین کی مدد سے تباہ ہوتے ستاروں کا ریئل ٹائم
نظارہ بھی کیا جائے گا اور ’بْجھ جانے والے ستاروں‘ پر بھی نگاہ رکھی جا
سکے گی۔سائنسدانوں کے مطابق اس دوربین کے ذریعے آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ
اضافیت کی جانچ بھی ممکن ہو گی۔ عمومی نظریہ اضافیت کے مطابق کسی بڑے
آبجیکٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے روشنی کے انعکاس کی وجہ سے کسی ستارے کی
پوزیشن میں دیکھنے والے کے لیے معمولی فرق پیدا ہوتا ہے۔
چین نے اپنا ایک روبوٹ مشن کامیابی کے ساتھ چاند کی سطح پر اتار دیا ہے۔ اس
طرح چین، امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے بعد چاند پر ایسا کوئی کامیاب
مشن اتارنے والا تیسرا ملک بن گیا ہے۔ ایک تجربہ گاہ میں ایک تاریک
آڈیٹوریم میں تقریباً ڈھائی سو چینی نوجوان ایک پروجیکٹر سے برآمد ہو کر
سکرین پر پڑنے والی نیلی روشنی اور نمودار ہوتی تصاویر اور الفاظ کو بغور
دیکھنے میں مصروف تھے۔ وہ چین کے لونر پروجیکٹ کے بانی اویانگ زی ڑوان کی
ملک کے خلائی پروگرام کے مستقبل سے متعلق گفتگو کو انہماک سے سن رہے
تھے۔ایک ایسے وقت پر کہ جب امریکا اور دوسرے ممالک خلائی پروگرامز کے
اخراجات کی مد میں نمایاں کمی کر رہے ہیں، چین اس شعبے میں زیادہ سرمایہ
کاری کر کے خود کو ایک ابھرتی ہوئی سپر طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ یہ
کچھ ایسا ہی ہے، جیسا امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے زمانے
میں تھا۔ تب خلائی تحقیق کے شعبے میں سنگ میل عبور کر کے دونوں ممالک ایک
دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔چین میں خلائی شعبے میں
بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔بیجنگ حکومت نوجوانوں کی دلچسپی خلائی شعبے
کی جانب مبذول کرانے کے لیے اپنے گزشتہ روور مشنز چانگ ای ون اور چانگ ای
ٹو سے حاصل کردہ تصاویر، ماڈلز اور خلائی راستوں کو مختلف سیمنارز اور
ورکشاپس میں دکھا رہی ہے۔ ہفتے کے روز چاند کی سطح پر اترنے والے نئے روبوٹ
مشن چانگ ای تھری جیڈ ریبٹ سے حاصل کردہ تازہ تصاویر بھی سامنے لائی جا رہی
ہیں اور کچھ ایسی خیالی تصاویر بھی دکھائی جا رہی ہیں، جن میں چاند کی سطح
پر ایک خلانورد نظر آ رہا ہے، جو وہاں سرخ چینی پرچم گاڑ رہا ہے۔رواں ہفتے
بیجنگ میں معروف چینی سائنسی ویب سائٹ گوکر کی جانب سے نوجوانوں کے ساتھ 78
سالہ اویانگ زی ڑوان کی اس ملاقات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اویانگ زی ڑوان
چینی خلائی پروگرام کے سابق سربراہ ہیں۔ان کا کہنا تھا، ’کمیونسٹ پارٹی کی
سینٹرل کمیٹی ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ ہم چاند سے بھی آگے
بڑھیں۔ چین پہلے ہی ڈیپ اسپیس ایکسپلوریشن کی اہلیت کا حامل ہے۔‘ان کا کہنا
تھا کہ چین پورے نظام شمسی کو مسخر کرے گا۔چین میں زیادہ تر افراد چاند کی
جانب اس جست کو پوری قوم کے لیے قابل فخر سمجھتے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے
کہ اس معاملے میں چین امریکا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بیجنگ میں قائم
انٹرنیشنل اسپیس انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ماؤریسیو فلانگا کے
مطابق، ’مغربی خلائی سائنسدان یہ بات جانتے ہیں کہ چین خلا کو مسخر کرنے کی
اہلیت کا حامل ہے اور اسی لیے وہ چینی سائنسدانوں اور خلائی پروگرام کا
تعاون چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ چینی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا اور روس
کے مدمقابل کھڑے ہیں اور ایک عالمی طاقت بننے کو ہیں۔واضح رہے کہ سن 2010
میں چین نے پہلی مرتبہ ایک انسان کو خلا میں بھیجا تھا جب کہ وہ سن 2020 تک
زمینی مدار میں گردش کرنے والا اپنا ایک مستقل خلائی اسٹیشن قائم کرنا
چاہتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے کہ جب امریکا، روس، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے
خلائی اسٹیشنز اپنی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ بات بھی قابل
ذکر ہے کہ امریکا نے خلائی تحقیق کے شعبے میں ناسا کو مہیا کیے جانے والے
سرمایے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔
|