انسان خوداپنی بربادی کا ضامن!

آج کے عہد میں جس قدر جدتیں ،راحتیں ،آسانیاں اور آسائشیں دنیا میں عام ہورہی ہیں اسی قدر انسان پریشان اور دکھی ہے ۔زندگی اس کے لیے ایک عذاب اورمسئلہ بن کر رہ گئی نیز جینا دوبھر ،اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے وہ کیا کر رہاہے اور کیا ہورہا ہے ۔اس کے تمام کام ایک مقام پر آکر برباد ہورہے ہیں ، جس کی پاداش میں اسے ناقابل برداشت صدمے جھیلنے پڑرہے ہیں ۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟جب یہ سوال مذاہب و ملل سے پوچھا گیا تو وہ بر ملا کہہ اٹھے کہ انسان نے ہمیں بھلا دیا ۔ہمارے وہ اصول جن سے سماجی اور معاشرتی زندگیوں میں خوشی کے رنگ بھرے جاتے تھے ۔انسانیت وفا کی چھاؤں میں سانس لیتی تھی اور ایک دوسرے کی قدرو احترام کی تلقین ان میں موجودتھی انسان نے انھیں چھوڑدیا۔ یہ سب وہ آسان اور کارآمد فارمولے تھے جن سے زندگی کے بڑے بڑے مسائل حل چٹکی ہوتے تھے ۔ان کی مثال اس بارش رحمت کی سی تھی جو پیاسی زمین پر برس کر اسے لالہ زار کر دیتی ہے ۔وہ کتاب زندگی یا دستور حیات کے بہترین اسباق تھے اور زندگی کے گذران کے لیے ناگزیر بھی ۔ جن کی بد ولت کشیدہ ،آتش فشاں اور بھڑک جانے کے قریب مواقع و حالات امن و آشتی اور محبت و مودّت میں تبدیل ہوجاتے تھے ، انسان ان سے لاپرواہ ہو گیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی ا س کی زندگی بے رنگ اور چیچک زدہ ہو گئی ہے۔

مذاہب کی تعلیمات میں عبادات کے بعد جس بات کی ہدایت بڑے اہتمام سے دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان انسان کی اہمیت و قدرکا انداز ہ کر ے اور اسے تکلیف نہ دے ۔ انسان انسانوں کی نفع رسانی کے لیے سرگرداں رہے اور زمین والوں پر مہربانیاں کرے ۔اسلام کی تعلیمات وہدایات میں عبادات الہٰی اور اطاعت رسول کے بعد دوسرا درجہ انسانیت کے ساتھ بھلائی کر نے کا ہے۔ یہ سلسلہ ماں باپ سے شروع ہو کربہن بھائی ،بیٹی بیٹا،عزیز رشتے اور جملہ انسانیت تک پہنچتا ہے ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ انسان نے خود اپنے پیرو ں کلہاڑی ماری ہے اور خود ہی ظلم ایجاد کیاہے۔ عصر حاضر میں جب کہ ساری دنیا آپسی سر پھٹول اور سازشی طاقتوں کے فریب کاریوں میں آکر ان مقدس رشتوں کو پامال کر رہی ہے ۔ آج جب کہ ایک انسان کو دوسرے انسان ن ناطہ ٹوٹ چکا ہے ۔آج جب کہ بھائی بھا ئی کی جان کی دشمن ہے ۔محلے ،قبیلے ،خاندان ،طاقتیں ،جماعتیں ،گروہ ،ممالک اور ساری دنیا اپنے ساتھ کسی کا وجود برداشت کر نے کو تیار نہیں ہے۔موجودہ حالات میں جب کہ تمام جہان سر گر داں ہیں۔مذاہب اور خدا بے زار انسانیت ان حالات کے حل تلاش کرنے میں قدم قدم پر ناکام ہے اور حالات کی ڈور سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی جارہی ہے ،ایسے قیامت خیز حالات میں مذاہب کی تعلیمات کی اہمیت و معنویت دو چند ہو جاتی ہے ۔جدید عہد قدیم عہد کو فرسود ہ مانتا ہے اور گیا وقت کہہ کر اس کا مضحکہ اڑاتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قدیم عہد کے اصول ہی دلیل زندگی تھے اور فروغ امن کے ضامن بھی ۔پرانے اصول اور پرو ٹوکول کبھی بھی فرسودہ نہیں ہوئے ،ہاں !اتنا ضرور ہے کہ انسان کی عقل ماری گئی ہے ۔اسے علم تو اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ خدا کو اور کائنات کو پہچانے، مگر اس نے’ علم‘ خداوندی ضابطوں اور اصولوں کو توڑنے میں لگادیا ۔اس نے خدا کی جانب سے عطا کر دہ قلم اور علم کو فطرت کے اصولوں کا متبادل بنانے میں صرف کر دیا ۔مطلب علم کا مس یوز ،غلط استعمال اور مقصد سے ہٹ کر کام لیا جارہا ہے اور اس طرح انسان جانے انجانے ظلم و زیادتی کر رہا ہے ۔عربی کا ایک جملہ ہے ’وضع الشّی فی غیر محلہٖ ظلم‘ (چیزوں کا غیر مقام میں استعمال ظلم و زیادتی ہے۔) مگر افسوس! انسان کو اس کا احساس ہی نہیں ہے ۔معاشرے اس کی کر توتوں کی باعث تباہی کے دہانے کھڑے ہیں ۔سماج کا اتحاد کب کا بکھر چکا اور بستیوں کے باشندوں کے دل ایک عرصے سے پھٹے ہوئے ہیں ۔

انسان اس وقت تو چیخ اٹھتا ہے جب اسے فطرت سزا دیتی ہے ۔وہ فطرت کو گالم گلوچ تک کر دیتاہے ۔اپنے ہم جنس ،بھائی ،انسان ،سب کی طرف اپنی بر بادی کو منسوب کر دیتا ہے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ مگر اسے اپنا ظلم نہیں دکھتا ۔اسے اپنی کر تو ت نظر نہیں آتیں اور نہ ہی گناہوں کا احساس اس کے دل میں آگ لگاتا ہے۔

مذاہب ملل نے ہر انسان کو ایک پر امن اور زندگی بخش ضابطۂ حیات دیا ہے اور اسے بار بار تلقین کی ہے کہ اگر دنیا میں پر امن زندگی گذارنی ہے تو ان ہدایات پر عمل ناگزیر ہے ۔اسے سبق پڑھا یا گیاہے کہ یہ ہدایات نہ صرف تمہارے لیے بلکہ جمیع انسانیت کے لیے مفید و کا ر آمد ہیں ۔ایسا نہیں ہے صرف تم ہی انھیں سیکھو بلکہ یہ بھی تم پر فرض ہے کہ ان کی تبلیغ کرو اورانجان لوگوں تک پہنچاؤ ۔مگرانسان اس ضابطہ ٔ حیات،تلقین اور سبق کو بھول گیا ۔اس کے بدلے اس نے انسانیت کو دشمنی ،لڑائی ، نفرت ،تعصب ،علاقا ئی ، خاندانی،ذاتی،زبانی اور پیشہ وارانہ عظمتیں دیدیں ۔انسا ن خود ہی من گھڑت طریقوں سے افضل و بر تر بن بیٹھا اور دوسروں کو اس نے کمتر و ذلیل کر دیا حالانکہ قرآن کریم نے اس طرح کے تمام تصورات کو کالعدم قرار دیتے ہو ئے فرمایا ہے:
’’تمہارے قبیلے اور خاندان اس لیے بنائے گئے ہیں تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ،اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تم میں مکر م وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہوگا ۔‘‘

دنیا میں پر امن زندگی کی تلقین پر عمل نہ کر کے انسان نے خوداپنی راہ چنی اور نتیجتاً بر بادی اس کا مقدر بنی،ایسا نہیں ہے کہ اسے سمجھایا نہ گیا یاغلط سمت جانے سے روکا نہیں گیا ،خالق فطرت نے تو اپنے محبوب بندے اور مقدس کتا بیں تک چھوٹی چھوٹی باتوں پر نازل کر دیں، مگر انسان نہیں سمجھا ،وہ نہیں رکا ۔بالآخر چلتے چلتے جب آگے کے راستے بند ہوگئے تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ،پیچھے کے راستے بھی اس کے لیے بند ہوچکے تھے۔وہ گھبرایا اور ان اندھیریوں سے نکلنے کے لیے لاکھ ہاتھ پاؤں مارے مگر نتیجہ صفر رہا۔اب وہ خود اپنی ذات سے جنگ کر رہا ہے اور خود پر لعن طعن کر رہا ہے ۔عالم ہیجانی میں کبھی خوفناک قہقہے لگاتا ہے اور کبھی فلک شگاف چیخ مارتا ہے۔

اسے امانت دی گئی تھی کہ انجانوں تک اچھائیاں پہنچائے مگر اس نے اس کے بجائے ان تک ایٹم بم ،اسلحہ جات ،گالیاں ،تباہی کے منصوبے اور آلات قتل پہنچادیے جن کے باعث انسانیت قتل ہو رہی ہے اور مقدس اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔

اس طرح انسان نے خود پر ظلم کر کے اپنی ہی زندگی بر بادی کر لی اور دنیا کا امن غارت ہو گیا ۔وہ خود ہی اپنی بربادی کار تباہی کا ِضامن ہے اور خود ہی ذمے دار ۔اسے کوئی حق نہیں کہ وہ فطرت ،قدرت،تقدیر ،تدبیر، تعلیمات ،ضابطوں ،قوانین اور اصولوں کو برا بھلا کہے اور اپنی کرتوتوں کا ٹھیکر ان پر پھوڑے ۔چو نکہ یہ بھی ظلم ہوگا اور انسا ن’ غیر محل‘ کو الزام دے کر پھر ظلم ایجاد کر ے گا۔

IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62233 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More