ایک تھے ہَوا خا ن جو بات بات پر اپنے اندر سے ہَوا خارج
کرتے تھے ،اُوہ میرا مطلب اپنے منہ سے بار بار ڈَکار لے کر ہَوا خارج کر کے
اپنے آپ کو خوشبودار ماحو ل فراہم کرتے ۔
ایک تھے مصیبت خان جو ہر وقت کسی نہ کسی مصیبت میں گِھرے رہتے اور ایک
مصیبت سے جان کیا چُھٹتی دوسری دروازے پر کھڑی دَروازہ ا بَجابَجاکر مصیبت
خان کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی۔
دراصل مصیبت خان اور ہَوا خان کا رِشتہ بہت ہی زیادہ قریبی ہے جسے عام زبان
میں خون کا رِشتہ اورآسان زبان میں بھائی بھائی کا رِشتہ کہ لیتے ہیں ،
دراصل ان دونوں کا نام اسلئے اتنا مختلف ہے کیوں کے انکے والدین جن کے
ذریعے یہ دنیا میں سانس لے رہے ہیں اُن کے نام بھی کچھ ایسے ہی تھے،والد کو
پیار سے شامل خان کہا جاتا اور والدہ محترمہ مشغول بیگم کے نام سے مشہور
تھیں ،کیوں کے والد فالتو کاموں میں ٹانگ اَڑاکر ہر کسی کے کام میں شامل
ہوجاتے اور سب اَکڑم شَکڑم کردیتے اور اِنکی بیگم جب اپنے دماغ کو کسی بھی
چیز میں مشغول کرتی پھر اِنہیں وہاں سے ہلانا تو دور کی بات ہاتھ بھی نہیں
لگا سکتے وہ تو ایسی جم جاتی اُس جگہ پر کے کوئی چماٹ بھی لگائے تو اثر نہ
ہو-
آئیے میں آپکو خا ن ہَوا اور خان مصیبت کے بارے میں اِن کی کچھ سِیدھی
اُلٹی،میڑی ٹیڑی باتیں بتاؤں ،اِنکی باتوں کی وجہ سے میں نے بھی جلدی میں
کچھ الفاظ اُلٹے پُلٹے ہی لکھ ڈالے باقی تو آپ سمجھدار ہیں کچھ خود بھی
سمجھئے کیوں کے ،ہر جگہ پکا پکایا حلوا نہیں ملتا ،چلیں اب اُن الفاظوں کی
طرف جو مصیبت اور ہَوا کے منہ سے کچرے اور پھول کی مانندجَھڑ رہے ہیں-
ہَواخان ۔اُٹھ مصیبت وہ دیکھ سورج ٹھنڈی ٹھنڈی پھینک رہا ہے
مصیبت خان۔کیا !
ہَوا خان۔ یار ہَوا
مصیبت خان۔ابے سورج تو گرم پھینکتا ہے تیری طرح
ہَوا خان۔ آج سورج سے میں نے کہا تھا کے ہمیں کبھی اے سی کی ہَوا بھی
کھلادیں
مصیبت خان۔واہ ! تو سو رج سے بھی با ت کر لیتا ہے
ہَوا خان۔ہاں ہاں !
مصیبت خان۔اچھا تو میرے سامنے کرنا بات
ہَوا خان۔اَبے وہ تیرے سامنے کریگا تو اُسے مصیبت آجائیگی
مصیبت خان۔چل بے اِتنا بُرا ہوں میں
ہَوا خان۔لے تجھے اب معلوم ہُوا ہے
مصیبت خان۔اچھا چھوڑ،چل ناشتہ کرلے
ہَوا خان۔میں نے پکڑا کب ہے ،اور میں نہیں کر رہا ناشتہ
مصیبت خان۔کیوں !
ہَوا خان۔ یار کل پھر صبح کرنا پڑیگا بھئی،
مصیبت خان۔ تو پھر زندہ کیسے رہے گا کھا ئے گا نہیں تو !
ہَوا خان۔یار ایسا نہیں ہو سکتا کے ہم ایک ہی دفعہ کھانا کھالیں اور پھر
بھوک بھی نہ لگے
مصیبت خان۔ہاں ہو سکتا ہے اگر یہ سائنسدان ایسی کوئی دوائی بنادیں جس سے
بھوک ہمیشہ کے لئے مٹ جائے
ہَوا خان۔ ابے ،ایسا ممکن ہے
مصیبت خان۔بلکہ تو ایک کام کرلے
ہَواخان ۔ کیسا کام !
مصیبت خان۔ تو کھانے کے بعد ایلفی سے اپنا منہ بند کرلے،نہ کھانا پھریگا نہ
بھوک لگے گی،
ہَوا خان۔ زبردست آج ہی لگاؤں گا
مصیبت خان۔ ( دل میں کہا ) آج تو اِسکو مصیبت میں ڈال دیا ہا ہا ہا
ہَوا خان۔ کچھ کہا ! اچھا سُن یار میں کہ رہا تھا کے آج ہم گیند بلّا کھلیں
مصیبت خان۔نہ بھئی نہ ،گیند کروانا ایک مصیبت ہے
ہَوا خان۔تو وہ میں کروا لونگا
مصیبت خان۔واہ اس طرح تو ،تُو اکیلا گیند کھیلے گا
ہَوا خان۔ ہاں تو تُو بلّے سے کھیلتے رہنا، نا
مصیبت خان۔ہَٹ بے، میری ہَوا جام ہوجائیگی پھر مجھے بھی سب ہَوا خا ن کہیں
گے اور اسطرح تمہیں سَب ہَوا خان اور مجھے ہَوا خان ٹُو کہیں گے
ہَوا خان۔ یہ تو بہت اچھا ہوجائے گا یا ر، ہمارے گھر میں ہَوا ہَوا ہوگی
مصیبت خان۔اُوئے ہَوا خان ایک بات تو بتا ،
ہَوا خان۔ پوچھ مصیبت
مصیبت ۔یارا یہ ہمارے پڑوس میں جو شعیب رہتاہے ،کیسا انسان ہے !
ہَوا خان۔اَبے ہماری طرح ہے ،ہمارے بھی دو ہاتھ،دو آنکھیں،دوپاوٗں ،ایک
سَر،اُسکے بھی ہماری طرح ہیں ،وہ انوکھا تھوڑی ہے
مصیبت خان۔اُف،یارتو تُو ہَوا میں باتیں کرے جارہا ہے ،پہلے سُن تو سہی
،میرا مطلب کیسا کردار ہے اُسکا ،کوئی اچھائی ہے یا بُرا بُراہے
ہَواخان ۔ ابے یہ کیا پوچھ لیا تو نے !
مصیبت خان ۔کیوں کیا ہُوا !
ہَوا خان۔ وہ دیکھ وہ جارہا ہے سامنے سے
مصیبت خان۔ابے ،یہ تو بڑا طُوفان ہے یار
ہَوا خان۔ طُوفا ن کیسے !
مصیبت خان۔اور کیا ، دیکھ نام لیا ،طُوفان کی طرح تیزی سے آگیا ،
ہَوا خان۔ ابے چُپ طُوفان کا نام مَت لے ،کہیں وہ بھی اصلی میں نہ آجائے
مصیبت خان۔اچھا نہیں لیتا ،اب بتا نا یار شعیب کے بارے میں
ہَوا خان۔ یار بہت ہی سیدھاسادہ ،خوبصورت ،محبت و الفت اور سب کا خیال
رکھنے والا انسان ہے
مصیبت خان۔پر میں نے تو سُنا تھا بہت ہی مزاحیہ ہے،مزاحیہ نہیں ہے کیا !
ہَوا خان۔ ہاں ،یار بہت ہی زیادہ ،کسی کوبھی ،کسی بھی وقت،کہیں بھی ،کسی
بھی طرح ،اپنے کسی ایک الفاظ سے ،مسکراہٹ کی پٹاری،اُس کے چہرے پر اُنڈیل
دیتا ہے
مصیبت خان۔ابے یہ کیسی خاصیت ہے ،پھر تو میں اُسکے پا س نہیں جاؤں گابھئی
ہَوا خان۔ کیوں !
مصیبت خان۔مجھے ہنسا ہنسا کر میرا پیٹ پھاڑ دیگا
ہَوا خان۔ پر ہنسنا تو صحت کے لئے بہت ہی مُفیدہے
مصیبت خان۔چل بے ایسا بھی کیا ہنسنا،کے پیٹ ہی نہ رہے
ہَوا خان۔ لیکن اور بھی اُسکی اچھی عادات ہیں
مصیبت خان۔وہ کیا !
ہَوا خان۔ وہ ٹیچر بھی ہے ، بچوں کو کئی سالوں سے پڑ ھا رہا ہے ،بہت اچھا
پڑھاتا ہے ،
مصیبت خان۔پر مجھے تو پڑھایاہی نہیں !
ہَوا خان۔ تُو کیا کریگا پڑ ھ کے !
مصیبت خان۔انسان بنوں گا یار
ہَوا خان۔ ابے تو جانور ہے کیا ! ہا !!! مجھے تونے بتایا نہیں
مصیبت خان۔ابے تو بھی اُلّو ہے، میرا مطلب اچھا کامیاب انسان بن جاؤں گا
ہَوا خان۔ کیا فائدہ ، رہے گا تو پھر بھی مصیبت !
مصیبت خان۔اُف ،پڑھنے نہ دے مجھے تُو، اچھا اور بتا نا یار،کیا ایک ایک بات
بتا رہا ہے اُسکی
ہَوا خان۔ اُسے تعریفیں کرنے کا بہت شوق ہے ،خاص کر لڑکیوں کی ،جہاں کوئی
جاننے والی لڑکی دیکھی بس پھر اُسکا منہ بند ہی نہیں ہوتا ،
مصیبت خان۔کیسے کرتا ہے تعریف،مجھے بھی بتا !
ہَوا خان۔ ایک دفہ دیکھا تھا میں نے ،شعیب صاحب ایک لڑکی کی تعریف کر رہے
تھے اور الفاظ کچھ یوں تھے
مصیبت خان۔واہ ،کیا الفاظ ہیں !
ہَوا خان۔ ابے سُن تو لے ،
مصیبت خان۔اچھا سُنا ،
ہَوا خان۔ رُک ذرہ گلہ صاف کرلوں ،ہمم،انہوں نے لڑکی سے کہا ، کیا آنکھیں
ہیں یار ،دل چا ہتا ہے تمہاری آنکھوں میں ڈُپکیاں لگاؤں ،تمہاری زلفیں ،واہ
کیا بات ہے ،جب یہ ہَوا میں لہراتِیں ہیں تو
مصیبت خان۔ تو !
ہَوا خان۔ لڑکی پوچھتی ہے تو ! وہ کہتے ہیں جیسے کوئی پری ہو تم ،آسمان سے
میرے لئے آئی ہو ،اگر وہ سُن کے مسکُرائی تو تعریف کے انبارلگاتے ہیں اور
اگر لڑکی نے کچھ کہا ، تواِن الفاظ میں اپنی جان بچاتے ہیں ،کے مزاق تھا
یار ، آپ بُرا نہ ماننا ،
مصیبت خان۔ابے یہ تو بڑے چُھپے رُستم ہیں ، ہَوا
ہَوا خان۔ہاں بہت،بس آخری بات اور، وہ یہ کے بڑے پُہنچے ہوئے ہیں وہ،
مصیبت خان۔ابے ،آسمان پے
ہَوا خان۔ابے پاگل ،نہیں ،کوئی کام دے نااُنکو تو محنت کر کے کسی بھی طریقہ
سے کر ہی لیتے ہیں ،دیکھ اُن کے ذہن میں کچھ نہیں آیا تو ، ہَواخان اور
مصیبت خان کے نام سوچ کر اُنکی باتیں لِکھ دیں ،اور خود بھی اپنے آپ کو اس
میں شامل کر کے نام روشن کرنے کی کو شش کر رہیں ہے،
مصیبت خان۔ابے تو یہ اب بتا رہا ہے مجھے !
ہَواخان ۔تو !
مصیبت خان۔پہلے بتاتا ،میرا منہ دُکھ گیا بول بول کے ،اب بہت ہوگیا ،چل
اُسکے پاس چلیں اور پاؤں پکڑ کر گُزارش کریں کے اب اور مت لکھو ہمارے بارے
میں ،
ہَوا خان۔ہاں یار ،میرا منہ بھی گرنے والا ہے اب ،
مصیبت خان۔تو یہاں کھڑا ہو کر گِرنے کا انتظار کرتا رہیگا ،چل
ہَوا خان۔ہاں چل،اور اُن سے کہیں گے آئندہ ہمارے بارے میں نہ لکھیں ،ورنہ
میں ان پر ہَوا چھوڑ دونگا
مصیبت خان۔اور میں مصیبت بن جاؤں گا ،
ہَوا خان۔وہ تو تُو پہلے سے ہے،
مصیبت خان۔چل لے اب
ہَوا خان۔ہاں چل |