کسی کتاب یا دستاویز پر تبصرہ کرنا بھی ایک فن ہے
تَبصِرَہ نگاری ادب کی ایک معروف اور اہم صنف ہے۔ اصنافِ ادب ’افسانوی
اورغیر افسانوی ادب‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبصرہ نگاری غیر افسانوی ادب کے
زُمرَہ میں آتی ہے ۔تبصرہ اپنے معنی اور وسعت کے اعتبار سے اہمیت لیے ہوئے
ہے۔ تبصرہ پڑھ کر کتاب کے بارے میں بڑی حد تک اندازہ کرلینا کہ اس میں کیا
کچھ ہے آسان ہوتا ہے ۔تبصرہ کے لغوی معنی ’تفصیل، تصریح، توضیح، تشریح کے
ہیں۔ جامعُ اللغات کے مطابق ’تبصرہ کسی بات کے متعلق رائے ظاہر کرنے کے ہیں‘۔
ایک مغربی مفکر نے تبصرے کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’ ’تبصرہ،
دستاویز یا کتاب کے متن کو مختصر اور صحیح طو ر پر اس انداز سے بیان کرنا
کہ وہ اصل دستاویز معلوم ہو‘‘، گویا تبصرہ اصل دستاویز کا نچوڑیا حاصل ہوتا
ہے۔ ’اردو لغت‘مرتبہ اردو ڈکشنری بورڈ میں تبصرے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
’کسی کتاب یا رسالے وغیرہ کو پڑھ کر اس کی خوبی یا خامی کے بارے میں رائے
دینا‘‘یا ’کسی امر یا واقعہ کے بیان میں خوبی اور خامیوں کا ذکر‘ تبصرہ
کہلاتا ہے۔رفیع الدین ہاشمی کے خیال میں ’‘’تبصرہ مصنف کو حوصلہ بخشتا ہے
اور اُسے سوچ کے نئے زاوئے
عطا کرتا ہے اور اسے اپنی تخلیق پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دیتا ہے‘‘۔
تبصرہ ’خلاصے ‘ سے مختلف ہوتا ہے ۔ خلاصے میں مضمون یا دستاویز میں کیا کچھ
ہے انتہائی اختصار سے بیان کیا جاتا ہے ۔ عطش درانی کے خیال میں’ تلخیص کسی
عبارت کو کم از کم الفاظ میں اس طرح لکھنا کہ اس عبارت کا تاثر برقرار رہے
اور کوئی بات محل نظرنہ ہو‘ تلخیص نگاری کہلاتی ہے‘۔اس کے برعکس تبصرے میں
کتاب کے مندرجات اور اسلوب ِ بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے
مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبصرہ قاری کو کتاب کے
بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس کی بنیاد پر قاری
اس دستاویز یا کتاب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوجاتاہے۔
تبصرہ کے لیے سائز (Lenth)مقرر نہیں ہوتا یہ ایک پیراگراف بھی ہوسکتا ہے
زیادہ بھی۔ طویل اورکئی صفحات پر مشتمل تبصرہ مضمون کی شکل اختیار کر لیتا
ہے اور وہ اس کتاب یا دستاویز کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ بن جاتا ہے۔بسا
اوقات مدیران کی جانب سے قَدغَن لگا دی جاتی ہے کہ تبصرہ دو سے چار سو
الفاظ سے زیادہ نہ ہو۔ تبصرہ نگار کو اس پابندی پر بھی عمل کرنا ضروری ہوتا
ہے۔ عام طو پر یہی دیکھا گیا ہے کہ تبصرہ مختصر ہی ہوتا ہے۔ طویل تبصرے
پڑھنے والوں کے لیے مشکل کا باعث بن جاتے ہیں۔ڈاکٹر سفیر اختر کے خیال میں
’تبصرہ کو بہت زیادہ بے لاگ بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی بہت فراخ دل۔
جہاں محقق کی غلطیوں کی نشاندھی کی جائے وہیں ساتھ ہی بتادیا جائے کہ غلطی
کی نوعیت کیا ہے‘۔
تبصرہ نگار کی خوبی اور مہارت یہ ہو نی چاہیے کہ کتاب ، صاحبِ کتاب اور اس
موضوع پر مختصر اظہار خیال خوبصورت انداز سے بیان ہوجائے۔ یہی ایک اچھے
تبصرے کی خوبی بھی ہوتی ہے۔ تبصرہ کتاب کی تعریف و توصیف بیان کر نے کا نام
نہیں ساتھ ہی غیر ضروری تنقید بھی تبصرہ نہیں کہلاتی اس میں میانہ روی اور
غیر جانب داری کی چاشنی کا پایا جا نا تبصرے کی اصل روح ہے۔مکمل اور معیاری
تبصرہ وہ ہے جسے پڑھ کر قاری اس کتاب یا دستاویز کے بارے میں یہ رائے قائم
کرلے کہ یہ کتاب اس کی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے یا نہیں۔
کتاب کی اشاعت سے قبل اگر مصنف کسی سے کتاب کے بارے میں کچھ لکھواتا ہے تو
وہ دیباچہ یا تقریظ کے زمرے میں آتا ہے۔ دیباچہ یا تقریظ عام طور پر تنقیدی
نہیں ہوتی اگر کوئی لکھنے والا دیباچے یا تقریظ میں مصنف کی تحریر پر
تنقیدی تقریظ یا دیباچہ لکھتا ہے تو مصنف کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس
دیباچے کو کتاب میں شامل نہ کرے جیسا کہ سرسید نے اپنے کتاب ’آئین اکبری‘
جو ۱۸۵۵ء میں مکمل کی اور دیباچہ لکھنے کی درخواست مرزا غالبؔ سے کی ، مرزا
نے تنقیدی مثنوی لکھ کر سر سید کو بھیج دی۔ یہ تقریظ ثنائی نہیں تھی بلکہ
تنقیدی تھی۔ اس میں سرسید کو کچھ مشورے دئے گئے تھے۔ سر سید نے تقریظ میں
کی گئی تنقیدکو قبول نہیں کیا اور غالبؔ کی اس تقریظ کو عَلَی الاِعلَان
کتاب میں شامل بھی نہیں کیا۔ چھپی ہوئی کتاب پر تنقیدی تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر مصنفین ادبی رسالوں کو اپنی نگارشات تبصرے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
مدیران سے یہ درخواست نہیں کی جاتی کہ تبصرہ صرف تعریفی ہی ہو ۔ تبصرہ
لکھنے والا آزاد ہوتا ہے کہ وہ جس قسم کا تبصرہ چاہے لکھے اور تبصرہ نگار
کتاب کے کسی نہ کسی کمزور پہلو کی نشاندھی تبصرہ میں ضر ر کرتا ہے۔ انگریزی
زبان میں تبصرہ نگاری کی تاریخ ۱۸۴۰ء سے شروع ہوتی ہے جب ایڈگر ایلن پوئی
(Edgar Allan Poe)نے معروف ’’گراہم میگزین‘‘ (Graham's Magazine) میں
کتابوں پرتبصرہ کا آغاز کیا۔
ادبی رسائل اور اخبارات کتب پر تبصروں کو اہمت دیتے ہیں اور ایک تسلسل اور
اہتمام کے ساتھ کتب پر تبصرے شائع کرتے ہیں جب کہ اخبارات کم از کم ہفتہ
میں ایک دن کتب پر تبصرے شائع کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مختلف ماخذات اشارے،
خلاصہ جات کی طرز پر تبصروں کے ماخذ بھی شائع ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان میں
تبصروں پر مشتمل ماخذ کی اشاعت ایک عام سے بات ہے جیسے لندن ریویو آف بکس
(London Review of Book, LRB) ۱۹۷۹ء سے برابر شائع ہورہا ہے ۔ اس کے ہر
شمارے میں ۱۵ سے۲۰ کتب پر ماہرین تعلیم، مصنفین اور صحافت سے تعلق رکھنے
والوں کے تحریر کردہ تبصرے شامل ہوتے ہیں۔ نیوآرک امریکہ سے نیو آرک ریویو
ز آف بکس (The New York Reviews of Books, NYREV or NYRB) ایک پندرہ روزہ
جریدہ ہے جس میں ادب، کلچر اور حالاتِ حاضرہ پر مضامین کے علاوہ نئی کتب پر
تبصرے بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کا اخبار ’نیو آرک ٹائم ‘
تسلسل کے ساتھ ’نیوآرک ٹائمس بک ریویو‘ (The New Yor Times Book Review)
شائع کرتا ہے۔اس اخبار میں ۱۹۹۶ء سے تبصرے شائع کئے جارہے ہیں۔
اردو زبان میں اس قسم کے ماخذات کی روایت خال خال ہی پائی جاتی ہے۔ کتب پر
تبصروں پر مشتمل ایک ماہنامہ ’اردو بک ریویو ‘ کے نام سے دریا گنج
دہلی،بھارت سے شائع ہوتا ہے۔اس جریدے میں اردو و انگریزی کی کتب پر تبصرے
شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹدیز کے زیر اہتمام نئی
کتابوں کے تعارف اور تبصرہ پر مشتمل ششمائی مجلہ ’نقطۂ نظر ‘ ۱۹۹۶ء سے شائع
ہورہا ہے ۔ اس کے مدیر ڈاکٹر سفیر اختر ہیں۔ موجودہ شمارہ ۳۱( اکتوبر ۲۰۱۱ء
سے مارچ ۲۰۱۲ء) تک کے دور پر مشتمل ہے۔ تقریباً تمام ہی ادبی جرائد کتابوں
پر تبصرہ شائع کرتے ہیں۔ انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ او ر اخبار’ ڈان ‘ کتابوں
پر تبصرے شائع کرتے ہیں روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں برس ہا برس سے کتب
پر تبصرے شائع ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے شین عین ( شفیع عقیل مرحوم )کی علمی
خدمات قابل ذکر ہیں۔ انہیں تبصرے کا فن خوب آتا تھا۔
کتاب یا دستاویز پر تبصرہ کرنا ایک فن ہے ۔اسے ایک عام سے بات تصور کیا
جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک اہم اور نازک مسئلہ ہوتا ہے۔ تبصرہ نگار جو بات
بھی کتاب کے بارے میں لکھتا ہے بسا اوقات اسے اس کا جواب بھی دینا پڑجاتا
ہے۔ چنانچہ تبصرہ تحریر کرتے وقت احتیاط سے کام لینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
جس کتاب کا پر تبصرہ کیا جاناہو ، بہتر اور مناسب تو یہ ہے کہ وہ کتاب جس
موضوع سے بحث کرتی ہو ، اس موضوع کا ماہر ہی اس پر تبصرہ تحریر کرے۔ عام
طور پر اخبارات و رسائل میں اس بات پر کم کم عمل ہوتا ہے۔
تبصرہ نگاری ابتدا ہی سے مصنفین ، مولفین ، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا
مشغلہ رہا ہے۔ غالبؔ نے سرسید کی کتاب ’آثار الصنادید‘(۱۸۴۷ء) اور آئین
اکبری‘ (۱۸۵۵ء)پر تبصرہ لکھا جسے تقریظ کہا گیا۔ دونوں کتابیں شاعری پر
نہیں تھیں۔ غالب ؔ نے کتاب کے موضوع سے اختلاف کرتے ہیں تقریظ تحریر کی۔
الطاف حسین حالی ؔ کو تبصرہ نگاری میں کمال حاصل تھا۔۔حافظ محمود شیرانی کے
لکھے ہوئے تبصرے کتاب کے بارے میں دو ٹوک رائے ہو ا کرتے تھے۔ علامہ نیاز
فتح پوری نے بھی اپنے رسالے ’نگار ‘میں تبصرے تحریر کیے، اس سلسلے کو ڈاکٹر
فرمان فتح پوری مرحوم نے آگے بڑھایا اوربے شمار کتابوں پر دیباچہ، تقریظ ہی
نہیں لکھیں بلکہ کتابوں پر تبصرے بھی کیے۔ خود میری کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘
پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مختصر تبصرہ تحریر فرمایا۔بابائے اردو مولوی عبد
الحق ایک بلند پایہ تبصرہ نگار تھے۔ ان کے کیے ہوئے تبصرے تاریخ ِ تبصرہ
نگاری میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ علامہ ماہر القادری کتاب کے تفصیلی مطالعہ
کے بعد تبصرہ تحریر کیا کرتے تھے۔مشفق خواجہ مرحوم اپنے ادبی کالم میں
کتابوں کا تعارف خوبصورت انداز میں کرایا کرتے تھے۔ رئیس امروہوی مرحوم بھی
اپنے کالموں میں کتابوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ معروف ادیب ،
دانش ور اور کالم نگار جمیل الدین عالی ؔاپنے کالموں میں اکثر کتابوں کا
تعارف کراتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عطا ء الحق قاسمی بھی کبھی کبھار کسی
کتاب کے تعارف کواپنے کالم میں شامل کرلیتے ہیں۔انجمن ترقی اردو کے مجلے
’قومی زبان ‘ میں کئی اہل قلم کتابوں پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ بزرگ صحافی اور
قلم کار محمد احمد سبزواری صاحب کے لکھے ہوئے تبصرے قومی زبان میں شائع
ہورہے ہیں۔ ’نقطۂ نظر ‘جو صرف کتابوں کے تبصروں پر مشتمل مجلہ ہے میں ڈاکٹر
سفیر اختر تبصرہ نگاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اس قدر وسیع اور
طویل ہے کہ ہر ایک مجلے اور تبصرہ نگار کا ذکر کرنا ممکن نہیں۔ہوسکتا ہے کہ
بعض معروف تبصرہ نگاروں اور رسائل و جرائد کے نام یہاں نہ لکھے جاسکے ہوں
اس کے لیے معزرت خواہ ہوں۔
شاہع شدہ روچناہ جنگ میڈویک میگزین ۲۷ نومبر ۲۰۱۳ء ،ص۶
URL: .jang.com.pk/11-27-2013/karachi/mag6.asp |