ایک گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن اُن کے گھر کا کوئی سراغ
مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔دو ہفتے پہلے جب ایک پرانے سالخوردہ ادبی رسالے
میں اُن کے بارے میں یہ پڑھا کہ پاکستان ہجرت کے بعد وہ ناظم آباد نمبر ۴
کے ایک مکان میں رہائش پذیر ہوئے تھے تو انوکھی مسرت کا احساس ہوا۔ یعنی جس
سحرکار کے سحر میں ہم پچھلے پندرہ سال سے گرفتار تھے ، وہ تو ہمارے گھر کے
آس پاس ہی کسی گھر میں رہتے رہے ہیں! معلوم ہوا تھا کہ 1987ءمیں ان کے
انتقال پر ناظم آباد نمبر ۴ کی ایک چھوٹی سی ذیلی سڑک ان کے نام سے موسوم
کی گئی تھی، لیکن لوگ جانتے ہی نہیں تھے کہ ان کا گھر کون سا تھا، اور اب
ہے بھی کہ نہیں!گھر تو دور کی بات ، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ان کے نام تک
سے بھی واقف نہ تھے کہ یہ شخص کون تھا جن کے نام سے ا ن کے گھر کی سڑک
موسوم ہے!کسی کا بھی کیا قصور، 1987ءمیں جب ان کا انتقال ہوا اوریہیں آس
پاس کسی مکان سے ان کا جنازہ اٹھا (پاپوش کا قبرستان ان کا مدفن بنا) تواس
وقت ہم خود فقط نو سال کے تھے اور ٹارزن اور عمروعیار کے جادوئی قصوں سے دل
بہلاتے تھے،اتنے عرصے میں پوری ایک نسل جوان ہوکر ادھیڑ عمری کی طرف بڑھ
گئی اور کیسی نسل؟ پاپ میوزک اور موبائل کی نسل !.... جنہیں فنونِ لطیفہ
میں صرف اداکاروں اور گلوکاروں کی پہچان ہو، ادب کے شناوروں کو بھلا وہ کیا
جانیں گے! خیر ان گلیوں میں ہم اس گھر کو کھوجتے رہے جہاں اردو ادب میں
اپنی طرز کے ایک منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار برسوں اپنے افسانوں،
ناولٹوں اور ناولوں سے ادب کے دامن کو مالا مال کرتے رہے۔ پھر وہی ہوا جو
ہوتا ہے یعنی جب تھک کر جب ہم نے کسی اور دن پر اس کام کوموقوف کرنے کو
سوچا تو مقصود مل گیا۔ جی ہاں سامنے والے گھر پر کی نیم پلیٹ پر نظر پڑی تو
’بیت القدسی‘ لکھا نظر آیا۔ بیت القدسی سے ہمارا ذہن قدسیہ بیگم کی طرف
منتقل ہوا جنہیں’وہ‘ پیار سے قدسی بیگم کہا کرتے تھے۔ ساتھ ہی لکھا تھا’
شاہد حسن صدیقی‘ یہ ان کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ اتفاق سے اس گھر کے پڑوس
میں ہمارے ایک کرم فرما سلیم قریشی بھائی تھے، ان سے مل کر ہمیں یقین ہو
گیا کہ یہی’ ان‘ کا گھر تھا۔
یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے جب ہم نے ایکسپریس میں ایک کالم تامل زبان کے
افسانہ نگار ’ٹی جے کانتن‘ اوربنگالی زبان کے افسانہ نگار ’ابوالفضل‘کے نام
سے لکھا تو اردو ادب کے ہمارے پسندیدہ ترین ادیب جناب ابوالفضل صدیقی مرحوم
کا بھی سرسری تذکرہ آ گیا تھا اور ہم نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اگلے کالم
میں ان کا مفصل تذکرہ کریں گے۔ جی ہاں یہ ابوالفضل صدیقی صاحب اردو زبان کے
وہ ممتاز ، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں ، جن کے ذکر کے بغیربقول
ڈاکٹر جمیل جالبی تاریخِ ادب مکمل نہیں ہو سکتی!ابوالفضل صدیقی نے بڑی
فعال، بھرپور، غم والم، نشیب و فراز، اقبال و زوال سے پُر ایک سچی حقیقی
زندگی گزاری۔ انہوں نے زندگی کے تمام رخ اور انداز دیکھے ، ہر ہر طرح اور
طور سے اسے برتااور بڑی بالغ نظری سے ان سے سبق حاصل کیا ۔ ان کا مشاہدہ
گہرا تھا اور قدرت نے انہیں دلِ درد مند اور ذہن رسا عطا کیا تھا۔
وہ 5ستمبر 1908ءکو بدایوں کے مضافات میں واقع ایک بستی ’عارف پور نوادہ
‘میں ابوالحسن صدیقی کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ بستی آپ ہی کے ایک بزرگ عارف
صدیقی کی آباد کی ہوئی تھی۔آپ کا خاندان 1857ءکی جنگ آزادی میں مجاہدین کی
مدد کرنے کے پاداش میں معتوبین ِحکومت میں رہ چکا تھا۔ آپ کے دادا چوہدری
احمد حسن علاقے کے معزز زمیندارہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے اور ’علیل‘ تخلص
کرتے تھے، اس کے علاوہ قانون پر اچھی دسترس رکھنے کی وجہ سے حکومت کی طرف
سے اعزازی عدالتی عہدے ’منصفی‘ پر بھی فائز تھے۔ چوہدری احمد حسن کے چھوٹے
بیٹے اور ابوالفضل کے والد محترم ابوالحسن صدیقی بھی علی گڑھ کے اعلیٰ
تعلیم یافتہ تھے، معروف وکیل اور شاعر و ادیب بھی تھے۔اس وقت کے مستند ادبی
رسائل میں ان کی نگارشات شایع ہوتی تھیں۔ اس خاندان کے علم و شائستگی کا
اتنا چرچا تھا کہ زمینداری کا روایتی رعب داب ان کی حویلی کے دروازے پر ہی
کھڑا رہتا تھا، زمینداروں کے مظالم کی جگہ شاعرانہ حساسیت نے لے لی تھی،
یہی وجہ تھی کہ ان کے مزارع اپنے مالکوں پر جان چھڑکتے تھے۔ابوالفضل صدیقی
کے ہنر تو بعد میں کھلنے والے تھے لیکن پیدا ہوتے ہی ان کے ظاہری حسن پر
نگاہیں مرکوز ہو گئیں۔ وہ حسن و جمال کا مرقع تھے۔ کچھ بڑے ہوئے تو قدرت نے
ان کی خوبیاں پرت در پرت کھولنا شروع کیں۔ وہ نہایت شرارتی تھے اور شرارت
تو ذہانت سے پھوٹتی ہے، ساتھ بے حد بہادر بھی تھے! لیکن کوئی بچہ لاڈلا ہو،
ذہین ہو اور بہادربھی ہو تو اسے بگڑتے دیر نہیں لگتی لیکن ان کے والد ابو
الحسن صدیقی جانتے تھے کہ ان صفات کو کس طرح نکھار کر سود مند بنانا ہے۔
انہیں جس طرح خود تعلیم کا شوق تھا، اپنے بیٹے ابوالفضل کی تعلیم کے لیے
بھی انہوں نے ایسی ہی منصوبہ بندی کی۔ انہوں نے بدایوں میں ابوالفضل کو ایک
مشن اسکول میں داخل کروا دیا۔ مشن اسکول میں دو سال گزارنے کے بعد وہ سینٹ
جارجز کالج مسوری میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت ہندوستانیوں
کے لیےتقریباً ناممکن تھا۔ بہرحال وہاں سے سینئر کیمبرج کر کے واپس آئے تو
اپنی زمینداری سنبھالی۔ اسی دوران ان کے بعض ایسے ہنر کھلے کہ لوگ حیران رہ
گئے۔ انہوں نے زراعت اور خصوصاً آموں پر نت نئے تجربات کیے اور بعد میں
انہی تجربات نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے مالا مال کیا۔ آموں سے عشق کے
علاوہ انہیں جانوروں اور خصوصاً گھوڑوں سے دیوانگی کی حد تک تعلق تھا۔ وہ
صرف گھڑ سواری تک محدود نہ رہے بلکہ انہوں ے گھوڑوں کے عیوب و محاسن سے
متعلق اتنی نایاب اور مفصل معلومات حاصل کر لیں کہ چلتا پھرتا انسائیکلو
پیڈیا بن گئے۔ انہوں نے جو کام بھی کیا، اسے انتہا تک پہنچا کر چھوڑا۔ شکار
کا شوق ہوا تو نشانہ بازی میں ایسا کمال حاصل کیاکہ دور دور تک ان کی بندوق
نوازی کی دھوم مچ گئی۔
شکار، زراعت، باغات اور جانوروں کا باریک بینی سے مشاہدہ ....غرض جنگل اور
دیہات سے متعلق ان کا سارا علم کتابِ فطرت سے براہِ راست اکتساب کا نتیجہ
تھا جو پھر ان کے لازوال افسانوں میں جھلکا اور ایک زمانے کو اپنا معترف
بنا لیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1945ءمیں شایع ہوا۔ انہی دنوں برصغیر
میں نفرت کا جوالا مکھی پھوٹ پڑا۔ابوالفضل اور ان کا خاندان چونکہ مسلم
لیگی مشہور تھا، گھرانہ بھی مسلم روایت پسند تھا، پھر ان کی حویلی اطراف کے
دیہاتوں میں پھوٹ پڑنے والے خونی فسادات سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کی
پناہ گاہ بن گیا تو گویا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ سازشی سازشوں کے جال بننے لگے ،
لیکن ابوالفضل اتنے حوصلہ مند اور ذکی تھے کہ نہایت حکمت و بصیرت سے ان
سازشوں کے تاروپود بکھیرتے رہے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو بظاہر سیکولر
مگر بباطن مسلمانوں سے سخت نفرت کرنے والی ہندو حکومت نے تنسیخ زمینداری کا
قانون نافذ کر دیا کیوں کہ تمام بڑے بڑے زمیندار مسلمان تھے اور انہیں
معاشی طور پر بدحال کرنے کا یہی آسان اور قانونی طریقہ تھا۔ ابوالفضل صدیقی
کا جی اتنا برا ہوا کہ بالآخر 1954ءمیں پاکستان ہجرت کر آئے اور کراچی میں
جیکب لائنز کے ایک دو کمروں کے کوارٹر میں رہنے لگے۔ کہاں ایکڑوں پر پھیلی
ہوئی حویلی اور نوکروں کی قطاریں اور کہاں یہ دو کمرے! کوئی اور ہوتا تو
ماضی کی یادیں اوڑھ کر لیٹا رہتا لیکن انہوں نے نہ صرف پامردی سے حالات کا
مقابلہ کیا بلکہ ساتھ ساتھ قلم سے افسوں بھی پھونکتے رہے۔ ایک کے بعد ایک
ان کی لازوال کہانیاں آتی گئیں ۔ ان کے موضوع بہت منفرد تھے۔دیہات، وہاں کے
تمام طبقات، کسان، کھیت ، مزدور، مہاجن، جاگیرداروں اور ان کے کارندوں،
دیہاتیوں کے مسائل اور ان کی نفسیات.... پھرجنگل، نباتات، جانوروں، چرند
پرند، درند،ان کی عادات و خصائل، جبلت اور انسان سے ان کے باہمی رشتوں کو
جس طرح انہوںنے لکھا، وہ بلاشبہ اردو ادب کے سرمائے میں اپنی نوعیت کا ایک
منفرد ذخیرہ ہے ۔
ان کی جس کہانی سے ہم ان کے نام آشنا ہوئے، وہ ’چڑھتا سورج‘ تھی۔ یہ کہانی
بلاشبہ دنیا کی عظیم کہانیوں کے مقابل پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کہانی کا
مرکزی کردار ایک گھوڑا ہے۔اس کہانی میں انہوں نے گھوڑے کو بطور استعارہ
کرتے ہوئے ہندوستان کی تحریک آزادی اور عوامی قوتوں کی فتح کو مستقبل کا
استعارہ بنا دیا ہے ۔ اس کہانی کی بُنت میں انہوں نے سماجی بیداری اور
استحصالی قوتوں کی نشان دہی اتنی چابکدستی سے کی ہے کہ قاری ایک لمحے کے
لیے بھی بور نہیں ہوتا۔ اس میں انہوں نے گھوڑوں کی اقسام، اس کی خصوصیات
اور اس کی پرداخت دکھانے میں اتنی ہنرمندی سے کام لیا ہے کہ اس موضوع پر
اردو افسانے میں اس کے مقابل اور کوئی تحریر نہیں پیش کی جا سکتی۔ کہانی کا
کلائمکس اتنا پراثر ہے کہ کوئی بھی حساس دل اسے روانی سے نہیں پڑھ
سکتا۔ہمیں آج بھی یاد ہے کہ جب ہم اس موڑ پر پہنچے جب میاں بچّہ (گھوڑے کا
نام)اپنی مخصوص ہنہناہٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے آتا ہے اور جب دوڑ شروع ہوتی
ہے توہمیں بار بار رک کر اپنے دل کو سنبھالنا پڑا۔ گھوڑے کے ساتھ ہمارے دل
کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی،پھر ایک موقع تو ایسا آیا کہ بے اختیار
آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہی تو اچھے ادب کی شناخت ہے۔ اچھی کہانی اپنے
اسلوب اور تاثر سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ کتنا گہرا تاثر ہے، کیسا تیکھا اسلوب
ہے، بات کہنے کا کیا ڈھنگ ہے، کتنا اندر جاکے لکھا گیا ہے، کیسی کیسی نازک
باتیں محسوس کی گئی ہیں۔ایک خوبصورت جملہ جو قاری کی رگِ جاں میں ترازو ہو
جائے ، لکھنے کے لیے فکری اور تخلیقی کرب سے گزرنا پڑتا ہے!ان کی ایک اور
کہانی ’خونی‘ پڑھیے۔اس کہانی کا مرکزی کردار بھی ایک جانور ، ایک وحشی اور
خونی جانور‘ ہاتھی ہے۔ یہ کہانی محض تخیل نہیں بلکہ ریاست رام پور کے
جنگلوں کے ایک سچے واقعہ سے ماخوذ ہے، جسے صدیقی صاحب کے قلم نے ہمیشہ کے
لیے زندہ جاوید کر دیا۔ ’خونی‘ میں انہوں نے وحشی ہاتھی کی بے پناہ قوت اور
جبلت کا اور ساتھ ہی ایک ہتھنی سے محبت کا جو دلفریب نقشہ کھینچا ہے ، اس
سے جہاں قاری بیک وقت نفرت اور ہمدردی کے متضاد جذبات کے درمیان گھرا رہتا
ہے، وہیں پڑھتے ہوئے جنگل اپنی پوری ہیبت ناکی کے ساتھ اس قاری کے تصور میں
آجاتا ہے جس نے کبھی جنگل نہیں دیکھا۔ کئی بار دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے
ہیں اور سطر سطر دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔اس افسانے کو پڑھتے ہوئے بے
اختیارصدیقی صاحب کے پیش رو سید رفیق حسین یاد آ جاتے ہیں، یا پھراسی کی
دہائی کے قاضی عبدالستار اور سید محمد اشرف جن کے موضوعات بھی عموماً جنگل
اور جانور ہوا کرتے تھے۔ افسانہ’ گلاب خاص‘ اورپھر اسی موضوع پر نقوش
صدارتی ایوارڈ یافتہ ناولٹ’ گل زمین کی تلاش میں‘ بھی ان کی وہ کہانیاں ہیں
جن پر بلامبالغہ اردو ادب دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کے ادب پر فخر کر
سکتا ہے۔ان دونوں تخلیقات میں انہوں نے اپنی اعلیٰ ترین جمالیاتی حسیات
کاشاندار مظاہرہ کیا ہے ۔ اس میں ایک طرف انہوں نے نچلے طبقات کی محنت پر
اوپر والے طبقات کے استحصال کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے تو وہیں آم
کی کاشت اور اس کے باغات اور برصغیر میں باغات کی تہذیبی جہت کو ابھارتے
ہوئے مالیوں کے طبقے اور ان کے تخلیقی جوہر کو نمایاں کیا ہے۔
کس کس تحریر کا ذکر کیا جائے۔ترنگ، میراث،دفینہ، بھیا دیوج، بھورا چلیے،
انصاف، الارض اللہ اور نیل گائے.... سب موضوع، اسلوب اور دلچسپی کے اعتبار
سے ایک سے ایک، اور جہاں تک زبان وبیان کی بات ہے ، ابوالفضل صدیقی مرحوم
کی نثر کا سلسلہ نسب دبستانِ اودھ کا سلسلہ زریں ہے۔ افسوس صد افسوس ہم نے
اتنے بڑے ادیب کو بھلا دیا، انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے۔
اللہ جزائے خیر دے کراچی کے ان حضرات کو جنہوں نے ان کے انتقال سے کچھ
مہینے پہلے ان کی پچاس سالہ ادبی خدمات کے اعتراف میں نیپا آڈیٹوریم کراچی
میں ایک جلسہ منعقد کر کے کیا۔ ہندوستان سے جگن ناتھ آزاد نے جلسے کی صدارت
کی تھی۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے ان کا افسانہ ’مامتا کا ٹکراؤ‘ پڑھ کر سنایا۔
صدیقی صاحب کے قدردان اور دوست ڈاکٹر جمیل جالبی، شمیم احمد، مختارزمن ،
مشرف احمد اور بھتیجے نذرالحسن صدیقی نے ان کے فن اور شخصیت پر مقالے پڑھے۔
گل پوشی کی گئی اور انجمن کی جانب سے ’نشانِ سپاس‘ پیش کیا گیا۔ میں سوچتا
ہوں کہ وہ دن صدیقی صاحب کے لیے کتنا خاص ہو گا! بے شک وہ ایک بڑے ادیب ہی
نہیں بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے، جنہوں نے مسلم لیگ اور پاکستان کی محبت
کی وجہ سے بلامبالغہ اس وقت کی کروڑوں کی جائیدا د سے ہاتھ دھوئے اور
پاکستان میں نئے سرے سے زندگی شروع کی۔ وہ بہترین شکاری بھی تھے، بہترین
زمیندار بھی اور ادیب تو بڑے تھے ہی ۔
کوئی تین ہفتے پہلے جب میں اردو بازار گیا جے کانتن اور صدیقی صاحب کے
افسانوں کا مجموعہ ڈھونڈنے تو ایک بڑا دھچکا لگا.... جیسا کہ پچھلے کالم
میں عرض کیا کہ جے کانتن تو چلیے ہندوستان کا تامل زبان کا ادیب ، کوئی
نہیں جانتا لیکن آٹھ دس بڑی دکانداروں نے جب ابوالفضل صدیقی کا نام پہچاننے
سے بھی انکار کر دیا تو دلی رنج ہوا۔آخر ایک دکاندار نے نہ صرف پہچانا بلکہ
ان کے پاس حضرت کے ایک دو مجموعے’ شہر زاد ‘ کے شایع کردہ ملے۔ اس دن معلوم
ہوا کہ کچھ نئے لکھاریوں یا پرانوں میں مشہورچند ناموں کے علاوہ کتنے ہمارے
ادیب ہیں، جن کو نئی نسل جانتی بھی نہیں ہے!ہمارے ایک اور پسندیدہ لکھاری
قاضی عبدالستار صاحب تو زیادہ پرانی بات نہیں ہوئی، ان کے افسانوں کے
مجموعے بھی نہیں ملے۔ بس یہی رنج اس کالم کے لکھنے کا محرک بنا۔ یہی خیال
آتا ہے کہ آج ہمارے اردو کے نام لیوا بھیڑ چال کا شکار ہیں، کچھ خوش قسمت
ادیب جو مقبول ہو گئے، مقبول ہو گئے.... بس اب انہی کا کام اور انہی کی
باتیں ہیں، بے شک وہ بھی بہت بڑے ادیب ہیں، لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ یہاں
کیسے کیسے جگمگاتے جوہر تھے جو خود تو مٹی اوڑھ کر سو رہے لیکن ان کا کام
بھی ابھی تک گمنامی میں ہے۔ ان کے کام پر کوئی تحقیق نہیں کرتا....آخر میں
ان نوجوانوں سے جو موبائل اور انٹرنیٹ کے زمانے میں بھی کتابوں سے رشتہ
قائم رکھے ہوئے ہیں، یہ درخواست ہے کہ کبھی وقت نکال کرجناب ابوالفضل صدیقی
رحمہ اللہ کو بھی پڑھیے ، یقینا آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کے لیے خود کو
مجبور پائیں گے!
ان کے والد محترم ابوالحسن صدیقی نے اپنے قابل بیٹے کے متعلق یہ شعر کہا
تھا
محو ہے فطرت میں وہ، فطرت بھی اس میں محو ہے
رازِ فطرت کے سمجھنے میں اسے کب سہو ہے
وہ ساری زندگی فطرت کو افسانوں میں پینٹ کرتے رہے، اب بھی شاید وہ دوسری
دنیا میں فطرت میں محو ہوں!
|