مذہبی طبقہ مدارس دینیہ کے تحفظ کے لیے پرعزم

ان دنوں ملک میں قومی سلامتی پالیسی اور دینی مدارس کا معاملہ زیر گردش ہے۔ حکومت نے رواں سال فروری کے آخر میں اس پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس میں دینی مدارس کے حوالے سے بھی کافی زیادہ شقیں ہیں،ان شقوں میں دینی مدارس کے نظام تعلیم اور فنڈنگ سسٹم پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور تعین کیے بغیر ”بعض مدارس“ پر دہشتگردی کا الزام لگاتے ہوئے اس نئے قانون کے تحت ملک بھر کے دینی مدرسوں پر نظر رکھنے کی بات کی گئی ہے۔ اس پالیسی کے اعلان کے وقت ہی بعض مذہبی رہنماﺅں نے کہا تھا کہ یہ سب مسلم لیگ (ن) کا نہیں، بلکہ کسی اور کا ایجنڈہ ہے ۔برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن نے اس پالیسی کو سراہاتے ہوئے خوش آئند قراردیا تھا،جبکہ دوسری جانب دینی مدارس اور متعدد دینی جماعتوں نے اس پالیسی کو ملک میں مدارس کی آزادی کو سلب کرنے سے تعبیر کرتے ہوئے قومی سلامتی پالیسی کو مسترد کیا اور اس پالیسی کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا۔دینی مداس کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کے نام پر حکومت بلاوجہ مدارس دینیہ پر الزام تراشی کررہی ہے، حالانکہ وفاق المدارس العربیہ کے بارہا پوچھنے کے باوجود حکومت کسی ایک بھی ایسے مدرسے کی نشاندہی نہیں کرسکی جو دہشتگردی میں ملوث ہو۔ لہٰذا اس پالیسی کا مقصد صرف اورصرف مدارس دینیہ کو بلاوجہ تنگ کرنا اور مالی طور پر ان کا تعاون کرنے والوں کا ہراساں کرنا ہے۔ اسی حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی جانب سے مدارس کی حفاظت کے پیش نظر ملک کے مختلف شہروں میں کانفرنسوں کے انعقاد کا اعلان کیاگیا۔انہی کانفرنوں کی کڑی کے سلسلے میں جمعرات کے روز وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں ایک عظیم الشان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، انتظامیہ کے مطابق جس میں 50ہزار دےنی اساتذہ و طلبہ نے شرکت کی۔ ”تحفظ مدارس دینیہ و اسلام کا پیغام امن کانفرنس“ میں مختلف مدارس کے پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کو انعامات دیے گئے۔ پنجاب کے 94مدارس کے 278طلبہ و طالبات کو شیلڈ اور انعامات سے نوازا گیا۔ مختلف درجات کے ملکی سطح پر پوزیشن ہولڈر طلبہ79 اور 116طالبات جبکہ مختلف درجات کے صوبائی پوزیشن ہولڈر 41طلبہ اور 68طالبات شامل تھیں، طلبہ نے خود جبکہ طالبات کے انعامات اُن کے سر پرستوں نے وصول کیے۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں منعقدہ ”تحفظ مدارس دینیہ اور اسلام کا پیغام امن کانفرنس“ میں مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد حنیف جالندھری، مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکند، مولانا عبدالحفیظ مکی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولاناعطاءالمومن شاہ بخاری، مولاناعطاءالمہیمن شاہ،مولانا عبیداللہ خالد، مولانا قاضی عبدالرشید، مولانا زبیر احمد صدیقی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حافظ حسین احمد سمیت دیگر متعدد قائدین اور رہنماﺅں نے شرکت کی۔کانفرنس کے شرکاءنے قومی سلامتی پالیسی میں مدارس سے متعلق شقوں کو مسترد کردیا۔ کانفرنس کے مقررین نے دینی مدارس کو اس ملک کے استحکام اور بقا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج اس خطے کے مسلمانوں کا ایمان دینی مدارس کے مرہون منت ہے، اس لیے ہم مدارس کے خلاف کسی کو بھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے اور مدار س کی حریت وآزادی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ حکمران ہمیں آئے روز دفاعی پوزیشن پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، آج ہم اقدامی انداز سے جدوجہد کا اعلان کر رہے ہیں کہ مدارس کے نصاب ونظام کی بات نہ کرو، ہم کسی کو اپنی قوم کے بچوں کو سیکس پر مشتمل نصاب پڑھانے دیں گے اور نہ ہی اپنی تعلیم گاہوں کو مغرب زدہ این جی اوز کی چراگاہ بننے دیں گے۔ ہر ایسا آرڈیننس اورکوشش جس سے کسی بھی شکل میں مدارس پر کوئی زد پڑے یا کوئی قدغن لگے، ہم ایسی ہر پالیسی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اگر حکمران مدارس کے خلاف اپنے مذموم مقاصد سے باز نہ آئے تو ہمارا حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہوگا، مدارس کی آزادی وحریت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مقررین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مدارس دینیہ کے دفاع وتحفظ کے لیے وفاق المدارس کی طرف سے ملنے والی ہر ہدایت پر دل وجان سے عمل پیر ا ہوں گے۔ مدارس دینیہ کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش وشرارت کو کسی طور پر کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔عالمی قوتیں دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں، دنیا جو بھی کہے دینی مدارس میں تعلیم کے فروغ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ خدانخواستہ اگر پاکستان پر برا وقت آیا تو اہل مدارس اور دیندار طبقہ پاکستانی فوج سے بھی اگلی صفوں میں ہوگا۔ تحفظ مدارس دینیہ واسلام کا پیغام امن کانفرنس میں ملک میں قیام امن کے لیے اسلامی نظام کے نفاذ ،وفاقی شرعی عدالت کو ایک خودمختار اور حتمی فیصلے کی اتھارٹی کی حیثیت دینے کے لیے قانون سازی کرنے، ملک میں بدامنی کے حقیقی اسباب تلاش کرنے ، غیرملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے،عافیہ صدیقی کی رہائی، دینی مدارس کے خلاف مختلف ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کی جانب سے مسلسل کارروائیوں کو روکنے،دینی مدارس کے بے گناہ طلبہ اور مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل، ہراساں اور اغوا کرنے جیسے اقدامات کو روکنے سمیت مختلف اقدامات کے حوالے سے 22 قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔

واضح رہے کہ وزارت مذہبی امورکے ریکارڈ کے مطابق اس وقت ملک بھر میں رجسٹرڈ دینی مدارس کی تعداد 22 ہزار 52 ہے۔ پنجاب کے رجسٹرڈ دینی مدارس کی تعداد 14 ہزار 954،سندھ کے مدارس کی تعداد 4 ہزار 264، کے پی کے میں 1400، بلوچستان میں 1247 اور اسلام آباد میں 187 ہیں،جن کو ملکی معاشرے میں اور متعدد اسلامی ممالک میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔گزشتہ روزایک پریس کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے نائب وزیر مذہبی امور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ العمار نے کہا ہے کہ اسلام ایسا دین ہے، جو دنیا بھر میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا ہے۔ پاکستان میں وفاق المدارس العربیہ کے زیر ا ہتمام چلنے والے مدارس پاکستان میں اسلام کا پیغام پھیلانے میں اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر رہے ہیں، ہم پاکستان میں ان دینی مدارس کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کو ان مدارس کے دینی کردار پر بہت خوشی ہے۔ وفاق المدارس کے زیر اہتمام دین کا علم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو علمائے دین اسلام سے روشناس کرا رہے ہیں، ان علماءکی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ علمائے دےوبند کا دنیا بھر میں اسلام پھیلا نے میں بہت اہم کردار ہے، مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آج دوبارہ مسلمان ہو رہا ہوں ۔اس سے پہلے بھی گزشتہ دنوں سعودی عرب کے نائب وزیر مذہبی امور عبدالعزیز بن عبداللہ العمار نے وفاق ہاؤس اسلام آباد کے دورے کے موقع پر وفاق المدارس کے ذمہ داروں اور سرکردہ علمائے کرام سے ایک ملاقات کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی مدارس دینیہ کا نظام پوری دنیا کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، وفاق المدارس کی خدمات قابلِ تعریف ہیں ، وفاق المدارس کا تعلیمی نظام دیکھ کر کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس وقت امت کو فروعی اختلافات میں الجھانے کی بجائے دین کی اساسی تعلیمات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت کی جانب سے ایسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں، جن کو مدارس دینیہ اپنی آزادی کے سلب ہونے سے تعبیر کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے بیشتر مدارس میں دوسرے ممالک سے علم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا،حالانکہ یہ طلبہ یہاں کے مدارس سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ممالک میں جاکر یقینا پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں اور ملک کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں،لیکن مدارس کے خلاف اس قسم کی سرگرمیاں کسی طور بھی مفید ثابت نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے، بلکہ ان کو محب وطن اور محافظ وطن سمجھے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 646435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.