ندوۃ العلماء اور عرب دنیا

ندوۃ العلماء کو دوسرے دینی تعلیمی اداروں پر کئی اعتبار سے شرف اولیت اور فضیلت حاصل ہے ۔ ادبی اسلوب کے ساتھ جدید مستند انداز تحقیق وتصنیف ندوہ کا امتیازخاص رہا ہے جس کا نمونہ دار المصنفین کی کتابیں ہیں ۔ تصنیف و تالیف کی دنیا میں جدید علمی اور ادبی معیار پہلےٍ ندوہ نے قائم کیا تھا ۔ اس سے پہلے قدیم طرز پر پرانے رکیک و متروک اسلوب میں علماء دینی کتابیں لکھا کرتے تھے۔ پھر ندوہ کی نقل میں دار المصنفین کے طرز پر ندوۃ المصنفین اور دیگرادارے بھی دوسرے مدارس کے علماء نے قائم کٔے۔اور شبلی اور ان کے رفقاء کا انداز تحریرمستند ٹھہراا اور وہی معیار قرار پایا۔دوسرا معیار فضیلت ندوہ کو جدید عربی زبان وادب کے اعتبار سے حاصل ہے ، ندوہ نے عربی کے نامور انشاء پرداز پیدا کئے جن کے طاقتور عربی اسلوب کا اعتراف عرب دنیا میں کیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے دینی مدارس نے بھی خاموشی کے ساتھ اس میدان میں ندوہ کا تتبع کیا اور وہاں بھی عربی کے قادر الکلام لکھنے والے پیدا ہونے لگے۔اردو میں یا عربی میں ندوہ نے جواسلوب اور طرز اختیار کیا وہی معتبراور جو ظرف اٹھایا ادب کے میکدہ میں وہی ساغرٹھہرا۔مولانا عبد الماجد دریابادی دوسرے اداروں کے اچھے صاحب فکر اہل قلم کو ندوی القلم اورندوی الفکر کہا کرتے تھے ۔ندوہ نے مدارس کے نصاب تعلیم کی اصلاح کی آواز اٹھائی یہ آواز بھی صدا بصحراء ثابت نہیں ہوئی ۔کچھ اداروں نے اس آواز پر لبیک ضرور کہا ۔ندوہ کی تحریک کے بعد دینی مدارس میں اردو اور عربی میں شگفتہ تحریروں کے لکھنے والے جدید طرز اور اسلوب کے مصنف پیداہونے لگے۔ شورش عندلیب نے ایک روح علم وادب کے چمن میں پھونک دی تھی اور خواب غفلت میں گرفتار غنچوں کو بیدار کردیا تھا۔

ندوۃ العلماء کو ایک اور میدان میں دوسرے دینی اداروں کے مقابلہ میں سبقت اور ایک امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے اور وہ ہے عرب دنیا اور اس کے مسائل سے اس کا تعلق ، یعنی ندوۃ العلماء عجم کا وہ ساز ہے جس کی نوا عربی رہی ہے،ندوہ نے ہمیشہ پورے عرب دنیا کو اپنی برادری سمجھا ، اس درسگاہ کے فارغین عرب دنیا کے غم اور خوشی میں شریک رہے ،انہیں عرب دنیا کے حالات اور مسائل سے اتنی ہی دلچسپی رہی جتنی حاضر العالم الاسلامی کے مصنف امیر شکیب ارسلان کو یا جمال الدین افغانی یا اور کسی عرب عالم اور قائد کو ہوسکتی ہے ۔ اس درسگاہ کے صاحب قلم فارغین نے تاریخ میں عرب حکومتوں پر کتابیں بھی لکھی ہیں اور عصر حاضر میں عرب دنیا کی د ینی اور فکری غلطیوں پر نکیر بھی کی ہے، ندوۃ العلماء کی دینی غیرت ایک مثال نہیں بلکہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، جب قاہرہ کے چوراستوں پرجمال عبد الناصر کے عہد میں فرعون کے مجسمے نصب کئے جارہے تھے تو دنیا میں احتجاج کی پہلی آواز ہندوستان سے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی بلند ہوئی تھی جب مصر پر اوردیگر عرب ملکوں پر عرب قومیت کا دورہ پڑا جیسے کسی مریض پر جنون کے دورے پڑتے ہیں تو مولانا علی میاں کی مسلسل تحریریں سامنے آئیں مولانا نے’’ بین العالم وجزیرۃ العرب‘‘ اور ’’ اسمعی یا سوریا‘‘ اور’’ اسمعی یا مصر‘‘اور’’اسمعوہا منی صریحۃ ایہا العرب ‘‘ کے عنوان سے تقریر و تحریر کے ذریعہ بار بار ان کو خطاب کیا ۔ اردو میں ’’عالم عربی کا المیہ‘‘ اور’’ اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘کے موضوعات بھی عرب دنیا سے متعلق ہیں ۔ اردو اور عربی میں یہ کتابیں لکھ کر مولانا نے مسلمانوں اور عربوں کو بیدار کرنے اور باشعور بنانے کی کوشش کی ، مولانا کی آواز عربوں کے لئے صور اسرافیل تھی غلط اور غیر دینی نظریات کے لئے مولانا کا قلم تیغ اصیل تھا ، مولاناکی زبان ابر گوہر بار تھی، وہ ابر جو عالم اسلام پر برستا رہا اور اسلامی افکار کے چمن میں پھول کھلاتا رہا۔ لیکن جس وقت مولانا کا قلم تیغ جوہر دار بن کر عرب دنیا میں غیر اسلامی نظریات کو کاٹ رہا تھا اس وقت ہندوستان کے مدرسی اور دینی حلقوں کی بے حسی بھی دیدنی تھی ایک مشہور دینی درسگاہ کے استاد نے علماء کی ایک تنظیم کی ایما پر مولانا علی میاں کی تحریروں کے جواب میں ایک کتاب لکھدی جس کا نام رکھا ’’مصر جدید کا دینی پہلو‘‘ اور دلیل کے طور پر جامع ازہر کا نام لیا اور ان قاریوں کا جو رمضان کے زمانہ میں مصر سے دنیا کے ملکوں میں بھیجے جاتے تھے ۔ اور یہ کتاب بھی کیوں لکھی گئی تھی ؟ اس لئے لکھی گئی تھی کہ مصر کے اخبار ’’الاہرام ‘‘نے اخبار میں اداریہ لکھا تھا کہ ہندوستان کے مصر سے روابط دوستانہ اور برادرانہ اور مستحکم ہیں اور ان روابط میں اگرآئندہ کوئی رخنہ پڑا تو اس کی ذمہ داری ندوۃ العلماء سے نکلنے والے رسالہ البعث الاسلامی پر ہوگی اور پھر مصر کی حکومت نے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے باقاعدہ اس کی شکایت کی تھی ۔ یہ ہے پس منظر اس کتاب کا جومصر کی مدافعت میں ہندوستان کے ایک دینی مدرسہ کے استاذ کے قلم سے اور علماء کی ایک تنظیم کی ایما پر سامنے آئی تھی، وہ تنظیم جو اپنی بے شعوری کی وجہ سے جمال عبد الناصر کی ہمنوا ہم آواز اور دمساز بن گئی تھی۔وہ تنظیم جو آج بھی عبد الفتاح سیسی کے ذریعہ اخوان کی حکومت کا تختہ الٹنےُ پر کوئی بے چینی محسوس نہیں کرتی ہے ۔

افسوس یہ کہ ہمارے ملک میں اور دینی حلقوں میں ایسے علماء اور قائدین کی کمی نہیں رہی ہے جو کمال اتاترک اور جمال عبد الناصر کو اسلام کا نجات دہندہ سمجھتے رہے ہیں ۔ یہ ندوۃ العلماء کی بالغ نظری اور شعور اور ادراک کی بلندی کی بات ہے کہ عالم اسلام کی تحریکات کو اس نے گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ، عربی زبان کے اخبارات اور رسائل اس کے فارغین کی نظروں سے گذرتے تھے ، عرب دنیا کے حالات اور مسائل پر ان کی مسلسل تحریریں سامنے آئیں، البعث الاسلامی کے ایڈیٹر مولانا محمد الحسنی نے بہت طاقتور اسلوب میں ’’ مصر تتنفس ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ، جزیرۃ العرب کے تاریخ اور جغرافیہ پر مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی کتاب سامنے آئی ، عرب ملکوں میں اسلامی بیداری کے لٹریچر پر مولانا محمد واضح رشیدندوی کتاب الصحوۃ الاسلامیۃ منظر عام پر آئی ،عہد حاضر کی اسلامی تحریکات پر پروفیسر احتشام ندوی کی کتاب شائع ہوئی ، ندوۃ العلماء کے ایک دوسرے فرزند پروفیسر رضوان احمد ندوی نے الااخوان المسلمون پر ربع صدی پہلے ایک کتاب لکھی جو پاکستان سے شائع ہوئی ، پھر جب مصر میں عرب ملکوں میں حال کے زمانہ میں انقلاب کی دستک شروع ہوئی تو پھر اسی درسگاہ کے ایک فرزند نے ’’ عرب دنیا کے انقلابات ۔ اسلامی نقطہ نظر ‘‘ اور پھر ’’ شام جل رہاہے‘‘ اور اس کے بعد ’’ شام لہو لہو ‘‘ اور اخیر میں ’’ مصر میں اخوان کا قتل عام ‘‘ کے نام سے بہت سے کتابچے لکھے اور شائع کیے اور اخیر میں محمد انظر ندوی کی کتاب ’’الاخوان المسلمون ۔ تختہ دار سے تخت اقتدار تک ‘‘ کے نام سے کتابوں کی دکان پر نظر آئی ۔

بالکل اخیر میں جب مصر کی سرزمین پر موسی اور فرعون کی کشمکش کی تاریخ نئے انداز سے دہرائی جانے لگی اور والیان حرم جب اس کشمکش میں فرعون کے ہم نوا اور مخالف اسلام طاقتوں کے طرفدار بن گئے اورجب عصر حاضر کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون کو اور حق کے قافلہ سخت جاں کو دہشت گرد قرار دینے لگے اور جب وہ قطر پر دباو ڈالنے لگے کہ وہ اخوان کی حمایت اور تایید سے باز رہے اور جب قطر نے ان کا دباو قبول نہیں کیا تو اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے تو اس عبرت خیز اور الم انگیز فضامیں ہندوستاں کے اندر اہل حق اور اہل انصاف کے کارواں کی قیادت بھی ندوۃ العلماء کے غیور اور با شعور فرزندوں کے حصہ میں آئی جنہوں نے عرب دنیا کے حالات کو اپنا غم اور اخوان پر ظلم کو اپنے دل کا زخم بنایا اور اس درد کو اپنے جگر میں بسایا ، کاش اردو زبان و ادب اور عربی زبان وادب کے میدان کی طرح اس میدان میں بھی ندوہ کے نقوش قدم کی پیروی کی گئی ہوتی اور اعلان حق کی جرات قلندرانہ تمام علماء کو نصیب ہوتی ، قرزندان ندوہ نے حق کی آواز عزم وعمل کے نازک وقت میں فرماروایان وقت کے جاہ و جلال کی پرواہ کئے بغیر اس وقت بلند کی جب دوسرے اداروں کے بے شعور قائدین اور علماء فرعون مصر عبد الفتاح سیسی کے حق میں، یا اس کے موید وحامی خسروان سلطنت کی تاییدومدافعت میں ،مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ کر اور امید چشم کرم پر، اخبارات میں بیان جاری فرمارہے تھے بقول احمد فراز
تمام سالک وصوفی تمام شیوخ و امام
امید لطف پر دربار کج کلاہ میں ہیں
 
Mohsin Usmani
About the Author: Mohsin Usmani Read More Articles by Mohsin Usmani: 6 Articles with 11275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.