نجیب اللہ نیازی صاحب نے بھکر ٹائمز لاہور
کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دانش سکول کی بجائے اگر چھوٹے سکولوں کو 50
لاکھ اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کو 50 لاکھ کی گرانٹ دے دی جائے تو اس سے
بہتری آسکتی ہے ہم اس تجویز کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ۔ کیونکہ گزشتہ کئی
سالوں سے ہم پیٹ رہے ہیں یہی باتیں لیکن ہر دفعہ ہماری باتیں صدابصحرا ہی
ثابت ہوئی ہیں اگر قارئین کو یاد ہو تو کتنے ہی کالموں میں ہماری باتیں
تعلیم کے بارے میں وہ ضرور پڑ چکے ہیں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز
الٰہی کا دور حکومت کو کچھ بھی کہا جائے کئی باتیں ان کی کارناموں کی حیثیت
رکھتی ہیں پاکستان میں غربت غربت اور جہالت و پسماندگی میں اضافہ کی وجوہات
میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ناخواندگی بھی ایک بڑی وجہ ہے چوہدری پرویز
الٰہی نے کوششیں کیں کہ تعلیم کو عام کیاجائے خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کیلئے
انہوں نے 300 روپے فی کس ماہانہ وظیفے کا جو اقدام کیا بہت بڑی تعداد میں
بچیاں سکولوں میں داخل ہوئیں اس کے ساتھ مفت کتابیں دی گئیں نئے سکول بنائے
گئے اور کوئی شک نہیں کہ غریب والدین کو اس سے حوصلہ ملا اور بڑی تعداد میں
بچے پڑھنے لکھنے لگے اور شرح داخلہ میں اضافہ ہوا دنیا میں تعلیمی پسماندگی
میں پاکستان نمایاں ملکوں میں شامل ہے قابل شرم بات ہے کہ پاکستان میں
وفاقی بجٹ کا اڑھائی فیصد تعلیم کیئے مختص کیاجاتا رہا اور پچھلے سالوں میں
یہ مزید کم ہوکر دو فیصد سے بھی کم رہ گیا دنیا میں ترقی یافتہ ممالک 25%
تک قومی بجٹ کا تعلیم کیلئے لگایا جاتا ہے اور کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ
ہے انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ کرلیا ہے 100فیصد
خواندگی ہے ہمارے لئے اس سے بڑی شرمندگی کی بات کیا ہوگی کہ سارک ممالک
بھارت ، سری لنکا بنگلہ دیش بھی پاکستان سے خواندگی میں بہت آگے ہیں ۔ لیکن
ہمارے حکمران اگر کوئی تعلیمی پالیسی بناتے ہی ہیں تو اپنے مفادات کو مدنظر
رکھ کے اور اپنی پسند کی پالیسی بناتے ہیں مخالفت برائے مخالفت ہمارے
حکمرانوں کا مطمع نظر ہے اگر کسی نے ملک و قوم کیلئے کوئی اچھا کام کیا ہے
مستقبل تابناک بنانے کیلئے کچھ کیا اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھ کے کیا ہے تو
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فلاح خیر کو آگے بڑھایاجاتا اسے ختم کردیاجاتا
ہے یا پھر اتنے روڑے اٹکا دئیے جاتے ہیں کہ وہ منصوبہ فلاپ ہوجاتا ہے خادم
اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف انتھک آدمی ہیں ان کی تقاریر ان کے وژن سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ وہ غریبوں کا درد رکھتے ہیں وہ تعلیم کیلئے کچھ کرنا چاہتے
ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کچھ کرنے میں انہیں کیا مانع ہے ؟ وہ اس وقت
مکمل اختیارات رکھتے ہیں لیپ ٹاپ پر اربوں روپے لگائے کس نے روکا دانش
سکولوں کو سینکڑوں ایکڑ دئیے گئے کس نے روکا یوتھ فیسٹیول جیسے اسرافی
پروگراموں پر اربوں روپے لگادئیے گئے کس نے روکا لاہور کی صرف ایک شاہراہ
پر بیسیوں ارب روپے لگادئیے کس نے روکا لیکن جناب والا ہم تو یہ عرض کرتے
ہیں کہ
کبھی تو آئو کبھی تو دیکھو کبھی تو بیٹھو کبھی تو سوچو
کہ ہم غریبوں کی زندگی کا حال اتنا بے حال کیوں ہے
جناب والا تعلیم کے بغیر کوئی قوم ملک ترقی نہیں کرتا لیکن جہاں جی ڈی پی
کا صرف 0.8 فیصد تعلیم پر خرچ کیاجاتا ہو وہاں کیا ترقی ہوگی آپ کے پنجاب
میں چودہ ہزار سے زائد سرکاری سکولوں میں مناسب تعمیری ڈھانچہ بھی موجود
نہیں ہے اٹھارہ ہزار سکولوں میں خصوصاً دیہاتوں کے سکولوں میں پینے کا صاف
پانی ، بیت الخلاء بھی موجود نہیں چاردیواریاں نہیں چھتیں کمزور ہیں ڈیسک
نہیں ہیں آج بھی ہزاروں سکولوں میں ٹاٹ پر بٹھا کر تعلیم دی جاتی ہے پنجاب
میں دو کروڑ سے زائد بچے 5 سے 15 سال تک کے ہیں اور ان میں سے اسی لاکھ کے
قریب بچے سکول نہیں جاتے پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد ان پڑھ ہیں ان میں
سے 70 فیصد لڑکیاں ہیں سوچنے کی بات ہے کہ جی ڈی پی کا 1.8 فیصد تعلیم پر
لگا کر ہم خواندگی کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں تعلیمی درسگاہوں کے حالات
اتنے بدتر ہیں کہ خوف آتا ہے کچھ تو بچے ویسے ہی سکول جانے سے جی چراتے ہیں
کچھ غربت اور اساتذہ کا رویہ بھی بچوں کو سکول سے پہلو تہی کرتا ہے بھکر
شہر کے بیچوں بیچ ایک ہائی سکول ہے جہاں پچھلے سالوں میں کم نمبروں والے
بچوں کو داخلہ نہیں دیا گیا کہ انہوں نے رزلٹ اچھا دینا ہے اگر صرف لائق
بچوں کیلئے سکول بنائے گئے ہیں تو نالائقوں کا کیا بنے گا انہیں ہمت کون دے
گا کون ان کے لئے کام کریگا اساتذہ آج خوشحال ہیں لاکھوں میں تنخواہیں ہیں
اگر حساب لگایاجائے تو 7 ماہ چھٹیاں ہیں صرف 5 ماہ پڑھاتے ہیں ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ تعلیمی شعبے میں اصلاحات کی جائیں ان کی کمزوریاں دور کی
جائیں تعلیمی معیار بلند کرنے کیلئے کام کیاجائے خصوصاً دیہاتی سکولوں کو
سہولیات بہم پہنچائی جائیں انہیں مفت یونیفارم دیاجائے مفت کتابیں دی جائیں
بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ حکومت مفت دینے کی بجائے ان پر رعایت دے تاکہ عوام
کا بھی کچھ خرچ ہو اور وہ یہ قلبی اطمینان محسوس کرے کہ ہمارے ساتھ حکومتی
تعاون بھی ہے اور ہم خود بھی خرچہ کررہے ہیں ۔ اس سے یہ ہوگا کتابوں کی
تقسیم میں جو لاپرواہی ہوتی ہے وہ نہیں ہوگی اگر خادم اعلیٰ پنجاب کچھ کرنا
چاہتے ہیں تو ہم یہ کہیں گے کہ وہ یوتھ فیسٹیول پر اربوں خرچ کرنے کی بجائے
صرف سالانہ سکولوں کے کھیل اسی طرح جاری رہنے دیں جیسا کہ پہلے ہوتے تھے وہ
اربوں روپے غریب علاقوں میں پرائمری سکول کے بچے کو 200 روپے فی کس کے حساب
سے وظیفہ دیں ان کیلئے سٹیشنری میں رعایت دیں بچوں کی تعداد میں بے پناہ
اضافہ ہوجائے گا پھر آپ جو یہ کام کررہے ہیں جس کیلئے کروڑوں روپے کے
اشتہار اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا میں دئیے جاتے ہیں اس کی ضرورت نہیں
رہے گی ۔ کیونکہ
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
اگر ہم آج چوہدری پرویز الٰہی کو یاد کررہے ہیں تو ان کی خدمات غریب عوام
کیلئے تھیں اور ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ گنگا نہائے ہیں لیکن کسی کی نیکی
کو بندہ نہ مانے تو وہ احسان فراموش ہوتا ہے ۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی نے دل کے مریضوں خصوصاً غریبوں کو سکھ سے جینے میں مدد دی
1122خدمت خلق کی بہترین مثال اور اس پر عوام کا بے پناہ اعتماد ہے مفت
کتابیں بچیوں کیلئے ماہانہ وظیفہ وغیرہ اور اسی طرح کچھ اور کام بھی ان کے
اعزازات اور غریبوں کیلئے نیکیوں میں شامل ہیں ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے بچے
غریب ہیں اگر وہ 5.10 جماعت پڑھ جائیں تو ہمارے لئے یہی لیپ ٹاپ ہے ہمیں
دانش سکولوں کی نہیں غریب علاقوں کے سکولوں میں نیک اور قابل اساتذہ کی
ضرورت ہے جو تعلیم کو مشن سمجھتے ہوں ہمیں بچوں بچیوں کے غریب سکولوں میں
کتابوں اور یونیفارم کی ضرورت ہے کچھ تھوڑے بہت ہر بچے کیلئے وظیفے کی
ضرورت ہے جو ان کے ماں باپ کی غربت کو کم کرسکے چار دیواریوں کی ضرورت ہے
نئے سکولوں کی ضرورت ہے آج خواتین اساتذہ دیہاتی سکولوں میں صرف حاضری تک
محدود ہیں پورا ٹائم نہیں دیتیں اور ہم نے تو یہ سنا ہے کہ دیہات کے سکولوں
کی بچیوں سے پتہ نہیں کیا کیا منگوا کر لدی پھندی گھروں کو آتی ہیں اور
انتہائی کم قیمت پر خرید لاتی ہیں خدارا غریبوں کا خیال کریں ہم اپنے ایم
این ایز اور ایم پی ایز کو بھی عرض کریں گے کہ وہ متحرک ہوں جناب افضل خان
ڈھانڈلہ ،نجیب اللہ نیازی متحرک ہیں عامر خان شہانی اور عبدالمجید خنان خیل
اور امیر محمد خان کو بھی متحرک ہونا چاہیے یہ تعلیمی پسماندگی مل جل کر
کام کرنے سے ختم ہوگی عوام کو اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے اٹھنا ہوگا کیونکہ
کچھ انتظام کروگے تو روشنی ہوگی
چراغ خود نہیں جلتا لایاجاتا ہے
میرے آقا کریم ۖ نے تو فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے
انہوں نے تو تعلیم کے بدلے بدر کے قیدی رہا کردئیے ہمیں تعلیم کی ضرورت
محسوس کرنی چاہیے چین میں کہاوت ہے کہ ہزار کتابیں پڑھو اور علم کے لئے
ہزار میل سفر کرو ہمیں اپنے اراکین اسمبلی اور حکومت پر گرفت کرنی چاہیے
اپنے مسائل حل کرانے کیلئے عوام کو خود آگے بڑھنا ہوگا ۔ خادم اعلیٰ پنجاب
اگر تاریخ میں تابناک نام لکھوانا چاہتے ہیں تو انہیں صرف لاہور پر نہیں
بھکر جیسے غریب پسماندہ علاقوں پر توجہ دینا ہوگی اور غریب عوام کی مشکلات
کو عملی طریقے سے حل کرنا ہوگا۔ |